لبنان کی پارلیمان نے اُس متنازعہ قانون کو منسوخ کر دیا ہے، جس کے تحت ریپ کرنے والا مرد اگر متاثرہ لڑکی سے شادی کر لے تو وہ سزا سے بچ جاتا تھا۔ چالیس کی دہائی سے یہ قانون اس عرب ملک میں رائج تھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے لبنانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ سولہ اگست بروز بدھ ملکی پارلیمان نے اُس پرانے قانون کو منسوخ کر دیا ہے، جس کے تحت ریپ کرنے والا مرد اگر متاثرہ لڑکی سے شادی کر لے تو وہ سزا سے بچ جاتا تھا۔ لبنان میں کئی برسوں سے انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان اس قانون کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔
تیونس، مصر اور مراکش میں اس قانون کو کئی برسوں پہلے منسوخ کر دیا گیا تھا جبکہ ایسے ہی ایک قانون کو اردن نے حال ہی میں ختم کیا تھا۔ تاہم ’ریپ کرنے والے سے شادی کرلو‘ جیسا قانون ابھی بھی الجزائر، عراق، کویت، لیبیا، فلسطینی علاقوں اور شام کے علاوہ کئی لاطینی امریکی ممالک میں بھی موجود ہے۔
کرغیزستان میں دولہنوں کا اغوا ایک روایت
02:15
ہیومن رائٹس واچ کی فہرست کے مطابق فلپائن اور تاجکستان میں بھی یہ قانون موجود ہے، جس کے تحت ریپ کرنے والا مرد اگر متاثرہ لڑکی سے شادی پر تیار ہو جاتا ہے تو اسے سزا نہیں دی جاتی۔
مشرق وسطیٰ کے قدامت پسند ممالک میں کئی حلقے اب بھی اس قانون کی حمایت کرتے ہیں۔
ان کا مؤقف ہے کہ اگر کسی لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کے باعث متاثرہ لڑکی اور اس کے گھرانے کی ’عزت‘ محفوظ ہو سکتی ہے تو اس قانون میں کوئی حرج نہیں ہے۔
تاہم انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق حاصل ہونا چاہییں۔ لبنان کے موجودہ قوانین کے مطابق ریپ کرنے والے مجرم کو سات برس کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ تاہم اس قانون کے آرٹیکل 522 میں درج ہے کہ اگر مجرم متاثرہ لڑکی سے شادی کر لے تو اس کو سزا نہیں دی جائے گی۔
لبنان میں اس قانون کے خاتمے پر انسانی حقوق کے کارکنان کے علاوہ ہیومن رائٹس واچ نے بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اس انسانی حقوق کے عالمی گروپ نے لبنان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے ملکی قوانین کو زیادہ مؤثر بنانے کی ضرورت اب بھی ہے۔ اس گروپ کے مطابق اب ملکی پارلیمان کو چائلڈ میرج اور ازدواجی جنسی زیادتی کے خاتمے کی خاطر اقدامات کرنا چاہییں۔ لبنان میں فی الحال یہ دونوں اعمال قانونی طور ہر جائز ہیں۔
طلاق کیسے ہو سکتی ہے؟
مشرقی ممالک کی نسبت مغربی ممالک میں طلاق کی شرح نسبتاﹰ زیادہ ہے۔ جرمنی میں ایک تہائی تو امریکا میں قریب نصف شادیوں کا انجام طلاق پر ہوتا ہے۔ دنیا کے بعض علاقوں میں طلاق کے لیے بہت عجیب قوانین ہیں۔ تفصیلات یہاں دیکھیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
شادی ٹوٹنے کی وجہ بننے والے کو جرمانہ
اس قانون میں شوہر یا بیوی کے علاوہ کسی تیسرے شخص کو کوئی شادی ٹوٹنے کا ذمہ دار ہونے پر بھاری جرمانہ ہو سکتا ہے۔ نیو میکسیکو اور مِسِسپی سمیت امریکا کی سات ریاستوں میں نافذ اس قانون میں متاثرہ پارٹی کو حقائق کے ساتھ یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ فلاں شخص کی وجہ سے اس کی شادی ٹوٹی۔
تصویر: Fotolia/detailblick
شرط جیتنے کے لیے شادی
شادی یوں تو کوئی ہنسی مذاق یا کھیل نہیں ہے لیکن امریکی ریاست ڈیلاویئر میں اگر آپ ایسا کر بیٹھیں تو قانون آپ کے ساتھ ہے۔ اگر کوئی شخص ’’مذاق‘‘ یا ’’جوش‘‘ میں آ کر شادی کر بیٹھے تو وہ طلاق کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔ ایسے کئی کیسز ہیں جن میں لوگوں نے شراب کے نشے میں دوستوں کے ساتھ بازی لگائی اور مذاق مذاق میں شادی کر لی جسے بعد میں منسوخ کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارٹنر کا ذہنی عدم توازن
نیویارک میں اگر آپ ثابت کر سکیں کہ آپ پارٹنر دماغی طور پر عدم توازن کا شکار ہے تو اس بنیاد پر آپ طلاق حاصل کر سکتے ہیں۔ شرط ہے کہ شادی کے دوران کم سے پانچ سالوں تک آپ کے پارٹنر کی ذہنی حالت خراب رہی ہو۔
تصویر: imago/Steinach
کسی اور سے شادی
آسٹریلیا کے قدیم مقامی باشندوں میں خواتین کے پاس طلاق حاصل کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی اور سے شادی کر لے۔ اس طرح پہلی شادی منسوخ ہو جاتی ہے۔ یہ طریقہ آسان تو ہے، لیکن ظاہر ہے اگلی شادی کا ٹوٹنا بھی اتنا ہی آسان ہوگا۔
تصویر: Colourbox
طلاق غیر قانونی
فلپائن میں مسلمانوں کے علاوہ باقی لوگوں کے لیے طلاق غیر قانونی ہے۔ اس کے علاوہ 98 فیصد کیتھولک عیسائی آبادی والے ملک مالٹا میں بھی طلاق غیر قانونی ہے۔ 1997ء سے پہلے تک بہت سے یورپی ممالک میں بھی یہی صورت حال تھی جو اب بدل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/CTK/Josef Horazny
دوری اختیار کرنے سے طلاق
جب اسکیمو لوگ طلاق کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو سب سے پہلے ایک دوسرے سے الگ رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح الگ رہنے کا مطلب ہی طلاق ہوتی ہے۔
تصویر: DVD-Anbieter Absolut Medien
طلاق کا جشن
نیویارک اور امریکا کے دوسرے بڑے شہروں میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو طلاق پارٹی منعقد کرتے ہیں۔ کئی بار انتہائی پرجوش اور بھڑکیلے انداز والی تو کبھی کبھار کافی پرسکون طلاق پارٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ جن میں طلاق لینے والی عورت یا مرد اپنے دوستوں اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لاس ویگاس، لاس اینجلس اور نیو یارک جیسے شہر ایسی پارٹیوں کا گڑھ ہیں۔