1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جب لاہور اچانک بھارت کے بجائے پاکستان کا حصہ بن گیا

15 اگست 2022

ریڈکلف کے مطابق پاکستانیوں کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے لاہور کو پاکستان کا حصہ بنایا۔ ان کے بقول انہوں نے ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کا زیادہ ساتھ دیا۔

Lahore Pakistan Panorama Altstadt Moschee
تصویر: Getty Images

1947ء کی تقسیم کا گھاؤ وقت کا مرہم بھی مندمل نہیں کر سکا۔ 75 برس گزر چکے مگر بالخصوص پنجاب کے لوگوں کے لیے جیسے وہ لمحہ تھم سا گیا ہے، جب ایک لکیر نے صدیوں پر محیط سانجھ داری ٹکڑوں میں تقسیم کر دی۔ نفسیاتی صدمے کا باعث بننے والی اس لکیر کو کھینچنے کی ذمہ داری پنجاب باؤنڈری کمیشن کے سپرد تھی، جس کا فیصلہ سیاسی طور پر متنازعہ اور وسیع پیمانے پر قتل عام کے ایک سبب کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

پنجاب باؤنڈری کمیشن

8 جولائی 1947ء کو سر ریڈکلف نے باؤنڈری کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے انڈیا میں قدم رکھا، جن کے پاس محض پانچ ہفتوں کا ٹائم تھا۔ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے لیے دو الگ الگ کمیشن تشکیل دیے گئے۔ پنجاب کے کمیشن میں مسلم لیگ کی طرف سے جسٹس (ر) دین محمد اور جسٹس محمد منیر جبکہ کانگریس کی جانب سے مسٹر مہرچند مہاجن اور مسٹر تیجا سنگھ نامزد رکن کے طور پر شامل تھے۔ کمیشن کا کام ”آبادی اور دیگر عوامل" کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کرنا تھا۔

کیونکہ کانگریس اور مسلم لیگ کے نامزد رکن تعداد میں برابر اور اپنے مؤقف میں غیر لچکدار تھے اس لیے تمام متنازعہ علاقوں کے معاملے میں ریڈ کلف کی رائے فیصلہ کن حیثیت رکھتی تھی۔ تقسیم کے تقریباً 24 برس بعد لندن میں ان کے فلیٹ پر بات چیت کے دوران بھارتی صحافی کلدیپ نیر نے ان سے پوچھا، ”آپ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان جس طرح سرحد کھینچی کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟" ریڈ کلف نے جواب دیتے ہوئے کہا، ”میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، مجھے اتنا کم وقت دیا گیا جس میں میں اس سے بہتر کام نہیں کر سکتا تھا۔"

تصویر: picture-alliance/dpa/R. Dar

 گورداسپور کی متنازعہ تقسیم

 ریڈ کلف کے متنازعہ ترین فیصلوں میں گورداسپور کی تقسیم اور اس کی تین تحصیلوں کو بھارت کے حوالے کرنا بھی شامل ہے جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ضلع گورداسپور چار تحصیلوں پر مشتمل تھا: شیرگڑھ، پٹھان کوٹ، گرداسپور اور بٹالہ۔ 51 فیصد سے بھی زائد مسلم آبادی والے اس ضلع کی پاکستان میں شمولیت اس قدر یقینی تھی کہ پاکستان نے 14 اگست کے دن مشتاق احمد چیمہ کو اپنا ڈپٹی کمشنر بھی تعینات کر دیا۔ مگر جب 17 اگست کو باؤنڈری کمیشن کا فیصلہ سامنے آیا تو محض ایک تحصیل شکر گڑھ پاکستان کو دی گئی تھی (جو اب نارووال کا حصہ ہے)۔ حالانکہ تحصیل گرداسپور اور بٹالہ میں بھی مسلمان اکثریت میں تھے۔

پاکستان آج بھی اس موقف پر قائم ہے کہ ان تینوں تحصیلوں کی انڈیا میں شمولیت لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے دباؤ پر کی گئی تاکہ بھارت کو جموں و کشمیر تک کا راستہ مل سکے۔

برطانوی مؤرخ Alex Von Tunzelmann  اپنی کتاب  انڈین سمر: دی سیکرٹ ہسٹری آف دی اینڈ آف این ایمپائر میں مختلف نقطہ نظر پیش کرتی ہیں۔ ان کے مطابق، ”فروری 1946 میں وائسرائے لارڈ ویول نے اس بات پر اصرار کیا تھا کہ تقسیم ہند کے دوران گورداسپور کو امرتسر کے ساتھ ہی رکھا جائے گا۔ اگر گورداسپور مسلمانوں کو دے دیا گیا تو امرتسر مشرق، مغرب اور شمال کی جانب سے پاکستان کے گھیرے میں آ جائے گا، جس سے سکھوں کی پوزیشن غیر مستحکم ہو جائے گی۔"

اس اچانک اور غیر متوقع فیصلے سے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد گورداسپور میں پھنس کر رہ گئی۔ بالخصوص اس کی ٹائمنگ انتہائی خوفناک تھی۔ دی پنجاب: بلڈیڈ، پارٹیشینڈ اینڈ کلینزڈ میں پروفیسر اشتیاق احمد افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ”سب سے زیادہ غلط چیز اس کی ٹائمنگ تھی، اچانک لاکھوں افراد سرحد کی غلط جانب تھے۔ نوآبادیاتی حکومت جو امن و امان برقرار رکھ سکتی تھی وہ جا چکی تھی۔ دوسری طرف لکیر کی غلط سمت میں بیٹھے بے یار و مددگار لوگ ان جتھوں کا آسان ہدف تھے جو کئی ماہ سے تشدد کی تیاریاں کر رہے تھے۔" 

 جب ریڈ کلف لاہور کو بھارت میں شامل کرنے لگے تھے

 کلدیپ نیر اپنی کتاب سکوپ! اِن سائیڈ سٹوریز فرام پارٹیشن ٹو پریذنٹ میں ریڈ کلف سے اپنی ملاقات کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے آگے چل کر لکھتے ہیں، ’’میں نے انہیں کہا کہ پاکستانی مسلمانوں کو شکایت ہے کہ آپ نے ہندوستان کا ساتھ دیا۔" ریڈ کلف کا جواب تھا ”انہیں میرا شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ انہیں لاہور دینے کے لیے میں نے غیر معمولی قدم اٹھایا جو ویسے انڈیا کا بنتا تھا۔ اس طرح سے میں نے ہندوؤں کی نسبت مسلمانوں کا زیادہ ساتھ دیا۔" ریڈ کلف اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”مجھے خیال آیا کہ پاکستان کے پاس کوئی بڑا شہر ہی نہیں ہو گا کیونکہ کلکتہ میں پہلے ہی انڈیا کو دے چکا تھا۔"

لاہور آبادی کے اعتبار سے واضح مسلم اکثریتی علاقہ تھا۔ 1941ء کی مردم شماری کے مطابق 60.5 فیصد مسلمان جبکہ ہندو، سکھ اور عیسائی کل ملا کر 35 فیصد بنتے تھے۔ لیکن تقسیم کے فارمولے میں آبادی کے علاوہ ”دیگر عوامل " کا بھی ذکر ہے، جس میں کاروبار پر کنٹرول اور زمین کی ملکیت خاصی اہمیت کے حامل تھے۔ ہندو اور سکھ لاہور کے تقریباً 80 فیصد کاروبار کے مالک تھے۔

 پاکستانی مؤرخ پروفیسر اشتیاق احمد کے مضمون دی بیٹل فار لاہور اینڈ امرتسر کے مطابق، ”اکثریتی مسلم آبادی کے واضح اعداد و شمار کے باوجود بہت سے سکھ اور ہندو یقین رکھتے تھے کہ وہ اکثریت میں ہیں۔ ان میں بڑے پیمانے پر یہ خیال پایا جاتا تھا کہ جو مرضی ہو جائے لاہور انہی کا رہے گا۔"

 پنجاب باؤنڈری کمیشن کے سامنے جب سکھوں کے وکیل ہرنام سنگھ نے خود کو پنجاب کے اصل وارث ثابت کرنے کے لیے دلائل پیش کیے تو چند شہروں کا نام لے کر ذکر کیا جن میں گورداسپور اور لاہور دونوں شامل تھے۔

لاہور کی پاکستان میں شمولیت کا ردعمل ہرگز معمولی نہیں تھا۔ پروفیسر اشتیاق احمد کے مطابق، ”سکھ تیاریاں کر رہے تھے کہ اگر ننکانہ صاحب اور لاہور، جو دونوں ان کے لیے مقدس ہیں، انڈیا کو نہ دیے گئے تو وہ بدلہ لینے کے لیے حملے کریں گے۔" جب ان کی توقعات پوری نہ ہوئیں تو مسلمانوں کو بالخصوص امرتسر میں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

لاہور ملنے کی خوشی اپنی جگہ مگر انسانی جانوں کے نقصان کا کون ذمہ دار؟

لاہور صدیوں سے سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز اور برصغیر کی ثقافتی سرگرمیوں کی جان رہا ہے۔ تقسیم کے فوراً بعد پاکستان کی فلم انڈسٹری نے اسی شہر سے اپنی بنیاد اٹھائی۔  شعر و ادب کی آبیاری میں اس شہر کی کنٹری بیوشن کا کوئی جواب نہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان میں اٹھنے والے تمام بڑی سیاسی تحریکوں کا مرکز بھی یہی شہر رہا۔ ایسے غیر معمولی شہر کو پاکستان کا حصہ بنانے کے لیے کیا پاکستانیوں کوریڈ کلف کے ممنون ہونا چاہیے؟ مگر اتنی بڑی تعداد میں قتل عام کا ذمہ دار کون ہے؟

ریڈ کلف نے اپنی زندگی میں تمام دستاویزات جلا ڈالی تھیں اور خود کوئی کتاب بھی تحریر نہیں کی۔ البتہ ان کی اس بات میں وزن ہے کہ اتنے کم وقت میں اس سے بہتر فیصلہ ممکن نہیں تھا۔ ریڈ کلف نہ یہاں کے کلچر سے واقف تھے نہ جغرافیائی خطوط کو سمجھتے تھے۔ مگر نوآبادیاتی حکمران اور ہماری اشرافیہ سے یہ سب چیزیں تو ڈھکی چھپی نہ تھیں۔ مذہبی منافرت اور سیاسی مخاصمت تقسیم سے پہلے عروج پر تھی مگر کسی نے عوام کو خون کی ہولی سے بچانے کے لیے پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں