1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریڑھ کی ہڈی کے مریض اب چل پھر سکیں گے، نئی تحقیق

9 دسمبر 2024

سائنس دانوں نے دعوٰی کیا ہے کہ دماغ کے ایک خاص حصے کو بجلی سے متحرک کرنے سے زخمی ریڑھ کی ہڈی والے مریض بھی زیادہ آسانی سے چل پھر سکتے ہیں۔

Schweiz Lausanne | Gert-Jan Oskam übt Gehen nach Rückenmarksverletzung
تصویر: DW

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی، اے ایف پی، کو اسپائنل کورڈ یا ریڑھ کی ہڈی کے ایک مریض نے بتایا کہ اس نئی تکنیک سے اسے خوف پر قابو پانے میں مدد ملی اور اب وہ زیادہ آسانی سے سیڑھیاں چڑھ سکتا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس نئی تکنیک کا مقصد اسپائنل کورڈ پر چوٹ لگنے والے ایسے مریضوں کی مدد کرنا ہے جن کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے درمیان رابطہ مکمل طور پر منقطع نہیں ہوا اور جن کی ٹانگوں میں اب بھی کچھ حرکت ہے۔

کمزور ہڈیوں کے باعث کمر کا شدید درد: اب سرجری ضروری نہیں

ابتدائی تجربے میں حصہ لینے والے دو مریضوں میں سے ایک 54 سالہ وولف گانگ ژیگر ہیں جن کا کہنا ہے کہ اس تکنیک نے فوری طور پر ان کی نقل و حرکت میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ 

جریدے نیچر میڈیسن میں اس تحقیق کوشائع کرنے کے ساتھ ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے جس میں ژیگر نے کہا کہ جب میں صرف چند قدموں والی سیڑھی دیکھتا ہوں، تو مجھے یقین ہوتا ہے کہ میں اسے خود ہی عبورکر سکتا ہوں۔

پاکستان: ریڑھ کی ہڈیوں کا پانی نکالنے والا گروہ پکڑا گیا

سوئس ٹیم کی طرف سے کی گئی اس تحقیق نے کئی نئے امکانات پیدا کیے ہیں، جن میں خاص طور پر ریڑھ کی ہڈی کو الیکٹرک اسٹیمولیٹر کی مدد سے مفلوج مریضوں کو دوبارہ چلنے کے قابل بنانا ہے۔

اپنی ریڑھ کی ہڈی کے برقی محرک کی بدولت ایک مریض چلتا ہواتصویر: Valentin Flauraud/KEYSTONE/picture alliance

چوہوں پر ریسرچ کے مثبت نتائج

محققین یہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ دماغ کا کون سا حصہ ریڑھ کی ہڈی کی چوٹوں سے صحت یابی کے لیے سب سے زیادہ معاون ہے۔

تھری ڈی خاکوں کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے زخمی ریڑھ کی ہڈی والے چوہوں کی دماغی سرگرمیوں کو جانچنے کی کوشش کی گئی ہے اور ماہرین نے اسے برین وائیڈ اٹلس کا نام دیا ہے۔

سائنسدان یہ جان کر حیران رہ گئے کہ دماغ کے جس حصے کو وہ تلاش کر رہے تھے وہ لیٹرل ہائپوتھیلمس میں تھا، جسے عام طور پر جوش دلانے، حوصلہ افزائی کرنے اور کھانا کھلانے کے لیے ایک ریگولیٹر کے طور پر جانا جاتا ہے۔

پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کے امراض کی پہلی علاج گاہ

نیورو سائنٹسٹ گریگوئیر کورٹائن نے اے ایف پی کو بتایا کہ دماغ کے اس خاص حصے میں نیورونز کا ایک گروپ ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ کے بعد چلنے پھرنے کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اگلے مرحلے میں ٹیم نے ڈیپ برین محرک کے نام سے ایک طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے ان نیورونز سے سگنل کو بڑھانے کی کوشش کی، یہ طریقہ عام طور پر پارکنسنز کی بیماری میں مبتلا لوگوں میں نقل و حرکت کے مسائل کے علاج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اس میں سرجن دماغ کے ایک حصے میں الیکٹروڈ لگاتا ہے، جو مریض کے سینے میں لگائے گئے آلے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب سوئچ آن ہوتا ہے تو آلہ دماغ تک برقی لہریں بھیجتا ہے۔

اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ سب سے پہلےماہرین نے چوہوں پر اس کا تجربہ کیا، جس سے معلوم ہوا کہ اس سے فوری طور پرچلنے پھرنے میں مدد ملی ہے ۔ 

کمر کے نچلے حصے کا درد، علاج اور احتیاط

2022 میں ہونے والے سوئس ٹیم کے تجربات کی پہلی انسانی شریک ایک خاتون تھیں جو جیگر کی طرح ریڑھ کی ہڈی کی ایک ایسی چوٹ کا شکار ہیں جس نے انھیں مکمل طور پر اپاہج یا معذور نہیں کیا۔ نیورو سرجن جوسلین بلوچ نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب پہلی بار خاتون کا آلہ آن کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں اپنی ٹانگوں میں حرکت محسوس کر رہی ہوں۔ جب بجلی کا کرنٹ لگایا گیا تو خاتون نے کہا کہ میرے اندر چلنے کی خواہش پیدا ہو رہی ہے۔

 جوسلین بلوچ کے مطابق تجربات کے دوران کئی مہینوں بحالی کے اس عمل کا حصہ رہنے والے مریض جب بھی ضرورت محسوس کرتے اپنے آلے کو آن کر سکتے تھے۔ خاتون چاہتی تھیں کہ وہ بغیر واکر کے آزادانہ طور پر چل پھر سکیں، جب کہ جیگر کی خواہش تھی کہ وہ خود سیڑھیاں چڑھ سکیں اوران دونوں کی خواہش پوری ہوئی۔

اسمارٹ فونز کا زیادہ استعمال نقصان دہ ہے ہماری صحت کے لیے

03:41

This browser does not support the video element.

امید کی کرن

جیگر، جو سوئس میونسپلٹی کیپل کے رہائشی ہیں، بتاتے ہیں کہ ڈیوائس کے آن ہوتے ہی سیڑھیوں سے اوپرجانا اور نیچے اترنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ انھوں نے بتایا کہ گزشتہ چھٹیوں کے دوران وہ سمندر میں آٹھ قدم نیچے اترے تھے۔ جیگر کے لیے یہ ایک  بہت اچھا احساس ہے کیونکہ اب انھیں ہر وقت دوسروں پر انحصار نہیں کرنا پڑتا ۔

درد کو بیماری نہ سمجھنا ایک معاشرتی مسئلہ

انہوں نے مزید کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتری آئی ہے اوراب وہ زیادہ دیر تک چل سکتے ہیں، حتیٰ کہ ڈیوائس بند ہونے پر بھی ۔ تاہم اور بہترنتائج کےلیے شاید ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے ۔

 نیورو سائنٹسٹ گریگوئیر کورٹائن نے بتایا کہ یہ تکنیک تمام مریضوں کے لیے مؤثر نہیں ہوگی۔  کیونکہ اس کا انحصار ریڑھ کی ہڈی کی طرف دماغ کے سگنلزمیں اضافے پر ہے۔ اوریہ اہم ہے کہ پہلے کتنے سگنلز مل رہے ہیں۔ کورٹائن نے مزید کہا کہ ڈیپ برین اسٹیمولیشن اب کافی عام ہو گیا ہے اور کچھ لوگ اس سے پریشان بھی ہیں کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ کوئی اور فرد ان کے دماغ کا کنٹرول حاصل کرے۔

محققین کا خیال ہے کہ مستقبل میں ایسے مریضوں کی صحت یابی کے لیے ریڑھ کی ہڈی اور لیٹرل ہائپوتھیلمس دونوں کو متحرک کرنا ایک بہترین آپشن ہو سکتا ہے۔

ح ا ⁄ ج ا (اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں