ریکو ڈک ڈیل: پاکستان کی چھ ارب ڈالر جرمانے کی منسوخی کی اپیل
7 ستمبر 2020
پاکستان کی کوشش ہے کہ اسے بلوچستان میں ریکو ڈک مائننگ ڈیل کے باعث کیا گیا تقریباﹰ چھ ارب ڈالر جرمانہ مسنوخ کر دیا جائے۔ معاہدہ ایک آسٹریلوی کمپنی سے کیا گیا تھا۔ پاکستان پر یہ جرمانہ ایک انٹرنیشنل عدالت نے عائد کیا تھا۔
اشتہار
پاکستان کے معدنی دولت سے مالا مال صوبے بلوچستان میں ریکو ڈک کے مقام پر قدرتی معدنیات، خاص کر سونے او تانبے کے بہت بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ماضی میں وہاں کان کنی کے لیے ٹیتھیان کاپر کارپوریشن کے ساتھ ایک لیزنگ ڈیل پر دستخط کیے گئے تھے، جسے بعد میں حکومت نے منسوخ کر دیا تھا۔
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں
بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار دنیا کے بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ اس کوئلہ کا ایک ٹن اوپن مارکیٹ میں 10 سے 11 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ
بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقےمیں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کم اجرت
18 سالہ سید محمد مچھ کےعلاقے مارواڑ میں گزشتہ دو سالوں سے ٹرکوں میں کو ئلے کی لوڈ نگ کا کام کرتا ہے، جس سے روزانہ اسے 3 سو سے پانچ سو روپے تک مزدوری مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کان کن
بلوچستان کے علا قے مارواڑ،سورینج، ڈیگاری ،سنجدی اور چمالانگ کے کوئلہ کانوں میں سوات، کوہستان اور خیبر پختونخواء سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کانوں میں حادثات سے درجنوں کان کن ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
سہولیات کا فقدان
بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث بلوچستان میں کان کنی سے وابستہ افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے حکومتی سطح پرابھی تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ مائننگ کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی لیے ان کانوں میں حادثات کے باعث اکثر اوقات کانکن اندر پھنس جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیرین زادہ
55 سالہ شیرین زادہ سوات کے پہاڑی ضلع شانگلہ کا رہائشی ہے، جو گزشتہ 25 سالوں سے بلوچستان میں کان کنی کا کام کر رہا ہے۔ شیرین زادہ کہتے ہیں کہ کوئلے کی کانوں میں مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کوئلے کی ترسیل
مزدور مجموعی طور ہر کوئلے کے ایک ٹرک کی لوڈ نگ کا معاوضہ 3 سے 4 ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں۔ یہ رقم بعد میں آپس میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ بعد میں یہ کوئلہ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ٹرک میں 28 سے 34 ٹن کوئلے گنجائش ہوتی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
6 تصاویر1 | 6
ٹیتھیان کاپر کارپوریشن ایک ایسا ادارہ ہے، جس میں آسٹریلیا کی بیرک گولڈ کارپوریشن اور چلی کی کمپنی آنٹوفاگاسٹو میں سے ہر ایک کو پچاس پچاس فیصد ملکیتی حقوق حاصل ہیں۔ پاکستانی حکومت کے مطابق یہ ذخائر اسٹریٹیجک نوعیت کے قومی اثاثوں کا حصہ ہیں اور اسی لیے یہ معاہدہ منسوخ کر دیا گیا تھا۔
منسوخی کی درخواست میں دی گئی دلیل
ریکو ڈک ڈیل کی منسوخی کے بعد آسٹریلوی کمپنی ایک بین الاقوامی عدالت میں چلی گئی تھی۔ عدالت نے گزشتہ برس پاکستان پر 5.8 بلین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔
پاکستان نے اب اس جرمانے کے خلاف یہ کہہ کر اپیل دائر کر دی ہے کہ اتنی بڑی رقم کی ادائیگی سے پاکستان کی کورونا کے خلاف لڑائی متاثر ہو گی۔
عالمی بینک کا متعلقہ محکمہ فی الحال پاکستان کی درخواست پر غور کر رہا ہے۔ دریں اثنا صوبہ بلوچستان کی حکومت اپنی ایک کمپنی قائم کر چکی ہے تاکہ ریکو ڈک سمیت صوبے میں معدنیات کی کان کنی کا کام مقامی طور پر کیا جا سکے۔
اسی دوران پاکستانی حکومت اور ٹیتھیان دونوں ہی اس بارے میں رضا مندی بھی ظاہر کر چکے ہیں کہ وہ اس تنازعے کے کسی بہتر حل کے لیے بات چیت پر تیار ہیں۔ تاہم ایسے کسی ممکنہ حل کے لیے مذاکرات کس مرحلے میں ہیں، یہ بات واضح نہیں ہے۔
تنازعے کے فریقین کیا کہتے ہیں؟
پاکستان کے ساتھ اس تنازعے کے بارے میں ابھی حال ہی میں جب ٹیتھیان کاپر کارپوریشن سے رابطہ کیا گیا تو کمپنی کے عہدیداروں نے کہا کہ ان کے پاس کہنے کو کچھ نیا نہیں ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کے اٹارنی جنرل کے دفتر کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ ٹیتھیان کارپوریشن کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ ممکن تو ہے، لیکن ایسا انٹرنیشنل ٹریبیونل کے حتمی فیصلے کے بعد ہی ہو سکے گا۔
جرمانے کی منسوخی سے متعلق پاکستانی حکومت کی درخواست پر حتمی فیصلہ اگلے سال تک متوقع ہے۔
م م / ش ج (اے پی)
سیندک منصوبہ: سونے اور چاندی کے وسیع ذخائر
بلوچستان کے دور افتادہ ضلع چاغی کے سرحدی علاقے سیندک میں گزشتہ تیس سالوں سے سونے چاندی اور کاپر کی مائننگ ہو رہی ہے۔ اس علاقے میں سونے چاندی اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مقام پر تانبے کی دریافت سن 1901 میں ہوئی لیکن یہاں کام کا آغاز 1964 میں شروع کیا گیا۔ انیس سو اسی کی دہائی میں معدنیات کی باقاعدہ پیداوار کے لیے ’سیندک میٹل لمیٹڈ‘ کی جانب سے منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
حکومت پاکستان نے منصوبے پر کام کے لیے پہلا معاہدہ چینی کمپنی ’چائنا میٹالارجیکل کنسٹرکشن کمپنی‘ (ایم سی سی ) کے ساتھ کیا۔ ابتدا میں آمدنی کا 50 فیصد حصہ چینی کمپنی جب کہ 50 فیصد حصہ حکومت پاکستان کو ملنے کا معاہدہ طے کیا گیا تھا۔ پاکستان کی مرکزی حکومت اپنی آمدنی سے دو فیصد بلوچستان کو فراہم کرتی تھی تاہم بعد میں یہ حصہ بڑھا کر 30 فیصد کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ میں ملازمین کی کل تعداد اٹھارہ سو کے قریب ہے جن میں چودہ سو کا تعلق پاکستان جب کہ چار سو ملازمین کا تعلق چین سے ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک منصوبے پر ایم سی سی نے اکتوبر 1991 میں کام شروع کیا۔ سن 1996 میں بعض وجوہات کی بنا پر اس منصوبے پر کام روک دیا گیا اور پروجیکٹ کے تمام ملازمین کو ’گولڈن ہینڈ شیک‘ دے کرفارغ کر دیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سن 2000 میں پاکستان کی مرکزی حکومت نے سیندک منصوبے کو لیز پر دینے کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ چینی کمپنی ایم سی سی نے ٹینڈر جیت کر مئی 2001 سے دس سالہ منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے علاقے سے اب تک لاکھوں ٹن سونا، تانبا ، چاندی اور کاپر نکالا جا چکا ہے۔ نکالے گئے ان معدنیات میں سب سے زیادہ مقدار کاپر کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سیندک سے مائننگ کے دوران اب تک دس لاکھ ٹن سے زائد ذخائز نکالے جا چکے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
چینی کمپنی ایم سی سی نے دفتری کام اور پیداواری امور سرانجام دینے کے لیے ’ایم سی سی ریسورس ڈیویلمنٹ کمپنی‘کے نام سے پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کی ہے۔ اس منصوبے کے معاہدے کی معیاد 2021ء تک ختم ہو رہی ہے اور چینی کمپنی علاقے میں مزید مائننگ کی بھی خواہش مند ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں مائننگ کے دوران ڈمپر اسی سے پچانوے ٹن خام مال کو سیمولیٹر کے پاس زخیرہ کرتے ہیں۔ بعد میں سیمولیٹر سے خام مال ریت بن کر دوسرے سیکشن میں منتقل ہو جاتا ہے۔ پلانٹ میں خام مال مختلف رولرز سے گزر کر پانی اور کیمیکلز کے ذریعے پراسس کیا جاتا ہے اور بعد میں اس میٹیرئیل سے بھٹی میں بلاک تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مغربی کان میں کھدائی مکمل ہوچکی ہے تاہم اس وقت مشرقی اور شمالی کانوں سے خام مال حاصل کیا جا رہا ہے۔ پروجیکٹ میں مائننگ کا یہ کام چوبیس گھنٹے بغیر کسی وقفے کے کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
ماہرین کے بقول خام مال سے ہر کاسٹنگ میں چوالیس سے پچپن کے قریب بلاکس تیار کیے جاتے ہیں جن کا مجموعی وزن سات کلوگرام سے زائد ہوتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں سونے تانبے اور چاندی کے تین بڑے ذخائر کی دریافت ہوئی۔ سیندک کی تہہ میں تانبے کی کل مقدارچار سو بارہ ملین ٹن ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انیس سال کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور یہ معاہدہ سن 2021 میں اختتام پذیر ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک پروجیکٹ سے پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے۔ منصوبے میں ملازمین کی کم از کم تنخواہ اسی سے سو ڈالر جب کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ پندرہ سو ڈالر کے قریب ہے۔