پاکستان ميں سونے اور تانبے کے ذخائر کئی مقامات میں چھپے ہوئے ہيں البتہ صوبہ بلوچستان ميں رکو ڈک کی کان کو نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی کافی بڑی مانا جاتا ہے۔
اشتہار
رکو ڈک سے متعلق منصوبہ جات سے وابستہ وفاقی و صوبائی حکومت سے منسلک دس موجودہ و سابق اہلکاروں نے بتايا ہے کہ رکو ڈک کے مستقبل کے بارے ميں سامنے آنے والی کسی بھی پيش رفت ميں ملکی فوج اہم ترين فريق ثابت ہو سکتی ہے۔ فوج رکو ڈک کو قومی اثاثے کے طور پر ديکھتی ہے۔ اہلکاروں کے مطابق فوج براہ راست يہ فيصلہ نہيں کر سکتی کہ رکو ڈک سے تانبے اور سونے کے ذخائر نکالنے ميں کن سرمايہ کاروں کو فريق بنانا ہے تاہم فوج کے کنٹرول ميں چلنے والی ’فرنٹيئر ورکس آرگنائزيشن‘ (FWO) اس سلسلے ميں بننے والے کسی بھی کنسورشيم کا حصہ بننے کی کوششوں ميں ہے۔ بلوچستان حکومت کے ايک اہلکار نے فوجی ہيڈ کوارٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’اس پر جی ايچ کيو نے قبضہ کر ليا ہے۔‘‘
دوسری جانب جب خبر رساں ادارے روئٹرز نے رکو ڈک ميں کردار کے حوالے سے فوج سے سوال کیا، تو فوجی ترجمان نے جواب ديا کہ ’فوج ، رکو ڈک کی ترقی کے ليے حکومت کے منصوبے ميں صرف اور صرف قومی ضروريات کے تحت شامل ہو سکتی ہے‘۔ فوجی ترجمان نے البتہ يہ تسليم کيا کہ ايف ڈبليو او کان کنی ميں خاطر خواہ تجربہ حاصل کر چکی ہے اور رکو ڈک سے متعلق مستقبل کے کسی منصوبے کا حصہ بننے ميں دلچسپی رکھتی ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کے وفاقی وزير اطلاعات فواد چوہدری نے واضح طور پر کہا ہے کہ سويلين اتھاریٹیز ہی رکو ڈک منصوبے کی کمان سنبھاليں گی اور حتمی فیصلے وزير اعظم عمران خان سے مشاورت کے بعد کيے جائيں گے۔ تاہم انہوں نے يہ بھی کہا کہ فوج اور ديگر شراکت دار اہم فريق ہيں۔
پاکستان ميں ’Military Inc.‘ نامی کتاب کی مصنف عائشہ صديقہ کہتی ہيں کہ رکو ڈک معاملے ميں بھی فوج نے اہم مقام حاصل کر ليا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’وہ سمجھ چکے ہيں کہ فوج ميں مضبوطی کے ليے اقتصادی لحاظ سے مضبوط ہونا بھی لازمی ہے۔ اور اقتصادی معاملات پر کنٹرول فوج کے اپنے کاروباری مفادات کے تعاقب ميں مددگار ثابت ہوتا ہے۔‘‘
ريکو ڈک کا تنازعہ در اصل ہے کيا؟
ايران اور افغانستان کی سرحد کے قريب ايک سابقہ آتش فشاں کے نيچے واقع ريکو ڈک کی کان کا منصوبہ چند سابقہ سرمايہ کاروں کے ساتھ جاری تنازعات کی زد ميں ہے۔ عالمی بينک کی نگرانی ميں قائم ايک ٹريبيونل آئندہ چند ماہ ميں اس بارے ميں حتمی فیصلہ سنانے والا ہے کہ پاکستان کو زر تلافی کے طور پر بيرونی کمپنيوں کو کتنی رقم ادا کرنی ہے۔ فريقين گيارہ بلين ڈالر کا مطالبہ کر رہے ہيں۔ يہ تنازعہ کان کنی کے لائسنسوں کے حوالے سے ہے۔
دريں اثناء حکومت پاکستان کی کوشش ہے کہ نئے سرمايہ کار تلاش کيے جائيں۔ پاکستانی اہلکاروں کے مطابق چين اور سعودی عرب کی جانب سے اس ميں دلچسپی ظاہر کی گئی ہے۔
دنیا کی دس سب سے بڑی فوجیں
آج کی دنیا میں محض فوجیوں کی تعداد ہی کسی ملک کی فوج کے طاقتور ہونے کی نشاندہی نہیں کرتی، بھلے اس کی اپنی اہمیت ضرور ہے۔ تعداد کے حوالے سے دنیا کی دس بڑی فوجوں کے بارے میں جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
چین
سن 1927 میں قائم کی گئی چین کی ’پیپلز لبریشن آرمی‘ کے فوجیوں کی تعداد 2015 کے ورلڈ بینک ڈیٹا کے مطابق 2.8 ملین سے زیادہ ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز ’’آئی آئی ایس ایس‘‘ کے مطابق چین دفاع پر امریکا کے بعد سب سے زیادہ (145 بلین ڈالر) خرچ کرتا ہے۔
تصویر: Reuters/Xinhua
بھارت
بھارت کی افوج، پیرا ملٹری اور دیگر سکیورٹی اداروں کے ایسے اہلکار، جو ملکی دفاع کے لیے فوری طور پر دستیاب ہیں، کی تعداد بھی تقریبا اٹھائیس لاکھ بنتی ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ اکاون بلین ڈالر سے زائد ہے اور وہ اس اعتبار سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters
روس
ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق روسی فیڈریشن قریب پندرہ لاکھ فعال فوجیوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے تاہم سن 2017 میں شائع ہونے والی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق روسی فوج کے فعال ارکان کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب بنتی ہے اور وہ قریب ساٹھ بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
شمالی کوریا
شمالی کوریا کے فعال فوجیوں کی مجموعی تعداد تقربیا تیرہ لاکھ اسی ہزار بنتی ہے اور یوں وہ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Wong Maye-E
امریکا
آئی آئی ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق 605 بلین ڈالر دفاعی بجٹ کے ساتھ امریکا سرفہرست ہے اور امریکی دفاعی بجٹ کی مجموعی مالیت اس حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ تاہم ساڑھے تیرہ لاکھ فعال فوجیوں کے ساتھ وہ تعداد کے حوالے سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
پاکستان
پاکستانی فوج تعداد کے حوالے سے دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستانی افواج، پیرا ملٹری فورسز اور دیگر ایسے سکیورٹی اہلکاروں کی، جو ملکی دفاع کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہیں، مجموعی تعداد نو لاکھ پینتیس ہزار بنتی ہے۔ آئی آئی ایس ایس کے مطابق تاہم فعال پاکستانی فوجیوں کی تعداد ساڑھے چھ لاکھ سے کچھ زائد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/SS Mirza
مصر
ورلڈ بینک کے مطابق مصر آٹھ لاکھ پینتیس ہزار فعال فوجیوں کے ساتھ اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ تاہم آئی آئی ایس ایس کی فہرست میں مصر کا دسواں نمبر بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
برازیل
جنوبی امریکی ملک برازیل سات لاکھ تیس ہزار فوجیوں کے ساتھ تعداد کے اعتبار سے عالمی سطح پر آٹھویں بڑی فوج ہے۔ جب کہ آئی آئی ایس ایس کی فہرست میں برازیل کا پندرھواں نمبر ہے جب کہ ساڑھے تئیس بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ وہ اس فہرست میں بھی بارہویں نمبر پر موجود ہے۔
تصویر: Reuters/R. Moraes
انڈونیشیا
انڈونیشین افواج، پیرا ملٹری فورسز اور دفاعی سکیورٹی کے لیے فعال فوجیوں کی تعداد پونے سات لاکھ ہے اور وہ اس فہرست میں نویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/R.Gacad
جنوبی کوریا
دنیا کی دسویں بڑی فوج جنوبی کوریا کی ہے۔ ورلڈ بینک کے سن 2015 تک کے اعداد و شمار کے مطابق اس کے فعال فوجیوں کی تعداد چھ لاکھ چونتیس ہزار بنتی ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق قریب چونتیس بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ جنوبی کوریا اس فہرست میں بھی دسویں نمبر پر ہے۔