’ری ارتھنگ‘: نئی طرز کی ماحول دوست تدفین اب یورپ میں بھی
7 مارچ 2022
میتوں کی ماحول دوست تدفین کا نیا طریقہ ’ری ارتِھنگ‘ اب یورپ میں بھی متعارف کرا دیا گیا ہے۔ اس طرز تدفین کو ’دوبارہ مٹی بنائے جانے‘ کا نام دیا جا رہا ہے اور یورپ میں پہلی مرتبہ جرمنی میں اس طرز کی تدفین کی جانے لگی ہے۔
اشتہار
یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں میتوں کی اس طرح تدفین کا عمل گزشتہ ماہ کے وسط سے جرمن دارالحکومت برلن میں قائم انسانوں کی آخری رسومات انجام دینے والے ایک کمرشل ادارے 'سرکیولم ویٹائی‘ نے شروع کیا ہے۔
انسانی لاشوں کی اس طرح تدفین جرمنی میں پہلی بار کی جانے لگی ہے۔ اس سے قبل کسی بھی یورپی ملک میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ امریکہ میں تاہم مردوں کو دفنانے کے لیے یہ ماحول دوست طریقہ کار گزشتہ تقریباﹰ ایک سال سے استعمال ہو رہا ہے۔
'ری ارتِھنگ‘ کیا ہے؟
اس طرز تدفین کو 'ری ارتِھنگ‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یوں 'زمین کی مٹی واپس زمین میں‘ پہنچ جاتی ہے۔ اس طرز تدفین کے لیے تابوت جیسا نظر آنے والا ایک خول یا 'کوکُون‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کوکُون میں موجود یک خلیاتی جانداروں اور 'جدید گرین ٹیکنالوجی‘ کی مدد سے اس کے اندر رکھی گئی کوئی بھی لاش 40 دنوں کے اندر اندر ایک نامیاتی برادے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
آخری آرام گاہ: جرمنی میں تدفین کی روایات
جرمنی میں کفن دفن کے حوالے سے سخت روایت ہیں اور اُن پر کاربند رہنا لازمی بھی خیال کیا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے اس فوٹو گیلری میں مختلف روایات کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔
تصویر: Museum für Sepulkralkultur Kassel
آخری آرام گاہ
جرمن دفتر شماریات کے مطابق سن 2016 میں نو لاکھ سے زائد کی اموات ہوئی تھی۔ جرمنی میں قریب سبھی شہروں اور قصبوں میں قبرستان موجود ہیں۔ دوسری جانب تدفین کے طریقوں میں تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ اس میں خاص طور پر قبرستان میں روایتی ہریالی والی جگہوں سے اجتناب کیا جانے لگا ہے۔
تصویر: Imago/W. Otto
تدفین کے روایتی طریقے
کفن دفن مہنگا ہوتا جا رہا ہے اور اس باعث قبرستانوں میں مخصوص خاندانی جگہوں پر سرمایہ کاری میں کمی ہو چکی ہے۔ جرمن شہروں کے رہائشی کم خرچ تدفین کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ اس میں بھی تابوت یا جلائے گئے مردے کی راکھ کے لیے مخصوص برتن ضروری ہے۔ مردے کو نذر آتش کرنے کے بعد راکھ سربمہر برتن میں محفوظ کر کے کسی قبرستان میں دفن کرنا بھی اہم ہے۔
تصویر: Kai Nietfeld/picture-alliance/dpa
بعد از موت
جرمنی میں جلائے گئے مردے کی راکھ رکھنے کے لیے خوبصورت نقش و نگار سے مزین اور وقت کے ساتھ مٹی میں شامل ہونے والے خاص برتن بھی اب اہم ہو چکے ہے۔ شہروں میں مردہ جلانے کی روایت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ سن 2015 میں جرمن ریاست بریمن نے بعد از موت تدفین کے ضابطوں میں نرمی پیدا کی اور اس کے تحت اہل خانہ اپنے جلائے ہوئے مردے کی راکھ اپنے مکان کے عقبی باغیچے میں پھیلا سکتے ہیں۔
تصویر: Klaus-Dietmar Gabbert/picture-alliance/dpa
اپنی جڑوں کی جانب واپسی
جرمنی میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ مردے کی راکھ بتدریج مٹی میں شامل ہونے والے برتن میں رکھ کر کسی درخت کی جڑوں میں دفن کر دی جاتی ہے۔ اس کے لیے جنگل میں مخصوص علاقے مختص ہیں۔ ایسی تدفین کے لیے کوئی نگران مقرر نہیں کیا جاتا۔ جنگل میں خاکدان رکھنے کے مقام پرشمعیں جلانا اور پھول رکھنے کی ممانعت ہے۔ یہ کھلا مقام قدرتی اور پرسکون محسوس خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Arno Burgi/picture-alliance/dpa
تابوت سازی
جرمنی میں تابوت سازی کے لیے مخصوص ورکشاپ قائم ہیں۔ اس تصویر میں لاعلاج مریضوں کے مرکز کی انچارج لیڈیا رؤڈر کے ساتھ تابوت پر نقش و نگار کی آرٹسٹ آنا ایڈم کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اپنے ہاتھ سے تابوت تیار کرتی ہیں۔ اس کی قیمت چند سو یورو ہے جو مارکیٹ میں دستیاب تابوت کی قیمت سے بہت کم ہے۔ جرمن مارکیٹ میں تابوت کی قیمتیں ایک ہزار یورو سے شروع ہوتی ہیں۔
تصویر: Christian Lohse
تدفین سے قبل رحلت پانے والے کا دیدار
یورپ میں رحلت پانے والے خاندان کے لوگ انتہائی قریبی احباب کے لیے تابوت کو دفن کرنے سے قبل کھولتے ہیں اور چہرے کا دیدار کرتے ہیں۔ یہ کئی یورپی ممالک میں مقبول ہے لیکن جرمنی میں اس کی روایت قدرے کم ہے۔
تصویر: Roland Mühlanger/Imago
اظہار تعزیت اور ہمدردی
جرمن محکمہ ڈاک نے رحلت کے موقع پر اظہار افسوس کے روایتی خط یا پوسٹ کارڈ روانہ کرنے کے حوالے سے خصوصی اور یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی تخلیق کیے ہیں۔ تدفین کی رسومات میں شرکت کے لیے بھی خصوصی پوسٹ کارڈ دستیاب ہیں۔ یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ غم زدہ خاندان کو پھول دینا بہتر ہے یا عطیات دیے جائیں۔
تصویر: Dagmar Breitenbach/DW
تدفین، سماجی رویے اور طعام
جرمنی میں تدفین اور دعائیہ عبادت کے بعد خصوصی دعوت پر قریبی دوست احباب اور رشتہ داروں کو دعوتِ طعام بھی دی جاتی ہے۔ اس دعوت میں کافی، سینڈوچز اور کیک کھانے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ اس موقع پر خاص طور پر رحلت پا جانے والے کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔ ایسی دعوت طعام میں روایتی اسنیک Leichenschmaus بھی تیار کر کے رکھا جاتا ہے۔
تصویر: Daniel Karmann/picture alliance/dpa
گورکن بننے کا علم
جرمن حکومت نے سن 2005 میں مستقبل کے گورکنوں کی تربیت پر توجہ دینی شروع کی۔ اس مقصد کے لیے ایک مرکز باویرا کے شہر میونسٹر اشٹڈ میں قائم کیا گیا۔ خصوصی ماہر ٹیچرز گورکنوں کی تربیت کرتے ہیں۔ اس مرکز میں تربیت کا دورانیہ تین برس پر محیط ہے۔ کورس میں تدفین کی رسومات کے علاوہ غم زدہ خاندانوں کو تسلی تشفی دینے کے طریقے بھی سکھائے جاتے ہیں۔ اسی مرکز میں چین اور روس کے گورکن بھی اعلیٰ تربیت کے لیے آتے ہیں۔
تصویر: C. Löwinger
گورکنی کے عملی پہلو
تدفین کے سلسلے میں خاص طور قبر کھودنے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ قبر کھودنے میں اطراف کی دیواروں کا خاص انداز میں تیار کرنا انتہائی اہمیت رکھتا ہے کہ وہ قبر کے کتبے کے بوجھ یا بارش کے پانی سے منہدم نہ ہو جائے۔ اسی طرح مردے کی خاک والے برتن کو کس انداز میں قبر میں رکھنا چاہیے۔ اس مناسبت سے باویرین انڈرٹیکرز ایسوسی ایشن نے میونسٹراشٹڈ میں سن 1994 سے تربیتی قبرستان قائم رکھا ہے۔
تصویر: Rosina Eckert
تدفین کی رسومات اور ثقافت
جرمن شہر کاسل میں تدفین سے جڑی رسومات کا ایک خاص عجائب گھر قائم کیا گیا ہے۔ یہ عجائب گھر سن 1992 میں کھولا گیا تھا۔ اس میں قبر، قبرستان اور کفن دفن کے حوالے سے معلومات میسر ہیں۔ تابوت لے جانے والی جدید کار کے ساتھ اسی میوزیم سے حاصل کی گئی تصویر میں سن 1880 میں میت لے جانی گھوڑا گاڑی دکھائی گئی ہے۔
انسانی لاش کی کسی نامیاتی برادے یا بھربھری مٹی کی سی حالت میں اس تبدیلی کو ہی 'ری ارتِھنگ‘ (re-earthing) کہا جاتا ہے۔ مٹی (انسانی میت) کے دوبارہ مٹی بن جانے کے اس عمل کی تکمیل کے بعد کوکُون خالی کر دیا جاتا ہے، جسے پھر اسی طرح کسی دوسری میت کی تدفین یا آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے نئے سرے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ کوکُون سے نکالی جانے والی باقیات یا مٹی کو بعد میں کسی قبرستان ہی میں زمین میں صرف 30 سینٹی میٹر یا تقریباﹰ ایک فٹ گہری قبر میں دفنا دیا جاتا ہے۔
اشتہار
ایسی تدفین کے اولین واقعات شمالی جرمنی میں
جرمنی اور یورپ میں انسانی لاشوں کی اس طرح تدفین کا عمل پہلی بار شمالی جرمنی میں لیوبَیک لاؤن بُرگ نامی علاقے کے شہر میُلن میں مکمل کیا جا رہا ہے۔ اس شہر میں کلیسائی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی اس طرز تدفین کی حمایت کر دی تھی۔
کلیسائی ترجمان میشائل بِرگڈَین کے مطابق یہ تدفین کا بہت ماحول دوست طریقہ ہے۔ کوکُون میں کسی میت کو 40 روز تک اس لیے رکھا جاتا ہے کہ اس عرصے میں کوئی بھی میت مسلسل مادی تبدیلیوں سے گزرتی ہوئی قدرتی کھاد کی سی حالت میں آ جاتی ہے۔
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
جرمنی میں مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں۔ جرمنی میں مردوں کی تدفین کے مختلف طریقے، تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Imago/W. Otto
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
زندگی اور موت ابتدائے حیات سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی انسان کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی ہمیشہ ہی سے ایک پیشہ بھی رہی ہے۔ جرمنی میں اس وقت مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں، کیونکہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.Stratenschulte
کم قیمت تدفین، ایک مشکل عمل
مردوں کی تدفین کبھی صرف مذہبی روایات اور اخلاقی اقدار پر مبنی عمل ہوتا تھا۔ ماضی میں صرف خاندانی ادارے ہی یہ کام کرتے تھے۔ اب جرمنی میں یہ کام چار ہزار سے زائد کمپنیاں کرتی ہیں، جن کی مختلف شہروں میں متعدد شاخیں بھی ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی والے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں کسی مردے کی تدفین کا انتظام 444 سے لے کر 950 یورو تک میں ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ عمل بہت مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: Imago/Werner Otto
میت کو جلانا اب ترجیحی طریقہ
جرمنی میں اوسطاﹰ 45 فیصد مردے دفنائے جاتے ہیں اور قریب 54 فیصد لاشیں جلا دی جاتی ہیں۔ 1999ء میں تابوت میں تدفین کا تناسب 60 فیصد تھا۔ کسی میت کو جلا کر راکھ لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے، جو راکھ دان کو کسی قبرستان میں دفنا دیتے ہیں۔ راکھ دان کی تدفین تابوت کی تدفین سے کہیں سستی ہوتی ہے۔ جرمن ریاست بریمن تو شہریوں کو اپنے عزیزوں کی راکھ اپنے گھروں کے باغیچوں میں دفنانے کی اجازت بھی دے چکی ہے۔
تصویر: Kai Nietfeld/picture-alliance/dpa
تدفین پر لاگت چار ہزار یورو تک
جرمنی میں مردوں کی آخری رسومات کی ادائیگی مسلسل مہنگی ہوتے جانے کی ایک وجہ تدفین کے متنوع طریقے بھی ہیں۔ تابوت میں بند لاش کو قبر میں دفنانا، میت کا جلا دیا جانا، لاش کو سمندر میں بہا دینا یا پھر کسی خاندانی قبر میں تدفین، خرچے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مردے کے لواحقین کا منتخب کردہ طریقہ کار کیا ہے۔ اس طرح آخری رسومات کی ادائیگی پر لاگت ڈھائی ہزار یورو سے لےکر چار ہزار یورو تک ہو سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kembowski
تابوت یا راکھ دان
مردے کی تدفین پر لاگت کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ اسے دفنایا جائے گا یا جلایا جائے گا۔ میت جلا دی جائے، تو خرچہ کم۔ تب صرف راکھ دفنائی جاتی ہے۔ کبھی کبھی تدفین سستی ہوتی ہے لیکن سماجی تعزیتی تقریبات مہنگی۔ قبر میں دفنانے کے لیے بلدیاتی قبرستانوں میں انفرادی قبریں اکثر سالہا سال کے لیے کرائے پر لی جاتی ہیں۔ کسی قبر پر اگر سنگِ مرمر کا کتبہ بنوا کر لگوایا جائے تو تدفین مزید مہنگی ہو جاتی ہے۔
تصویر: DW/V. Weitz
شرحء اموات زیادہ، شرحء پیدائش کم
2016ء میں نو لاکھ گیارہ ہزار جرمنوں کا انتقال ہوا، جو 2015ء کے مقابلے میں 1.5 فیصد کم تھا۔ جرمنی میں 1972ء سے لے کر آج تک مجموعی شرحء اموات سالانہ شرحء پیدائش سے زیادہ رہی ہے۔ زیادہ شہریوں کی موت کے باعث تدفین کا کاروبار زیادہ ہوا تو وہ مہنگا بھی ہو گیا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جرمن زبان میں اگر گوگل پر ’سستی تدفین‘ کو سرچ کیا جائے تو نتائج کی تعداد لاکھوں میں نکلتی ہے۔
تصویر: Imago/R. Oberhäuser
سرکاری مدد سے تدفین کے لیے ساٹھ ملین یورو
جرمنی میں ہزاروں خاندان ایسے بھی ہیں، جو اپنے کسی عزیز کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی کا خرچ خود برداشت نہیں کر سکتے۔ ایسے شہریوں کی مالی مدد مقامی حکومتیں کرتی ہیں، جنہوں نے اس مد میں 2017ء میں کُل 60 ملین یورو خرچ کیے۔ ان رقوم سے تقریباﹰ 22 ہزار شہریوں کی تدفین میں 750 یورو فی میت کی شرح سے سرکاری مدد کی گئی۔
تصویر: Imago/W. Otto
7 تصاویر1 | 7
فی میت ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بچت
شمالی جرمنی کی کلیسائی تنظیم 'نارتھ چرچ‘ کے مطابق کسی بھی انسان کی موت ماحولیاتی حوالے سے منفی ضمنی نتائج کی وجہ بھی بنتی ہے۔ مثلاﹰ یورپ میں کسی بھی میت کو نذر آتش کر کے اس کی راکھ دفنا دینے کا رجحان عام ہے۔
لیکن اگر کسی انسان کی تدفین 'ری ارتِھنگ‘ کے طریقے سے کی جائے، تو فضا میں اس تقریباﹰ ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج سے بچا جا سکتا ہے، جو کسی میت کو نذر آتش کرنے کے عمل کے دوران پیدا ہوتی ہے۔
'ری ارتِھنگ‘ کے طریقہ کار سے کوئی کاربن گیسیں اس لیے خارج نہیں ہوتیں کہ اس میں کسی بھی کوکُون میں گھاس پھوس، تنکے اور پھول رکھ کر میت کو ان پر رکھ دیا جاتا ہے اور چالیس روز بعد اس میں سے بھربھری مٹی نکال کر اسے دفنا دیا جاتا ہے۔
ماحول دوست تدفین رواج پکڑتی ہوئی
جرمنی میں آخری رسومات کا انتظام کرنے والی کمپنیوں نے تحفظِ ماحول کا خیال رکھتے ہوئے نئے طریقے متعارف کرائے ہیں۔ اب ایسے تابوت تیار کیے جا رہے ہیں، جو ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر فوری طور پر قدرتی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔
تصویر: ARKA Ecopod
بید سے بنا تابوت
جسے روایتی تابوت کی بناوٹ پسند نہ ہو وہ اپنی زندگی میں ہی اپنی لیے بید سے بُنے تابوت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ اس تابوت کی بُنائی کا کھلنا آسان ہوتا ہے اور اس کے اندر لگے کپڑے کو الگ کرنا بھی مشکل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بید کا درخت بہت تیزی سے بھی بڑھتا ہے۔ اس انداز میں تدفین کے خواہش مند افراد کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی ماحول دوست ہی رہے۔
تصویر: Passages International, Inc.
کفن
ہزاروں سالوں سے مردوں کو کپڑے میں لپیٹ کر دفنانے کا سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ یورپ میں ابھی تک لوگ مردوں کو دفنانے کا یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تدفین کا یہ انداز کم خرچ ہے، وہ غلطی پر ہیں کیونکہ کفن کے کپڑے کی قیمت ایک ہزار ڈالر تک بھی ہوتی ہے۔
تصویر: Gordon Tulley, Respect Funeral Services
اخباری کاغذ سے تیار کردہ تابوت
یہ بات بالکل بھی دلفریب نہیں لگتی کہ کوئی شخص اپنا آخری سفر اخبار کے دوبارہ کارآمد بنائے گئے صفحات میں طے کرے۔ اب اخبارات کے صفحات کو بھی خوبصورت تابوتوں کی شکل دی جانے لگی ہے۔ اگر کسی کو یہ ناپسند ہوں تو تابوت سونے کا بھی بنوایا جا سکتا ہے۔ آخر کار مرتا تو انسان صرف ایک ہی بار ہے۔
تصویر: ARKA Ecopod
کم وزن اور ہلکا پھلکا
اخبارات کے صفحات سے بنائے گئے تابوتوں کا وزن نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ دفنانے کے بعد یہ بہت جلد ہی مٹی کا حصہ بن جاتے ہیں، جو قبرستان کے قدرتی ماحول کے لیے بہت ہی سازگار ہوتا ہے۔
تصویر: ARKA Ecopod
اخبار سے بنایا گیا مصری راکھ دان
اخبارات سے تیار کردہ راکھ دان بھی اُسی کمپنی کی اختراع ہیں، جس نے اخباری کاغذ سے بنائے گئے تابوت متعارف کرائے ہیں۔ ڈیزائنر ہَیزل سیلینا کا کہنا ہے کہ قدیم مصر میں تجہیز و تکفین کی رسومات نے اُنہیں بہت متاثر کیا اور اخبارات سے راکھ دان بنانے کا خیال بھی اُن کے ذہن میں اِنہی مصری روایات کی وجہ سے آیا۔
تصویر: ARKA Ecopod
درخت کی طرح کا راکھ دان
مختلف شکلوں کے راکھ دان بنانے والی مختلف کمپنیوں نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ایسے برتن بھی بنائے ہیں، جن میں کھاد اور بیج بھی موجود ہوتے ہیں۔ سِرامک کا بنا اِس برتن کا ڈھکن اُس وقت ٹوٹ جاتا ہے، جب پودہ زمین سے اُبھرنا شروع کرتا ہے۔
تصویر: Spíritree
زیرِ آب راکھ دان
اپنی راکھ کے سمندر برُد کیے جانے کی خواہش رکھنے والے افراد کے لیے کاغذ سے بنا ہوا یہ خصوصی برتن تیار کیا گیا ہے۔ مرنے والے کے لواحقین اِس برتن پر نقش و نگار بھی بنا سکتے ہیں اور اپنے آخری پیغامات بھی اِس میں ڈال سکتے ہیں۔
تصویر: Passages International, Inc.
انسانی درخت
اس تھیلے میں لاش کو بالکل اُسی طرح سے رکھا جاتا ہے، جس طرح بچہ ماہ کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ یہ تصور ایک اطالوی ڈیزائنر نے پیش کیا۔ اس میں لاش ایک درخت کی غذا بنتی ہے۔ اطالوی حکومت نے ابھی تک مُردوں کو اس طرح سے ’دفنانے‘ کی اجازت نہیں دی اور اسے ’مستقبل کا ڈیزائن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Capsula Mundi
8 تصاویر1 | 8
تدفین کار ادارے کے بانی کا موقف
برلن کے 'سرکیولم ویٹائی‘ نامی کمرشل تدفین کار ادارے کے شریک بانی پابلو مَیٹس کے مطابق انہوں نے یورپ میں اپنے ادارے کی سرگرمیاں شروع کرنے سے پہلے کئی سماجی، مذہبی اور قانونی حلقوں سے تفصیلی مشاورت کی۔
انہوں نے کہا، ''اس مشاورت کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہماری پیشہ وارانہ سرگرمیاں شمالی جرمن صوبے شلیسوگ ہولشٹائن میں مردوں کی تدفین سے متعلق مروجہ قانون سے متصادم نہیں ہوں گی۔‘‘
جرمنی میں مردوں کی تدفین سے متعلق قوانین صوبائی حکومتیں منظور اور نافذ کرتی ہیں، اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ کسی ایک جرمن صوبے میں ایسے قوانین باقی صوبوں سے مختلف ہوں۔
م م / ع آ (ڈی پی اے، ڈی پی اے ای)
اسپین میں مسلمان میتوں کی تدفین، مشکلات اور ان کا حل