’زبان دنیا کی کلید ہے‘: مہاجرین کے لیے اس کی اہمیت
عاصم سلیم
1 مئی 2017
مشرق وسطیٰ سے فرار ہونے والے سب ہی پناہ گزين يورپ نہيں آتے، اُن ميں سے کئی دنيا کے ديگر خطوں و ممالک ميں قسمت آزماتے ہيں۔ قريب نو ہزار تارکين وطن برازيل بھی پہنچے ہیں اور وہاں اُن کے لیے منفرد انداز مواقع پائے جاتے ہیں۔
اشتہار
شامی مہاجر حادی بخور نے سياسی پناہ کی غرض سے سن 2014 ميں اپنا آبائی شہر حلب چھوڑا۔ بائيس سالہ يہ نوجوان اِس خوف ميں مبتلا تھا کہ کہيں اُسے صدر بشار الاسد کی فوج ميں جبراً بھرتی نہ کر ليا جائے۔ حادی اُس وقت يونيورسٹی ميں معاشيات پڑھ رہا تھا۔ اُسے نہ صرف اپنی تعليم بلکہ اپنے اہل خانہ، دوست احباب اور بہت کچھ پيچھے چھوڑنا پڑا۔ حلب سے روانگی کے وقت حادی کے پاس صرف اپنی زبان کا سرمایہ تھا۔ اب تين برس بعد یعنی سن 2017 ميں وہ برازيل کے شہر ريو ڈی جينيرو کے زبان سکھانے والے ايک اسکول ميں استاد کے حيثيت سے ملازمت کر رہا ہے۔
برازيل ميں ’کلچرل ہگ‘ نامی ايک منصوبے کے تحت ہجرت کے پس منظر والے افراد کو زبان سکھانے کی ملازمتوں پر رکھا جا رہا ہے۔ ريو ڈی جينيرو کے جس اسکول ميں حادی عربی زبان سکھاتا ہے، وہيں تقريباً دو درجن ديگر مہاجرين بھی ملازمت کرتے ہيں اور اُن کا کام بھی اپنی اپنی زبان کی تربيت فراہم کرنا ہے۔ اِس منصوبے کے تحت برازيل کے ديگر کئی شہروں ميں بھی موجودہ يا سابقہ مہاجرين ملازمتيں کر رہے ہيں۔ ’کلچرل ہگ‘ کا مقصد يہ ہے کہ مقامی باشندے، عربی زبان پر مہارت رکھنے والے اِن تارکین وطن سے کچھ سيکھ سکيں اور ساتھ ہی ملک ميں موجود لگ بھگ نو ہزار مہاجرين کے انضمام اور اُن ميں سے چند کی نوکريوں کا بندوبست ہو سکے۔
ایسی مشہور شخصیات جو کبھی پناہ گزیں بھی رہیں
اپنے ملک سے فرار ہونے والے اور در در بھٹکنے والے لوگوں کو پناہ گزین کہا جاتا ہے۔ آئیے ملتے ہیں دس ایسی شخصیات سے جو پناہ گزین تو تھیں لیکن موسیقی، اداکاری، سائنس اور سیاست کے میدان میں وہ بلندیوں تک پہنچیں۔
تصویر: Imago/United Archives International
مارلینے ڈیٹريش
خوابیدہ آنکھوں اور دل لبھانے والی آواز کی مالک جرمن گلوکارہ اور اداکارہ مارلینے ڈیٹريش نازی جرمنی کو چھوڑ کرامریکا چلی گئی تھیں۔ سن 1939 میں انہوں نے امریکا کی شہریت اختیار کر لی تھی۔ وہ ایک اہم پناہ گزین پروفائل تھیں، جس نے ہٹلر کے خلاف کھل کر آواز بلند کی۔ نازی جرمنی میں ان کی فلموں کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن انہوں نے کہا تھا، ’’وہ جرمنی میں پیدا ہوئی ہیں اور ہمیشہ جرمن ہی رہیں گی۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa
ہنری کسنجر
بین الاقوامی امور کے عالم اور امریکا کے 56 ویں وزیر خارجہ کی پیدائش جرمن ریاست باویریا میں ہوئی تھی۔ انہیں بھی نازی مظالم سے بچنے کے لیے 1938 میں جرمنی چھوڑنا پڑا تھا۔ امریکی خارجہ پالیسی کو ایک نیا رنگ دینے والے کسنجر کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی خود کو جرمنی سے جدا محسوس نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
میڈلين البرائٹ
میڈلين البرائٹ امریکی وزیر خارجہ بننے والی پہلی خاتون ہیں۔ وہ سن 1997 سے 2001 تک اس عہدے پر فائز رہیں۔ ان کی پیدائش جدید دور کے چیک جمہوریہ میں ہوئی تھی۔ سن 1948 میں جب وہاں حکومت پر کمیونسٹوں کا کنٹرول ہو گیا تو میڈلين کے خاندان کو بھاگ کر امریکا جانا پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb
البرٹ آئن سٹائن
نظریہ اضافیت کے لیے مشہور جرمن یہودی نوبل یافتہ ماہر طبعیات البرٹ آئن سٹائن سن 1933 میں امریکا کے دورے پر تھے، جب ان پر یہ واضح ہو گیا کہ وہ واپس نازی جرمنی نہیں لوٹ سکتے ہیں۔ چودہ مارچ سن 1879 کو جرمن شہر اُلم میں پیدا ہونے والے ممتاز طبیعات دان آئن سٹائن اٹھارہ اپریل 1955 میں امریکی ریاست نیو جرسی کے شہر پرنسٹن میں انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: Imago/United Archives International
جارج وائڈنفلڈ
برطانوی یہودی مصنف وائڈنفلڈ کی پیدائش سن 1919 میں ویانا میں ہوئی تھی۔ جب نازیوں نے آسٹریا کو اپنا حصہ بنا لیا تو وہ لندن چلے گئے۔ انہوں نے اپنی ایک پبلشنگ کمپنی بھی کھولی اور اسرائیل کے پہلے صدر کے چیف آف اسٹاف بھی رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N.Bachmann
بیلا بارتوک
20 ویں صدی کے ہنگرئین موسیقار بیلا بارتوک یہودی نہیں تھے لیکن وہ نازی جرمنی اور یہودیوں پر ہونے والے مظالم کے مخالف تھے۔ سن 1940 میں انہیں امریکا جانا پڑا۔ وہ خود کو تمام تر تنازعات و اختلافات سے ماوراء قرار دیتے ہوئے امن و سلامتی کا پرچار کرتے رہے۔
تصویر: Getty Images
مِلوس فورمین
مشہور فلم ڈائریکٹر ملوس فورمین سن 1968 میں پراگ میں پیدا ہوئے۔ انقلاب کے بعد انہیں اس وقت کے چیكوسلوواكيا چھوڑ کر امریکا میں پناہ حاصل کرنا پڑی۔ مِیلوس کو ان کی دو عالمی شہرت یافتہ فلموں کی وجہ سے بہت زیادہ شہرت ملی۔ One Flew Over the Cuckoo's Nest اور Amadeus پر انہیں آسکر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/V. Dargent
ازابیل ایندے
سن انیس سو تہتر میں چلی کے صدر سلواڈور ایندے کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور اسی دوران وہ ہلاک ہو گئے تھے۔ تب ان کی بھتیجی ازابیل کو وینزویلا میں پناہ حاصل کرنا پڑ گئی تھی۔ بعدازاں انہوں نے امریکا سکونت اختیار کر لی تھی۔ مصنفہ کے طور پر انہیں بہت شہرت ملی۔ اس طلسمی حقیقت نگار مصننفہ کے دو ناولوں House of the Spirits اور Eva Luna کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔
تصویر: Koen van Weel/AFP/Getty Images
مريم مکیبا
مريم مكیبا جنہیں ’ماما افریقہ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، امریکا کے دورے پر تھی جب جنوبی افریقہ کی حکومت نے نسلی عصبیت پر مبنی اس وقت کی ملکی حکومت کے خلاف مہم چلانے پر ان کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا۔ جنوبی افریقہ میں اس حکومت کے اختتام تک مکیبا نے کئی برسوں تک امریکا اور جمہوریہ گنی میں زندگی بسر کی۔
تصویر: Getty Images
سِٹنگ بُل
ٹاٹانكا ايوٹیک یعنی سِٹنگ بُل امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور مقامی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ امریکی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف لڑنے والے سٹنگ بل کو سن 1877 سے سن 1881 تک پناہ گزین کے طور پر کینیڈا میں رہنا پڑا تھا۔
تصویر: Imago/StockTrek Images
10 تصاویر1 | 10
حادی نے اِس بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’يہ ايک بہترين منصوبہ ہے کيونکہ مدد مانگے بغير ہی ہماری مدد ہو جاتی ہے۔ مکان کے کرائے جيسے اخراجات پورے کرنے کے ليے ہميں رقم مل جاتی ہے اور اِسی دوران ہم نئے لوگوں سے ملتے ہيں اور نئے دوست بنا ليتے ہيں۔‘‘ حادی کا ساتھی شانٹريل بھی پناہ کی تلاش ميں افريقی رياست کانگو سے فرار ہوا تھا۔ وہ اِسی اسکول ميں فرانسيسی زبان کی تعليم فراہم کرتا ہے۔ اُس کے بقول کانگو سے فرار ہونے کے ليے اسے کافی رقم کا بندوبست کرنا پڑا تھا۔ اب اس منصوبے کی مدد سے وہ ادھار کے طور پر لی ہوئی رقم واپس کر رہا ہے۔
’کلچرل ہگ‘ کی شريک بانی کارولينا ڈے اوليويا کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہاں آنے کے فوراً بعد يہ مہاجرين زبان سکھانے يا استاد کے طور پر کام کرنے کا تجربہ نہيں رکھتے تاہم وہ ثقافت کی دولت سے مالا مال ہوتے ہيں۔ ’’چونکہ شروع ميں انہيں مقامی زبان نہيں آتی، انضمام کے ليے انہيں بہت کچھ درکار ہوتا ہے جس سے وہ اس نئے ملک و معاشرے ميں خود کو خوش آمديد محسوس کر سکيں۔ بصورت ديگر اگر وہ مہاجر کيمپوں ميں وقت گزاريں، تو وہ کچھ نہيں سيکھ پاتے۔‘‘ اوليويا کا کہنا ہے کہ ان کے منصوبے کی مدد سے مہاجرين برادریوں کو شام، عراق اور کانگو جيسے ملکوں کے محلوں ميں تبديل کر ديتے ہيں، جو ثقافتی تبادلے کے نقطہ نظر سے کافی خوش آئند بات ہے۔