1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’زرداری کی حمایت کا شکریہ، وزیراعظم مستعفی نہیں ہوں گے‘

تنویر شہزاد،لاہور23 اگست 2014

تجزیہ کاروں کے مطابق زرداری مشکل حالات میں راستہ نکالنے کا تجربہ تو رکھتے ہیں لیکن آئین کی بالادستی کے دعویداروں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ فوج آئین کے اندر رہتے ہوئے بھی نواز حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔

تصویر: Getty Images

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں ہزاروں افراد گزشتہ ایک ہفتے سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں، ملک میں جاری سنگین سیاسی بحران کے حل کے لیے سیاسی رابطوں میں بھی تیزی آگئی ہے۔ آج پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے لاہور میں وزیر اعظم نواز شریف، امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق اور مسلم لیگ (ق) کے چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہٰی سے ملاقاتیں کیں ہیں۔

سابق صدر آصف علی زرداری ہفتے کے روز خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور پہنچے تو انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے رایئونڈ کے علاقے جاتی عمرہ لے جایا گیا، جہاں انہوں نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں نون لیگ کی طرف سے نواز شریف کی قیادت میں ملنے والے وفد میں عبدالقادر بلوچ، اسحاق ڈار، خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق شامل تھے جبکہ آصف زرداری کی معاونت کے لیے خورشید شاہ، رضا ربانی، اعتزاز احسن اور رحمان ملک موجود تھے۔

اس ملاقات کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے صحافیوں کو بتایا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے ملک میں جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ ان کے بقول صدر زرداری نے ملک میں جاری بحران کو مذاکرات کے ذریعے، آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے حل کرنے کی تجویز پیش کی اور اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ نون کا ساتھ دے گی۔ صدر زرداری کا کہنا تھا کہ احتجاج کے جمہوری حق کو تسلیم کیا جانا چاہیے البتہ انہوں نے اس احتجاج کو پر امن رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔

لاہور کے ایک روزہ دورے کے آخر میں پرانے ایئرپورٹ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہہ انہوں نے نواز شریف، سراج الحق اور چوہدری برادران سے ملاقاتیں کی ہیں، مولانا فضل الرحمن اور الطاف حسین سے بھی بات کی ہے اور سب سے کہا ہے کہ اس بحران کا حل صرف اور صرف مذاکرات میں ہے۔ ان کے مطابق عمران خان اور طاہرالقادری کی رنجشیں بھی مذاکرات سے ہی دور ہوں گی، ''مذاکرات میں سب کی جیت ہے اور ان مذاکرات سے ہی لوگ ایسے فیصلوں کی طرف آیئں گے، جو ملک کے کے لیے فائدہ مند اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کا باعث ہوں گے، میں نے میاں نواز شریف سے بھی کہا ہے کہ وہ صبر کا دامن نہ چھوڑیں اور سیاسی طریقے سے مسائل کو حل کریں، ''درخت جتنا مضبوط ہو اسے اتنا جھکنا بھی چاہیے۔''

اس سوال کے جواب میں کہ اگر ملکی بحران کے خاتمے کے لیے تمام جماعتیں مائینس ون فارمولے (نواز شریف کی اقتدار سے رخصتی) پر راضی ہو جائیں تو پیپلز پارٹی ان جماعتوں کی حمایت کرے گی ؟ اس پر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ وہ مفروضوں پر مبنی سوالوں کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتے۔

آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستانی سیاست دان ملکی بحران حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ’’ہماری کوشش ہے کہ بحران ٹل جائے اور بات تھرڈ ایمپائر تک نہ جائے، اگر ایسا ہوا تو بات بہت دور تک جائے گی۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ دھرنا دینے والوں کے آئنی مطالبات پرغور کیا جانا چاہیے۔ مسلم لیگ نون کے وزاراء کے طرف سے مخالفین کے خلاف جاری کیے جانے والے تند و تیز بیانات کو بھی اعتدال پر لانے کا مشورہ دیا گیا۔ نواز زرداری ملاقات کے بعد اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسحاق ڈار نے مزید کہا، ’’آصف علی زرداری کی جانب سے فُل سپورٹ کے لیے ہماری جماعت مسلم لیگ نواز اور وزیر اعظم مشکور ہیں۔‘‘

سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ ملک کے عوام اور پاکستان کے دوست ممالک چاہتے ہیں کہ ملکی بحران کو پرامن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ ان کے بقول آگے خطرات ہیں اور جو بھی فریق اس بحران کے حل کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹے گا، اسے قوم عزت دے گی۔ انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز سے اپیل کی کہ وہ بحران کے حل کے لیے تحریک انصاف کی طرف سے دیے جانے والے استعفوں پر ابھی کوئی کارروائی نہ کرے۔

آصف علی زرداری ہفتے کی شام چوہدری برادران سے ملنے ان کے گھر بھی گئے، اس ملاقات میں انہوں نے چوہدری برادران سے کہا کہ وہ ملکی بحران کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

ادھرعمران خان نے نواز شریف اور آصف علی زرداری کی ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ملاقات سے کچھ نہیں ہوگا اور وہ آخری گیند تک کھیلیں گے جبکہ مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات حتمی مرحلے کی طرف کامیابی سے بڑھ رہے ہیں۔

دوسری طرف ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ مذاکرات سے پہلے ماڈل ٹاؤن کے واقعے کا مقدمہ درج کیا جائے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے ایک مقدمےمیں ڈاکٹر طاہرالقادری کو پچیس اگست کے روز طلب کر لیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے بھی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد پر مغربی تہذیب نے یلغار کر رکھی ہے اور اگر ہٹ دھرمی کا رویہ نہ ترک کیا گیا تو پھرعوامی قوت کو اسلام آباد جانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری نے اس صورتحال کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اپنے دور صدارت میں سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کی طرف سے شدید مسائل کا سامنا کرنے والے آصف زرداری مشکل حالات میں راستہ نکالنے کا تجربہ رکھتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ کمپرومائز کی سیاست پر کم یقین رکھنے والے نواز شریف کو کس حد تک پیچھے ہٹنے پر آمادہ کر سکتے ہیں، آئین کی بالادستی کے سیاسی دعویداروں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستانی فوج آئین کے اندر رہتے ہوئے بھی نواز حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔‘‘

نواز زرداری ملاقات کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں ماضی میں صدر زرداری کے لیے سخت الفاظ استعمال کرنے والے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو شریک نہیں کیا گیا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں