1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زرداری کے خلاف مقدمات نہیں کھولے جا سکتے، سوئس استغاثہ

22 جون 2013

سوئس استغاثہ نے کہا ہے کہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری اور ان کی مقتول اہلیہ بے نظیر بھٹو کے خلاف 1990ء کی دہائی میں قائم کیے گئے بدعنوانی کے مقدمات کو دوبارہ کھولنے کی درخواست کو مسترد کیا جا چکا ہے۔

تصویر: AP

سوئس استغاثہ نے کہا ہے کہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری اور ان کی مقتول اہلیہ بے نظیر بھٹو کے خلاف 1990ء کی دہائی میں قائم کیے گئے بدعنوانی کے مقدمات کو دوبارہ کھولنے کی درخواست کو مسترد کیا جا چکا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جمعے کے دن سوئس استغاثہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ مبینہ مالی بد عنوانی سے متعلق یہ کیسز دوبارہ نہ کھولنے کا فیصلہ رواں برس چار فروری کو کیا گیا تھا۔ مزید بتایا گیا ہے کہ یہ عدالتی فیصلہ صرف اس لیے عام کیا گیا ہے کیونکہ اس تناظر میں پاکستان میں احتجاج شروع ہو گیا تھا۔

پاکستان کی مقتول رہنما بے نظیر بھٹوتصویر: dapd

سوئٹزرلینڈ کے حکام نے اس بارے میں کوئی خاص تفصیلات نہیں بتائی ہیں تاہم سوئس نیوز ویب سائٹ 20minutes.ch نے ایسی تصاویر شائع کی ہیں، جن میں صدر زرداری کے خلاف نکالی جانے والی ایک احتجاجی ریلی کے دوران سوئٹزرلینڈ کا پرچم بھی نذر آتش کیا جا رہا ہے۔

سوئس استغاثہ نے یہ بھی کہا ہے کہ 2008ء میں اس کیس کو بند کرنے کے بعد سے اس کیس کے حوالے سے کوئی نیا ثبوت سامنے نہیں آیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس حوالے سے دوبارہ تحقیقات کا آغاز نہیں کر سکتے ہیں۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کیس کو اب پندرہ برس بیت چکے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اب قانونی طور پر کیس چلانے کی معیاد بھی ختم ہو چکی ہے۔ سوئس حکام نے اس کیس کے ضمن میں پاکستان سے موصول ہونے والے ملے جلے رحجانات پر شکایت کی ہے۔

صدر زرداری کے خلاف مقدمات کھلوانے کی درخواست کے ایک ماہ بعد ہی حکومت پاکستان نے سوئس حکام کو ایک خط ارسال کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ان کیسسز کو دوبارہ کھولنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کا تعلق ملک کی داخلی سیاست سے ہے۔ سوئس استغاثہ نے اس امر پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے قانونی نظام کے غلط استعمال کے مترداف قرار دیا ہے۔

’ریاستی خزانے میں خرد برد‘

سابق فوجی صدر پرویز مشرفتصویر: AP

آصف علی زرداری، بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے 1990ء کے عشرے میں حکومتی خزانے میں بارہ ملین ڈالر کا خرد برد کیا تھا۔ اس وقت بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیر اعظم تھیں جبکہ آصف علی زرداری حکومتی وزیر تھے۔

1996ء میں بے نظیر کی حکومت ختم ہو گئی تھی اور بعد ازاں نئی حکومت نے سوئس حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ ان سیاسی شخصیات کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے مدد فراہم کرے۔ اسی دوران بے نظیر بھٹو نے متحدہ عرب امارات میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔

یہ امر اہم ہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے درمیان دو ہزار سات میں قومی مصالحتی آرڈیننس کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے، جس کے تحت صدر زرداری سمیت تقریباﹰ آٹھ ہزار افراد کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات بند کر دیے گئے تھے۔ اسی معاہدے کے بعد بے نظیر بھٹو وطن واپس آئی تھیں تاہم وہ انتخابی ریلی کے دوران ایک حملے میں ہلاک ہو گئیں۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد 2008ء میں آصف علی زرداری ملک کے صدر منتخب کر لیے گئے تھے۔

2009 ء میں ملکی سپریم کورٹ نے قومی مصالحتی آرڈینیس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس معاہدے سے مستفید ہونے والوں کے خلاف دوبارہ مقدمات کھولنے کا حکم دے دیا تھا۔ تین برس کی خاموشی کے بعد نومبر 2012ء میں سوئس حکومت سے ایک مرتبہ پھر مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ آصف علی زرداری پر عائد الزامات کی از سر نو تحقیقات شروع کرے۔

ab/ng(AFP)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں