زرعی اجناس کا بحران، روس کا اپنی برآمدات میں اضافے کا فیصلہ
27 مئی 2022
روس نے کہا ہے کہ وہ اس سال جولائی سے اپنے ہاں زرعی اجناس کی پیداوار اور برآمدات میں واضح اضافے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس فیصلے کی وجہ عالمی سطح پر زرعی اجناس کا وہ بحران ہے، جو روسی یوکرینی جنگ کے باعث شدید تر ہو چکا ہے۔
اشتہار
فروری کے اواخر میں روس کے یوکرین پر فوجی حملے کے بعد سے جاری جنگ اب اپنے چوتھے مہینے میں داخل ہو چکی ہے۔ اس جنگ میں روس کے کردار کی دنیا کے بہت سے ممالک کی طرف سے شدید مذمت بھی کی گئی اور مغربی دنیا نے روس کے خلاف وسیع تر پابندیاں بھی عائد کر دیں۔
روسی یوکرینی جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر اشیائے خوراک کی دستیابی اور زرعی اجناس کی ترسیل سے متعلق وہ بحران بھی اب شدید تر ہو چکا ہے، جو پہلے ہی سے موجود تھا اور جس کے خاتمے کی کوششیں بھی کی جا رہی تھیں۔
اشتہار
گندم کی عالمی پیداوار میں روس اور یوکرین کا حصہ
امریکا اور یورپی یونین کے رکن ممالک سمیت مغربی دنیا نے یوکرین پر فوجی حملے کے فوری بعد روس کے خلاف جن پابندیوں کا اعلان کیا تھا، وہ اب تک نہ صرف نافذ ہیں بلکہ انہیں سخت تر بنانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
روس کے خلاف ان بین الاقوامی پابندیوں کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ گندم اور دیگر زرعی اجناس کی ترسیل کے عالمی نظام کو اب اور زیادہ مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال جتنی بھی گندم کی تجارت ہوتی ہے، اس میں ابھی تک ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں مصروف روس اور یوکرین کا حصہ 30 فیصد بنتا ہے۔
روسی فوج کی طرف سے یوکرین پر تقریباﹰ چار ہفتوں سے حملے جاری ہیں۔ جنگ کی صورتحال میں شہریوں کی پریشانیاں مزید بڑھتی جارہی ہے۔ بھوک، بیماری اور غربت انسانی بحران کو جنم دے رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جتنی طویل جنگ اتنی ہی زیادہ مشکلات
ایک عمررسیدہ خاتون اپنے تباہ شدہ گھر میں: یوکرین کے شہری جنگ کے سنگین اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباﹰ اگر صورتحال اگلے بارہ ماہ تک ایسے جاری رہی تو نوے فیصد ملکی آبادی غربت کا شکار ہو جائے گی۔ جنگی حالات یوکرینی معیشت کو دو عشرے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔
تصویر: Thomas Peter/REUTERS
بھوک کے ہاتھوں مجبور
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں بھوک سے مجبور عوام نے ایک سپرمارکیٹ لوٹ لی۔ خارکیف، چیرنیہیف، سومی، اور اوچترکا جیسے شمالی مشرقی اور مشرقی شہروں کی صورتحال بہت خراب ہے۔ مقامی رہائشیوں کو مسلسل داغے جانے والے روسی میزائلوں اور فضائی بمباری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: Andrea Carrubba/AA/picture alliance
تباہی میں مدد کی پیشکش
دارالحکومت کییف میں ایک فائر فائٹر روسی حملوں سے تباہ شدہ عمارت کی رہائشی کو تسلی دے رہی ہے۔ اس امدادی کارکن کو کئی یوکرینی شہریوں کے ایسے غم بانٹنے پڑتے ہیں۔ تاہم روس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف مسلح افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ رہائشی مقامات کی تباہی سمیت روزانہ شہریوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جنگ کی تاریکی میں جنم
یہ تصویر ایک ماں اور اس کے نوزائیدہ بچے کی ہے، جس کی پیدائش خارکیف میں واقع ایک عمارت کی بیسمینٹ میں بنائے گئے عارضی میٹرنٹی سنٹر میں ہوئی ہے۔ کئی ہسپتال روسی فوج کی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں، جس میں ماریوپول کا ایک میٹرنٹی ہسپتال بھی شامل ہے۔
تصویر: Vitaliy Gnidyi/REUTERS
مایوسی کے سائے
یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ماریوپول کے ہسپتال بھر چکے ہیں، ایسے میں گولہ باری سے زخمی ہونے والے افراد کا علاج ہسپتال کے آنگن میں ہی کیا جارہا ہے۔ کئی دنوں سے روس کے زیر قبضہ علاقوں میں بحرانی صورتحال ہے۔ یوکرینی حکام محصور شدہ شہروں میں لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Evgeniy Maloletka/AP/dpa/picture alliance
خوراک کی ضرورت
علیحدگی پسندوں کے زیرانتظام ڈونیسک خطے کے شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی گئی ہے۔ مشرقی یوکرین کے علاقے لوہانسک اور ڈونیسک میں شدید لڑائی جاری ہے۔ روسی وزارت دفاع اور علیحدگی پسندوں کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
خاموش ماتم
مغربی شہر لویو میں ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجیوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے جانے پر افسردہ ہیں۔ اسی طرح کئی شہری بھی موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق 24 فروری سے شروع ہونے والے روسی حملوں سے اب تک تقریباﹰ 724 شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے، جس میں 42 بچے بھی شامل ہیں۔
کییف میں ایک دکان پر روسی گولہ باری کے بعد یہ ملازم ملبہ صاف کر رہا ہے۔ یہ اسٹور کب دوبارہ کھل سکے گا؟ معمول کی زندگی کی واپسی کب ہوگی؟ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
روسی وزیر زراعت دیمیتری پاتروشیف نے جمعہ ستائیس مئی کے روز ماسکو میں زرعی اجناس سے متعلق روسی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''ہم نے رواں سیزن (2021ء تا 2022ء) میں اب تک 35 ملین ٹن سے زائد زرعی اجناس برآمد کی ہیں، جن میں 28.5 ملین ٹن گندم بھی شامل تھی۔ ہمیں امید ہے کہ اس سال 30 جون تک، جب موجودہ سیزن ختم ہو گا، ہماری زرعی اجناس کی برآمدات کا مجموعی حجم 37 ملین ٹن سے تجاوز کر چکا ہو گا۔‘‘
روسی وزیر زراعت نے مزید کہا، ''اس سال یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے سیزن میں ہماری کوشش ہو گی کہ ہم اپنی زرعی اجناس کی برآمدات میں اور اضافہ کریں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ ہم سالانہ 50 ملین ٹن تک گندم اور دیگر اجناس برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘
روس یوکرین جنگ کے باعث عالمی خوراک کی فراہمی کو خطرہ
02:16
This browser does not support the video element.
زرعی پیداوار بھی ایک جنگی ہتھیار
مغربی دنیا کا کریملن پر الزام ہے کہ وہ یوکرین پر فوجی حملے کے بعد سے اس تنازعے میں زرعی اجناس کو بھی جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مغربی دنیا کا ماسکو پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ روسی دستوں یا روس نواز باغیوں کے زیر قبضہ یوکرینی علاقوں سے زرعی اجناس چوری بھی کر رہا ہے۔ روس تاہم اپنے خلاف ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
ساتھ ہی ماسکو کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ یوکرین میں اپنے زیر قبضہ علاقوں میں ایسی برآمدی راہ داریاں قائم کرے گا، جن کے ذریعے زرعی اجناس برآمد کرتے ہوئے عالمی سطح پر اشیائے خوراک کے بحران کا تدارک کیا جا سکے۔
روسی حکام کے مطابق ان برآمدی راہ داریوں کے قیام سے پہلے ماسکو اس وقت تک انتظار کرے گا، جب تک روس کے خلاف عائد بین الاقوامی پابندیوں کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔