040811 Landaneignung Afrika
9 اگست 2011ذرا تصور کیجیے، حد نگاہ تک پھیلی ہوئی ایسی زرعی زمینوں کا، جہاں مکئی اور دوسرے اناج کے کھیت لہلہا رہے ہوں۔ اور پھر یہ تصور کیجیے کہ یہ کھیت یورپ یا امریکہ میں نہیں بلکہ ایتھوپیا میں ہوں، اُس ملک میں، جہاں انسان بڑی تعداد میں بھوک کے باعث موت کے منہ میں جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
اِس طرح کافی زرعی رقبہ ہونے کے باوجود انسانوں کو قحط کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ غیر ملکی کمپنیاں یہ زمین لیز پر لے لیتی ہیں اور اسے صنعتی زراعت کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ایتھوپیا کی حکومت ایسا کرتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ساتھ ساتھ جدید زراعت کے لیے مطلوبہ ٹیکنالوجی کی بھی امید کر رہی ہے۔ زرخیز زمینوں کا ایک بڑا حصہ سرے سے استعمال ہی نہیں ہو رہا۔
ایتھوپیا غیر ملکی کمپنیوں کے لیے اس قدر کشش کا باعث کیوں ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاوِٹ تسفائی (Dawit Tesfaye) نے، جو ایتھوپیا کی وزارتِ زراعت کے ساتھ بھی وابستہ رہ چکے ہیں اور آج کل بون یونیورسٹی میں تحقیق میں مصروف ہیں، بتایا:''جب کوئی سرمایہ کار صرف برآمد کرنے کے لیے اناج پیدا کرتا ہے تو اُسے پانچ سال تک کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑتا۔ اس کے برعکس اگر کوئی سرمایہ کار مقامی منڈی کے لیے اناج پیدا کرنا چاہے تو اُسے ٹیکسوں کی یہ چھوٹ صرف دو یا تین سال تک کے لیے ہی دی جاتی ہے۔‘‘
گزشتہ برس ایتھوپیا نے اپنی تین ملین ہیکٹر زرخیز اراضی ٹھیکے پر دینے کی پیشکش کی۔ یہی رجحان دیگر افریقی ملکوں میں بھی نظر آ رہا ہے۔ سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والے ممالک بھارت، پاکستان، سعودی عرب اور چین ہیں، جو اپنی ضرورت کی اَشیائے خوراک کے ساتھ ساتھ زیادہ تر بائیو ڈیزل کے حصول کے لیے اناج اگاتےہیں۔
اگر کبھی یہ اناج مقامی منڈی میں فروخت کے لیے پیش بھی کیا جائے تو الٹا نئے مسائل جنم لیتے ہیں، جیسا کہ بتایا، واشنگٹن کی امریکی یونیورسٹی سے وابستہ چینی افریقی تعلقات کی ماہر ڈیبورا بروئٹیگم نے:’’چینی سرمایہ کار مثلاً زیمبیا میں مقامی زرعی منڈی میں پیسہ لگا رہے ہیں۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے، جب چینی اپنی پیدا کی ہوئی گندم، مکئی اور مویشیوں کے ساتھ زیمبیا کے مقامی کسانوں کا خود اُنہی کے ملک میں مقابلہ کرنے لگتے ہیں۔‘‘
موسمیاتی تبدیلیوں، بدعنوانی اور سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے زرخیز افریقی اراضی کے حصول کو بھی بھوک کے اُس بحران کی ایک وجہ قرار دیا جاتا ہے، جس کا آج کل ایتھوپیا، صومالیہ، کینیا اور جبوتی کے بارہ ملین سے زیادہ انسانوں کو سامنا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک