1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زلزلہ سے تباہ حال علاقہ آواران بلوچ علیحدگی پسندوں کے خطرات سے دوچار

شادی خان سیف، آوران بلوچستان8 اکتوبر 2013

پاکستان کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں علیٰحدگی پسندوں کی ممکنہ کارروائیوں کا ڈراب بھی امدادی سرگرمیوں کو متاثر کیے ہوئے ہے۔

تصویر: picture-alliance/ZUMA Press

جنوبی ضلع آواران میں 25 ستمبر کو آنے والے زلزلے اور بعد کے آفٹرشاکس نے اس انتہائی پسماندہ علاقے میں خاصی تباہی مچا رکھی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس زلزلے میں 332 لوگوں کی اموات ہوئیں تاہم آزاد ذرائع کے مطابق 600 سے زائد انسانی جانیں اس زلزلے کی نذر ہوچکی ہیں۔


بلوچستان کو جہاں پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ قرار دیا جاتا ہےوہاں آوران کے باسی اس صوبے کے مفلس ترین باشندے سمجھے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ آج ہی کے دن یعنی آٹھ اکتوبر 2005 ء میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آنے والے زلزلے میں بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے مطابق ایک لاکھ سے زائد انسانوں کی موت ہوئی تھی۔ اُس زلزلے کی شدت سات اعشاریہ چھ جبکہ آوران میں آنے والے حالیہ زلزلے کی شدت سات اعشاریہ سات تھی۔ گرچہ آوران سنگلاخ پہاڑی سلسلوں میں گھرا ہوا ضلع ہے مگر یہاں آبادی خاصی کم ہے اور بیشتر میدانی علاقوں میں لوگ مٹی کے بنے ہوئے چھوٹے اور کچے مکانات میں رہتے ہیں۔ اسی باعث زیادہ تباہی نہیں آئی۔

آواران میں امدادی سرگرمیاں پوری طرح عمل میں نہیں لائی جا سکی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

متاثرین کی امداد میں مصروف’ ہیلپنگ ہینڈز’ نامی ادارے کے صوبائی نگراں عبدالحکیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کا ڈر اب بھی محسوس کیا جاتا ہے اور ضلعی مرکز کے علاوہ دیگر دو دراز علاقوں تک مطلوبہ مقدار میں امداد نہیں پہنچ سکی ہے۔ ‘’جو امدادی تنظیمیں ہیں وہ کہتی ہیں کہ اگر ہم وہاں جائیں تو معلوم نہیں وہاں کیا صورتحال ہوگی، علیٰحدگی پسند ہمیں چھوڑیں گے یا نہیں اور اگر آرمی کے ساتھ جاتے ہیں تو یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں ہم پر حملہ نہ ہوجائے اور اگر آرمی کے ساتھ نہ جائیں تو لوٹ مار کا خوف رہتا ہے اور پھر علیٰحدگی پسندوں کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں’’۔


بنیادی طور پر اس علاقے کے چھ یونین کونلسز میں زلزلے نے تباھی مچائی ہے، جن میں آوران کے علاوہ مشکے، گشکور، تیرتیج، پروار،اور نوکجو شامل ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق لگ بھگ 29 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے اس علاقے میں سوا لاکھ کے قریب آبادی رہتی ہے۔ رضاکار تنظیمیوں کی جانب سے اب تک اکھٹی کی گئی معلومات کے مطابق ان چھ یونین کونلسز میں پندرہ ہزار سے زائد مکانات مکمل طور پر منہدم ہو چکے ہیں۔

آواران کے زلزلے نے کراچی کے عوام کو بھی چوکنا کر دیاتصویر: picture-alliance/dpa


آوران کا قریب ترین بڑا شہر کراچی ہے جو اس سے سوا تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ راستے کی سڑکوں پر خواتین پانی اور ایندھن کے لیے استعمال کی جانے والی لکڑی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہیں۔علاقے میں جگہ جگہ پاکستان مردہ باد اور آزاد بلوچستان کے نعرے دیواروں پر لکھے ہوئے ہیں۔

مشکے کو بلوچ علیٰحدگی پسندوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ بلوچ مسلح تنظیموں کا الزام ہے کہ زلزلے سے متاثرہ افراد کی مدد میں پاکستانی فورسز ان علاقوں کی طرف پیش قدمی کرنا چاہتی ہے جو ان کے مضبوط گڑھ ہیں۔


گزشتہ ہفتے بلوچ علیحدگی پسندوں اور فوج کے مابین ایک جھڑپ میں آئی ایس پی آر کے مطابق دو اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ بلوچستان لبریشن فرنٹ نےچودہ سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔

کمشنر آوران محمد اکبر نے تسلیم کیا کہ امن و امان کے حوالے سے کچھ مسائل موجود ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘یہاں سے جو جائے گا بیلہ جائے گا، اوتھل، ڈسٹرک لسبیلہ کی بات کر رہا ہوں یہ مکمل محفوظ ہے بلکہ بیلہ سے ڈھنڈار تک، یہاں آرمی اور ایف سی کی ڈپلائمنٹ ہے دوسرا مشکے جو ہے وہاں لاء اینڈ آرڈر کے کچھ واقعات ہوئے ہیں مگر اب صورتحال بہتر ہے۔''

ایک متاثرہ بستی میں گھومتے ہوئے جب میں نے یہاں رہنے والے ایک پختہ عمر شخص امید علی سے پوچھا کہ کیا ان کی کچھ داد رسی ہوئی تو وہ کچھ یوں بولا، ‘’ ہم غریب لوگ ہیں ہمارا تو پہلے ہی کوئی رابطے والا نہیں تھا اب اس ٹائم بھی ہمارے پاس کوئی نہیں آیا۔’’ کچھ عرصے بعد زلزلے سے متاثرہ آوران میں مغرب کی سمت سے برفانی ہواؤں کا سلسلہ چل پڑے گا جو اس غریب بستی کے باسیوں کے لیے ایک اور کڑا امتحان ہوگا‘۔



اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں