زلزلہ، متاثرہ علاقےاور امداد
31 اکتوبر 2008پاکستانی صوبہ بلوچستان میں آنے والے زلزلے کےدو روز بعد، آج جمعہ کے روز متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں اورزخمیوں کے حوالے سے کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی اشرف خان نے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کہ متاثرہ علاقوں میں زلزلے کا خطرہ ابھی تک موجود ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کت لئے کافی حد تک بنیادی ضروری اشیا اور خیمے وغیرہ پہنچائے جا چکے ہیں۔ مگر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی علاقے اب تک امدادی سرگرمیوں میں مصروف کارکنوں کی نظروں میں نہیں آ سکے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق بلوچستان کے زلزلہ زدہ علاقوں میں متاثرین کو امدادی اشیا کی فراہمی کے لئے شروع کئے جانے والے ریلیف آپریشن میں سی ون تھرٹی طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹرز استعمال کئے جا رہے ہیں۔
بلوچستان کے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں تاہم رکاوٹوں کے باعث متعدد علاقوں میں امدادی اشیا پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بلوچستان کے زلزلہ سے متاثرہ ضلع زیارت میں گرم کپڑوں اور کمبلوں کی عدم دستیابی کے باعث بچے سردی کے باعث بیمار ہو رہے ہیں۔ زیارت اورگرد و نواح کے متعدد متاثرہ علاقوں میں ابھی تک امدادی اشیاء نہیں پہنچ سکی ہیں۔ کمبلوں اور گرم کپڑوں کی عدم دستیابی کے باعث کیمپوں اور عارضی میڈیکل اسٹورز میں موجود بچے نمونیا اور دیگر بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
جمعرات کے روز کومت پاکستان کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ وہ زلزلہ زدگان کے لئے بین الاقوامی برادری سے امداد کی اپیل نہیں کرے گی۔ اگر کسی نے خود امداد کی پیشکش کی تو اسکا خیرمقدم کیا جائے گا۔
نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹنینٹ جنرل ریٹائرڈ فاروق احمد کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں زلزلے سے مجموعی طور پر چھتیس ہزارافراد متاثر ہوئے ہیں مگرصورتحال ایسی نہیں کہ حکومتی سطح پر بین الاقوامی امداد کےلئے اپیل کی جائے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق احمد نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ اور جانی و مالی نقصانات کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔جنرل ریٹائرڈ فاروق احمد نے کہا کہ پسنی کے قریب بحیرہ عرب اور زیارت میں کل شام آنے واکے زلزلے کے جھٹکے نئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی مکمل توجہ زلزلے سےمتاثرہ چھتیس ہزار افراد کی امداد پر ہے۔
جرمنی نے زلزلہ متاثرین کے لئےتین لاکھ پندرہ ہزارڈالرکی فوری امدادی رقم دینے کا اعلان کیا ہے۔ اسکے علاوہ جرمنی کا ناگہانی آفات اور بحرانی صورتحال کے شکار انسانوں کی امداد کا ادارہ Johanniter ماضی کی طرح اس بار بھی پاکستان کے زلزلہ زدگان کی فوری امداد کے لئے کاروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔
اسلام آباد میں یوہانیٹر کے ہیڈکواٹرمیں امدادی پروگرام کے رابطہ کار نصیر احمد کاکڑ نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں کہا کہ اس زلزلے سے زیارت اور پشین کے اضلاع زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ادارے کی ٹیمیں ان علاقوں میں پہنچنا شروع ہو گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امدادی ٹیمیں زخمیوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ریلیف کے کاموں میں بھی حصہ لیں گی۔
اس قبل حکومتی اعداد شمار میں بھی دو سو افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی۔ جب کہ سینکڑوں افراد کو علاج کے لئے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ ہلاک ہونے والے افراد میں سے پچاس افراد کی تدفین کر دی گئی ہے۔ زیارت کے قریب واقع کان بنگلہ کے مقام پر زلزلے سے جاں بحق ہونے والے افراد کی اجتماعی قبر میں تدفین کردی گئی۔ متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں اورمقامی امدادی ٹیمیں، فوج، ایف سی اہلکار اور سیاسی و سماجی تنظیموں کے رضاکار زلزلہ زدگان میں خوراک، خیمے اور ادویات کی تقسیم میں مصروف ہیں۔
صوبائی حکومتی نے وفاق سے مدد کی اپیل کی ہے جبکہ دیگر صوبوں کی جانب سے متاثریں کی امداد کے لئے ضروری اشیاء کی ترسیل کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
کوئٹہ سے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالرزاق برق نے بتایا کہ بارہ دیہات زلزلے سے تباہ ہوئے اور تقریبا پانچ کلو میٹر کا علاقہ بری طرح متاثر ہوا۔
عبدالرزاق کا کہنا تھا کہ اس وقت فوجی ہیلی کاپٹر ضلع زیارت کی حدود میں امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں اور امدادی سامان میں کھانے پینے کی اشیاء، کمبل اور خیمے وغیرہ ہلی کاپٹر سے گرائے جا رہے ہیں۔ مختلف سیاسی پارٹیوں اور غیر سیاسی تنظیمیں بھی متاثرین کے لئے امدادی سرگرمیوں میں پیش پیش نظر آ رہی ہیں۔