خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے انڈونیشیا کے حکام کے حوالے سے پیر کے دن بتایا ہے کہ اٹھائیس ستمبر کو آنے والی قدرتی آفات کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 1944 تک پہنچ گئی ہے جبکہ اس میں اضافے کا خدشہ بدستور موجود ہے۔
آفتوں سے نمٹنے والے قومی ادارے کے چیئرمین ولیم رام پانگیلی نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ان زلزلوں اور سونامی کی وجہ سے 74 ہزار افراد بے گھر بھی ہوئے ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق سب سے زیادہ تباہی سولاویسی کے مرکزی شہر پالو میں ہوئی، جہاں بڑے پیمانے پر املاک کو بھی نقصان پہنچا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوردراز کے کچھ علاقوں میں ہونے والی خونریز تباہی کے بارے میں ابھی تک مکمل معلومات موصول نہیں ہو چکی ہیں جبکہ امدادی کارکنوں کو ان علاقوں تک رسائی میں مشکلات کا سامنا بھی ہے۔
حکام نے بتایا ہے کہ پالو کے دو دیہات پیتوبا اور بالاراؤ میں کم از کم پانچ ہزار افراد لاپتہ ہیں۔ ان دیہات میں درجنوں مکانات سونامی کی لہروں کے ساتھ ہی بہہ گئے تھے۔
ایک مقامی اہلکار نے بتایا ہے کہ یہ تعداد عینی شاہدین سے ملنے والی اطلاعات کی بنیاد پر ہیں جبکہ حقیقی تعداد کتنی تھی، یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ اب ایسے اشارے دیے جا رہے ہیں کہ شائد یہ لاپتہ افراد بھی مارے گئے ہیں۔
رام پانگیلی نے بتایا ہے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ گیارہ اکتوبر تک سرچ اور ریسکیو کے کاموں کو مکمل کر لیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مکمل معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا گیارہ اکتوبر کے بعد بھی کسی سرچ آپریشن کی ضرورت ہے۔
طبی ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں حفظان صحت کا خصوصی خیال رکھنا ہو گا ورنہ متعدی بیماریوں کے پھیلنے کا امکان ہو سکتا ہے۔
سولاویسی میں اس تباہی کے بعد ملکی سطح پر لوگ امدادی سامان کی ترسیل میں پیش پیش ہیں۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا، سنگاپور، قطر اور بھارت کی طرف سے بھی انڈونیشیا میں امدادی سامان پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق متاثرہ علاقوں میں روزمرہ زندگی معمول پر آنا شروع ہو گئی ہے اور کئی دوکانیں کھول دی گئی ہیں۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
آج 2004ء میں آنے والی سونامی لہروں کی زد میں آ کر ہلاک ہونے والوں کو یاد کیا جا رہا ہے۔ اس قدرتی آفت سے سب سے زیادہ متاثر انڈونیشیا کا جزیرہ آچے ہوا تھا۔ ان برسوں میں یہ شہر تمیر نو کی کئی منازل طے کر چکا ہے۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansasti26 دسمبر کو سماٹرا کے ساحلی علاقوں کے قریب ایک شدید زلزلہ آیا تھا۔ اس زلزلے کی وجہ سے بحر ہند میں سونامی پیدا ہوا۔ اس کی اونچی لہریں 12 ممالک کے ساحلی علاقوں تک محسوس کی گئیں۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansastiانڈونیشیا کا صوبہ آچے سماٹرا کے شمال میں واقع ہے اور یہی اس سونامی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ صرف اس علاقے میں ایک لاکھ تیس ہزار افراد مارے گئے۔ آچے کے دارالحکومت بندہ آچے کی یہ تصویر اس تباہی کی عکاس ہے۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansastiآچے میں سونامی کی 35 میٹر اونچی لہروں نے ہر طرف تباہی مچا دی۔ اس سونامی کی وجہ سے بدھ آچے کا پورا علاقہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔
تصویر: AFP/Getty Images/Joel Saggetجنوب مشرقی ایشیا میں آنے والے اس سونامی کی وجہ سے ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوئے۔ اس سونامی کے چند روز بعد لی جانے والی یہ تصویر متاثرین کی بے گھری کی عکاسی کرتی ہے۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansastiاس سونامی کا ذکر کرتے ہوئے امریکی صحافی کیرا کے کا کہنا تھا، ’’ہر طرف انسانی لاشیں عمارتوں کے ملبے تلے تھیں۔ متعدد کارکنان ان لاشوں کو ملبے کے نیچے سے نکال نکال کر اجتماعی قبروں میں دفن کر رہے تھے۔ یہ ایک خوف ناک منظر تھا۔‘‘
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansastiاس سانحے کے بعد آچے کا علاقہ مزید مذہبی رنگ اختیار کر گیا۔ زیادہ تر افراد کا خیال تھا کہ علاقے میں ’غیراخلاقی‘ سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں خدا نے سزا دی ہے، کیوں کہ متعدد مسجدیں بچ گئیں۔ اس تصویر میں ایک پرانی مسجد نئے مکانات کے درمیان دکھائی دے رہی ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/Chaideer Mahyuddinانڈونیشیا کے دیگر علاقوں کے لحاظ سے آچے ہمیشہ سے زیادہ قدامت پسند رہا ہے۔ اسی تناظر میں اسے ’مکہ کی راہ داری‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں یہاں مقامی سطح پر شرعی قوانین کا نفاذ کیا گیا ہے، جن میں خواتین کے لباس تک کا ضابطہ شامل ہے۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansastiاس تباہی کے بعد بین الاقوامی برادری کی جانب سے فراغ دلی سے مدد کی گئی، جس کی وجہ سے یہ علاقہ پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر انداز سے دوبارہ تعمیر ہوا۔ اسی تباہی نے حکومت اور باغیوں کے درمیان دہائیوں سے جاری خونریز جنگ کا خاتمہ بھی کر دیا اور فریقین کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansastiسونامی تاریخی تھا تاہم اس سونامی کے ردعمل میں نے بین الاقوامی برادری نے امداد بھی تاریخی کی۔ اس علاقے میں اب یا تو بالکل نئی عمارتیں نظر آتی ہیں، یا باقاعدہ اچھے انداز سے مرمت شدہ۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansastiاس تباہی کے بعد آچے کے علاقے میں سڑکیں، مکانات، پل اور بندرگاہیں بالکل نئے انداز سے تعمیر کی گئیں۔ اس کے بارے میں عالمی بینک کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی تعمیر نو کی ایک انتہائی کامیاب کاوش رہی۔ رواں برس کی اس تصویر میں یہ علاقہ ایک نیا منظر پیش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansasti