زمينی حالات پر رپورٹنگ، کشميری صحافی کے ليے کيٹ ويب پرائز
20 فروری 2020
بھارت کے زير انتظام کشمير ميں انتہائی سخت حالات ميں اپنی صحافتی ذمہ دارياں پوری کرنے پر کشميری صحافی احمر خان کو سن 2019 کے ليے فرانس کے معتبر سمجھے جانے والے ’کيٹ ويب پرائز‘ کا حقدار قرار ديا گيا ہے۔
اشتہار
کشمير سے تعلق رکھنے والے فری لانس صحافی احمر خان کو صحافتی شعبے کے کيٹ ويب پرائز کا حقدار قرار ديا گيا ہے۔ فرانسيسی خبر رساں ادارے اے ايف پی کے اس سالانہ پرائز کا اعلان جمعرات کو کيا گيا۔ احمر خان کو بھارت کے زير انتظام کشمير ميں مواصلاتی بندشوں کے دوران رپورٹنگ کے فرائض سر انجام دينے پر اس اعزاز سے نوازا گيا۔
پچھلے سال اگست ميں نئی دہلی حکومت نے بھارت کے زير انتظام کشمير کی خصوصی آئينی حيثيت ختم کرتے ہوئے اس خطے ميں مواصلاتی نظام پر بندشيں لگا دی تھيں۔ انٹرنيٹ کی عدم دستيابی کے باوجود احمر خان نے کئی ويڈيو اور تحريری رپورٹيں ترتيب ديں، جن کی مدد سے کشمير کے زمينی حالات کے بارے میں عالمی سطح پر آگاہی پھيلی۔ کرفيو اور سکيورٹی دستوں کی بھاری نفری کی تعيناتی کے باوجود احمر خان اپنا کيمرہ اٹھائے سڑکوں پر کام کرتے دکھائی ديے۔ کئی مرتبہ اپنی رپورٹيں جمع کرانے کے ليے انہوں نے نئی دہلی کا رخ بھی کيا، جہاں سے وہ اپنا مواد نشرياتی اداروں کو بھيجتے رہے۔
کيٹ ويب پرائز فرانسيسی نيوز ايجنسی اے ايف پی کے اعلٰی ترين نمائندے کے نام سے منسوب ہے۔ يہ اعزاز اے ايف پی کے ايشيا ميں مشکل حالات ميں کام کرنے والے صحافيوں کو ديا جاتا ہے۔ ستائيس سالہ خان کو اس سال ہانگ کانگ ميں منعقد ہونے والی ايک تقريب ميں ايوارڈ ديا جائے گا۔ کشميری صحافی کو تين ہزار يورو بھی ديے جائيں گے۔ پچھلے سال يہ ايوارڈ پاکستانی صحافی اسد ہاشمی کو ديا گيا تھا۔ انہوں نے پاکستان ميں پشتونوں اور توہين مذہب کے قانون سے متاثرہ افراد پر رپورٹنگ کی تھی۔
ہانگ کانگ ميں اے ايف پی کے علاقائی ڈائريکٹر فيليپے ميسونيٹ نے اس بارے ميں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کشمير پر رپورٹنگ تمام صحافيوں بالخصوص غير ملکی صحافيوں کے ليے کافی مشکل ثابت ہوئی ہے۔ احمر خان نے کيٹ ويب پرائز جيتنے پر کہا کہ يہ ان کے ليے کافی اعزاز کی بات ہے۔ ان کے بقول يہ پيش رفت انہيں اور بھی زيادہ دل لگا کر کام کرنے کی ہمت دے گی۔ خان نے کيٹ ويب پرائز کشمير کے خطے ميں سرگرم ان تمام صحافيوں کے نام کيا، جو پچھلے چھ ماہ سے کافی کٹھن حالات ميں کام جاری رکھے ہوئے ہيں۔
صحافت: ایک خطرناک پیشہ
رواں برس کے دوران 73 صحافی اور میڈیا کارکنان قتل کیے گئے۔ یہ تمام جنگی اور تنازعات کے شکار علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران ہی ہلاک نہیں کیے گئے۔ گزشتہ کئی سالوں سے صحافی برادری کو مختلف قسم کی مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
وکٹوریہ مارینوا، بلغاریہ
تیس سالہ خاتون ٹی وی پریزینٹر وکٹوریہ مارینوا کو اکتوبر میں بلغاریہ کے شمالی شہر روسے میں بہیمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے یورپی یونین کے فنڈز میں مبینہ بدعنوانی کے ایک اسکینڈل پر تحقیقاتی صحافیوں کے ساتھ ایک پروگرام کیا تھا۔
تصویر: BGNES
جمال خاشقجی، سعودی عرب
ساٹھ سالہ سعودی صحافی جمال خاشقجی ترک شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے لیکن باہر نہ نکلے۔ سعودی حکومت کے سخت ناقد خاشقجی اکتوبر سے لاپتہ ہیں۔ وہ اپنی طلاق کے کاغذات کی تیاری کے سلسلے میں قونصلیٹ گئے تھے جبکہ ان کی منگیتر باہر گیارہ گھنٹے انتظار کرتی رہیں لیکن خاشقجی باہر نہ آئے۔ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک خاشقجی نے کہا تھا کہ ریاض حکومت انہیں قتل کرانا چاہتی ہے۔
تصویر: Reuters/Middle East Monitor
یان کوسیاک اور مارٹینا کسنیروا، سلوواکیہ
تحقیقاتی صحافی یان کوسیاک اور ان کی پارٹنر مارٹینا کسنیروا کو فروری میں قتل کیا گیا تھا۔ اس کا الزام ایک سابق پولیس اہلکار پر عائد کیا گیا۔ اس واردات پر سلوواکیہ بھر میں مظاہرے شروع ہوئے، جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونا پڑ گیا۔ کوسیاک حکومتی اہلکاروں اور اطالوی مافیا کے مابین مبینہ روابط پر تحقیقات کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Voijnovic
دافنہ کورانا گالیزیا، مالٹا
دافنہ کورانا گالیزیا تحقیقاتی جرنلسٹ تھیں، جنہوں نے وزیر اعظم جوزف مسکوت کے پانامہ پیپرز کے حوالے سے روابط پر تحقیقاتی صحافت کی تھی۔ وہ اکتوبر سن دو ہزار سترہ میں ایک بم دھماکے میں ماری گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L.Klimkeit
وا لون اور چُو سو او، میانمار
وا لون اور چُو سو او نے دس مسلم روہنگیا افراد کو ہلاکت کو رپورٹ کیا تھا۔ جس کے بعد انہیں دسمبر سن دو ہزار سترہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انتالیس عدالتی کارروائیوں اور دو سو پیسنٹھ دنوں کی حراست کے بعد ستمبر میں سات سات سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سن انیس سو تئیس کے ملکی سرکاری خفیہ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Wang
ماریو گومیز، میکسیکو
افغانستان اور شام کے بعد صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک میکسیکو ہے۔ اس ملک میں سن دو ہزار سترہ کے دوران چودہ صحافی ہلاک کیے گئے جبکہ سن دو ہزار اٹھارہ میں دس صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 35 سالہ ماریو گومیز کو ستمبر میں ان کے گھر پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حکومتی اہلکاروں میں بدعنوانی کی تحقیقات پر انہیں جان سے مارے جانے کی دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
سمین فرامارز اور رمیز احمدی، افغانستان
ٹی وی نیوز رپورٹر سیمین فرامارز اور ان کے کیمرہ مین رمیز احمد ستمبر میں رپورٹنگ کے دوران کابل میں ہوئے ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ افغانستان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو، برازیل
برازیل میں بدعنوانی کا مسئلہ بہت شدید ہے۔ ریڈیو سے وابستہ تحقیقتاتی صحافی مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو حکومتی اہلکاروں کی کرپشن میں ملوث ہونے کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے تھے۔ انہیں اگست میں چار مسلح حملہ آوروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Sa
شجاعت بخاری، کشمیر
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں فعال معروف مقامی صحافی شجاعت بخاری کو جون میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بخاری کو دن دیہاڑے سری نگر میں واقع ان کے دفتر کے باہر ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے بھی منسلک رہ چکے تھے۔
تصویر: twitter.com/bukharishujaat
دی کپیٹل، میری لینڈ، امریکا
ایک مسلح شخص نے دی کپیٹل کے دفتر کے باہر شیشے کے دروازے سے فائرنگ کر کے اس ادارے سے وابستہ ایڈیٹر وینڈی ونٹرز ان کے نائب رابرٹ ہائیسن، رائٹر گیرالڈ فشمان، رپورٹر جان مک مارا اور سیلز اسسٹنٹ ریبیکا سمتھ کو ہلاک کر دیا تھا۔ حملہ آور نے اس اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا تھا، جو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔