زمینی طاقتوں کی فوجی غلبے کی خواہش، خلا بھی میدان جنگ بن گیا
26 اگست 2020
زمین پر بڑی طاقتوں نے اپنے عسکری غلبے کے لیے اب خلا کو بھی میدان جنگ بنا دیا ہے۔ مختلف ممالک نے آج تک جتنے بھی مصنوعی سیارے خلا میں بھیجے ہیں، ان میں سے ہر پانچواں ایک ملٹری سیٹلائٹ ہے، جس کے ذریعے جاسوسی کی جاتی ہے۔
اشتہار
زمینی طاقتوں نے آج تک خلا میں جتنے بھی جاسوس سیٹلائٹس بھیجے ہیں، ان میں اسی سال مزید دو کا اضافہ ہو جائے گا اور یہ مصنوعی سیارے امریکا کی طرف سے زمین کے مدار میں چھوڑے جائیں گے۔ امریکا میں ایک ملکی ادارے کا نام نیشنل Reconnaissance آفس یا این آر او بھی ہے۔ یہ ادارہ خلا میں جاسوسی کے لیے مصنوعی سیارے بھیجنے کا نگران ہے۔
واشنگٹن حکومت رواں برس جو دو نئے مصنوعی سیارے خلا میں بھیجنا چاہتی ہے، ان میں سے ایک تو انتہائی جدید اور خفیہ سیٹلائٹ ہے، جس کا نام NROL-44 ہے۔ یہ امریکی جاسوس سیٹلائٹس سے متعلق اس وسیع تر پروگرام کا حصہ ہے، جسے اورائن کہاجاتا ہے اور جس نے 1995ء میں باقاعدہ طور پر کام کرنا شروع کیا تھا۔
یہ پروگرام امریکا کے انہی اولین جاسوس سیٹلائٹس کو خلا میں بھیجنے کا تسلسل ہے، جنہیں کورونا کا نام دیا گیا تھا اور جن پر 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں فیصلہ کن کام کیا گیا تھا۔
نیا امریکی جاسوس سیٹلائٹ کل چھوڑا جائے گا
اب تک کے پروگرام کے مطابق این آر او ایل چوالیس نامی یہ خفیہ فوجی سیٹلائٹ کل جمعرات 27 اگست کو عالمی وقت کے مطابق صبح چھ بج کر سولہ منٹ پر امریکی ریاست فلوریڈا میں کیپ کنیورل کے خلائی مرکز سے خلا کی طرف بھیجا جائے گا۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ سیٹلائٹ این آر او کے سال رواں کے لیے کئی مشنوں کا صرف ایک حصہ ہے۔ اسی سال جنوری میں امریکا نے NROL-151 نامی ملٹری سیٹلائٹ بھی خلا میں بھیجا تھا، جسے واشنگٹن کا نیشنل سکیورٹی سیٹلائٹ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور مصنوعی جاسوس سیارہ NROL-101 بھی اسی سال خلا میں پہنچ جائے گا۔
این آر او ایل چوالیس کتنا بڑا ہے؟
امریکا آج تک اورائن طرز کے سات ملٹری سیٹلائٹس خلا میں بھیج چکا ہے۔ کل جمعرات کو خلا میں چھوڑا جانے والا ایل چوالیس سیٹلائٹ اب تک کے تمام اورائن سیٹلائٹس سے بڑا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے ایک سابق سائنسدان ڈیوڈ بیکر بھی ہیں، جو ماضی میں اپالو اور شٹل مشنوں کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف اور اسپیس فلائٹ نامی جریدے کے ایڈیٹر ڈیوڈ بیکر کہتے ہیں، ''یہ سیٹلائٹ پانچ ٹن سے زیادہ وزنی ہے اور اس کا کمان کی شکل کا بہت بڑا انٹینا جب کھلتا ہے، تو اس کا قطر 110 میٹر بنتا ہے۔‘‘
یہ سیٹلائٹ ہزاروں کلو میٹر کی بلندی سے زمین پر کئی طرح کے شعبوں میں تکنیکی جاسوسی کرے گا۔ ماہرین کے مطابق جاسوس مصنوعی سیارے عام طور پر ان مقاصد کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں موبائل فونز کے ذریعے بھیجی جانے والی معلومات کا پتا چلا سکیں۔ اسی طرح وہ اپنے مخصوص طریقہ کار کے تحت ڈارک نیٹ پر دہشت گردانہ سرگرمیوں تک کا پتا بھی چلا سکتے ہیں۔
جاسوس سیٹلائٹس کی تعداد
امریکا میں تشویش کے شکار سائنسدانوں کے ایک گروپ کی طرف سے زمیں کے مدار میں سیٹلائٹس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ سائنسدانوں کی اس یونین کی طرف سے شائع کردہ پبلک ڈیٹا بیس کے مطابق خلا میں صرف این آر او کے چھوڑے ہوئے ہی 49 سیٹلائٹس موجود ہیں۔ مجموعی طور پر امریکا اب تک خلا میں اپنے 154 فوجی سیٹلائٹس بھیج چکا ہے۔
بین الاقوامی ماہرین کے مطابق خلا میں آج تک چھوڑے گئے مصنوعی سیاروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان میں سے صرف فوجی مقاصد کے لیے بھیجے گئے سیٹلائٹس کی تعداد کا اندازہ بھی 339 اور 485 کے درمیان لگایا جاتا ہے۔ ان فوجی سیٹلائٹس میں سے بہت بڑی تعداد جاسوس سیاروں کی ہے لیکن ایسے سبھی مصنوعی سیارے سول ملٹری یا صرف ملٹری نوعیت کے ہونے کے باوجود جاسوس سیٹلائٹس نہیں ہوتے۔
ان سائیٹ کے مریخ پر اترنے کے لمحات
ناسا کے خلائی جہاز ان سائیٹ نے چار سو بیاسی ملین کلومیٹر (تین سو ملین میل) کا سفر طے کیا ہے۔ یہ روبوٹ کنٹرول خلائی جہاز مسلسل چھ ماہ تک سفر کرنے کے بعد مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان سائیٹ خلائی مشن تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر کا بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔ اس میں جرمن ساختہ مکینکل دھاتی چادر بھی استعمال کی گئی ہے، جو مریخ کی حدت برداشت کرنے کے قابل ہے۔ فرانس کے ایک سائنسی آلات بنانے والے ادارے کا خصوصی آلہ بھی نصب ہے، جو مریخ کی سطح پر آنے والے زلزلوں کی کیفیات کو ریکارڈ کرے گا۔ اس کے اترنے پر کنٹرول روم کے سائنسدانوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/NASA/B. Ingalls
پہلی تصویر
تین ٹانگوں والا ان سائٹ مریخ کے حصے’الیسیم پلانیشیا‘ کے مغربی سمت میں اترا ہے۔ اس نے لینڈنگ کے بعد ابتدائی پانچ منٹوں میں پہلی تصویر کنٹرول ٹاور کو روانہ کی تھی۔ تین سو ساٹھ کلوگرام وزن کا یہ خلائی ریسرچ جہاز اگلے دو برسوں تک معلوماتی تصاویر زمین کی جانب روانہ کرتا رہے گا۔
تصویر: picture alliance/Zuma/NASA/JPL
ان سائنٹ مریخ کے اوپر
ان سائیٹ خلائی ریسرچ دو چھوٹے سیٹلائٹس کی مدد سے مریخ کی سطح تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان سیٹلائٹس کے توسط سے ان سائیٹ کی پرواز کے بارے میں معلومات مسلسل زمین تک پہنچتی رہی ہیں۔ اس خلائی مشن نے مریخ پر اترنے کے تقریباً ساڑھے چار منٹ بعد ہی پہلی تصویر زمین کے لیے روانہ کر دی تھی۔ اڑان سے لینڈنگ تک اِسے چھ ماہ عرصہ لگا۔ ناسا کے مریخ کے لیے روانہ کردہ خلائی مشن کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد ہے۔
ان سائیٹ مریخ کی سطح پر بارہ ہزار تین سو کلومیٹر کی رفتار سے پرواز کرتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔ اترے وقت اس کو بریکوں کے علاوہ پیراشوٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ ان سائیٹ پراجیکٹ کے سربراہ سائنسدان بروس بینرٹ کا کہنا ہے کہ مریخ کی جانب سفر سے کہیں زیادہ مشکل امر لینڈنگ ہوتا ہے۔ سن 1976 کے بعد مریخ پر لینڈنگ کی یہ نویں کامیاب کوشش ہے۔
مریخ کی سطح پر ان سائیٹ نامی خلائی تحقیقی جہاز ایک ہی مقام پر ساکن رہتے ہوئے اگلے دو برس تک اپنا مشن جاری رکھے گا۔ اس مشن میں مریخ کی اندرونی سطح کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ سرخ سیارے کے زلزلوں کی کیفیت کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یہ ریسرچ مشن مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار بارے کوئی معلومات جمع نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
5 تصاویر1 | 5
خلا میں ممکنہ تنازعے کی وجہ بننے والی اسلحے کی دوڑ
یہ درست ہے کہ سبھی حکومتوں کے اپنے راز ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی یہ راز جان بوجھ کر اس لیے منظر عام پر لائے جاتے ہیں کہ ان کا ایک مقصد کسی بھی حریف ملک یا ممالک کو نفسیاتی طور پر دباؤ میں لانا بھی ہوتا ہے۔
امریکا نے اپنے این آر او ایل چوالیس نامی سیٹلائٹ سے متعلق کئی تفصیلات محض اس لیے عام کیں کہ واشنگٹن یہ بات چھپانا نہیں چاہتا تھا کہ وہ خلا میں اپنے عسکری مفادات کے تحفظ کے لیے بھی تیار ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ وہ پینٹاگون کی اپنی ایک خلائی فورس کے قیام کا حکم بھی دے چکے ہیں۔
بری، بحری اور فضائی کے بعد اب خلائی فوج بھی
وہ امریکی اسپیس فورس، جسے صدر ٹرمپ نے امریکی فوج کے لیے زمین، فضا اور سمندروں کے بعد چوتھا میدان جنگ قرار دیا تھا، ایک ایسے خطے میں امریکا کے عسکری مفادات کا تحفظ کرے گی، جسے عرف عام میں صرف خلا کہا جاتا ہے۔ مگر عملاﹰ اس کا مطلب زمین بھی ہے، چاند بھی اور وہ کائناتی خالی پن بھی، جو زمین اور چاند کے درمیان ہے۔
ان حقائق کو دیکھا جائے تو زمین پر سائنسی حوالے سے ترقی یافتہ ممالک نے بڑی طاقتوں کے طور پر اب خلا کو بھی اپنے لیے میدان جنگ بنا لیا ہے اور وہاں بھی ایک ایسی عسکری دوڑ شروع ہو گئی ہے، جو مستقبل میں کم ہونے کے بجائے تیز تر ہی ہوتی جائے گی۔
ذوالفقار آبانی (م م / ک م)
ناسا کی ساٹھویں سالگرہ، تاریخی کامیابیوں پر ایک نظر
امریکی خلائی ادارہ ناسا اپنے قیام کی ساٹھویں سالگرہ منا رہا ہے۔ ان چھ عشروں میں اس مشہور خلائی ادارے کے توسط سے دنیا نے کچھ ایسے بھی لمحات دیکھے جو یاد گار ٹھہرے۔ ڈی ڈبلیو نے ایسے ہی کچھ تاریخی لمحات پر ایک نظر ڈالی ہے۔
سوویت یونین نے اپنا سپوتنک سیٹلائٹ سن 1957 میں خلا میں روانہ کیا تھا۔ یوں سوویت یونین خلائی مشن بھیجنے میں امریکا سے بازی لے گیا اور امریکا کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ خلا میں سویت یونین کا غلبہ قائم ہو جائے گا۔ تب ہی امریکی فوج نے انتیس جولائی کو ایکسلپورر وَن نامی سیٹلائٹ خلا میں بھیجا اور پھر اسی سال اکتوبر میں ناسا کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech
جب انسان چاند پر پہنچا
اپنے قیام کے صرف گیارہ سال بعد ہی ناسا پہلی بار چاند پر انسانوں کو اتارنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس تصویر میں خلا نورد نیل آرمسٹرانگ اور ایروِن ایلڈرن چاند کی سطح پر امریکی پرچم نصب کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
چودہ اپریل سن انیس سو ستر کے روز خلائی جہاز ’اپالو تیرہ‘ کا آکسیجن ٹینک پھٹ گیا تھا۔ جہاز میں موجود خلا نورد جیمز لوول کو ٹیکساس میں قائم ناسا کے مرکزی دفتر میں اس پیغام کے ساتھ رپورٹ کرنا پڑا تھا، ’’ہیوسٹن ، ہمیں مسئلہ پیش آ گیا تھا۔‘‘ خلانورد خرابی ٹھیک کرنے کے بعد بحفاظت زمین پر لوٹ آئے تھے۔
اٹھائیس جنوری سن 1986 کو خلا میں بھیجے جانے والی ’دی چیلنجر‘ سپیس شٹل اپالو تیرہ کی طرح خوش قسمت ثابت نہیں ہوئی۔ یہ خلا کی جانب روانہ ہونے کے چند منٹ بعد ہی دھماکے سے تباہ ہو گئی تھی اور اس میں موجود تمام سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ دھماکے کا سبب ’سیل بند‘ کرنے کے لیے استعمال کی گئی ربر کی مہر تھی جو غیر معمولی سرد درجہ حرارت کو برداشت نہیں کر سکی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/B. Weaver
دیرینہ مسابقت ختم ہو گئی
امریکی اور روسی سائنسدانوں کے درمیان خلا میں بھی جاری سرد جنگ بالآخر چودہ دسمبر سن انیس سو اٹھانوے کو اس وقت ختم ہو گئی جب امریکا کا ’یونیٹی‘ روس کے ’زاریا‘ اسٹیشنز آپس میں ملا دیے گئے۔ انہی دونوں کو ملا کر ’بین الاقوامی خلائی اسٹیشن‘ کی بنیاد ڈالی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA
ناسا کا اگلا مشن: مریخ پر انسان
مریخ سیارہ ناسا کے تجسس کا اگلا پڑاؤ تھا۔ چھ اگست سن 2012 کو ناسا کی بھیجی گئی موبائل لیبارٹری نے مریخ پر لینڈ کیا اور یہ موبائل لیبارٹری آج بھی مریخ سے سائنسی دریافتیں، سیلفیاں، تصاویر حتی کہ ٹویٹ پیغامات بھیجنے میں مصروف ہے۔ ناسا کا اگلا منصوبہ سن 2030 تک مریخ پر انسانوں کی لینڈنگ ہے۔