زمینی کارروائی کے لیے تیار ہیں، نیتن یاہو
19 نومبر 2012
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ فلسطینی سلامتی کے ادارے کی ایک عمارت کو بھی ہدف بنائے جانے کی اطلاع ہے۔ صرف پیر کے روز اسرائیلی حملوں میں کم از کم بارہ افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے دس عام شہری تھے۔
اس دوران چھ روز سے جاری اس تنازعے میں اب تک 96 فلسطینی جبکہ اسرائیل کے تین شہری بھی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ایک قریبی ساتھی کے بقول وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ غزہ کا معاملہ بات چیت کے ذریعے حل ہو جائے۔ ان کے بقول جنوبی اسرائیل میں دیرپا امن قائم ہونے کی صورت میں زمینی پیش قدمی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اسی تناظر میں صدر شمعون پیریز کا کہنا تھا، ’’درحقیقت ہم یہ جنگ چاہتے ہی نہیں ہیں۔ ہم حماس کو ختم کرنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ہمیں غزہ کی حیثیت تبدیل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہم تشدد نہیں چاہتے لیکن اس صورتحال میں ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے‘‘۔
غزہ میں چار سال قبل اسرائیل کی جانب سے زمینی کارروائی کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے مطابق جنوری 2009ء تک جاری رہنے والے اُس آپریشن میں 1400فلسطینی ہلاک ہوئے تھے اور چھ ہزار سے زائد گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے۔ بین الاقوامی سطح پر اس تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے ہی حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی اسرائیل اور حماس سے تشدد روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بان کی مون آج کسی وقت قاہرہ میں مصری صدر محمد مرسی سے ملاقات بھی کرنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے بھی آج سے خطے کا ایک دورہ کر رہے ہیں۔
دریں اثناء ایک سینئر مصری مصالحت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ حماس اور اسرائیل کی جانب سے جب تک فائر بندی کی شرائط واضح طور پر پیش نہیں کی جاتیں، اس وقت تک اس معاہدے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اطلاعات کے مطابق حماس کا موقف ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فضائی کارروائیاں روکے جانے کے بعد ہی فائر بندی کے موضوع پر کوئی بات کی جا سکتی ہے۔ دوسری جانب روسی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں اسرائیل اور حماس کے ایک دوسرے پر حملوں کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اس سلسلے کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ai / mm ( AP, Reuters, AFP)