دنیا بھر میں پانی کے زیر زمین ذخائر سے آبپاشی اور روزمرہ ضروریات کے لیے پانی نکالنا اب معمول کی بات ہے۔ مگر ماہرین کے مطابق حد سے زیادہ گراؤنڈ واٹر پمپنگ کے باعث زمین کا گردشی محور اسی سینٹی میٹر مشرق کی طرف سرک گیا ہے۔
اشتہار
دنیا بھر میں گزشتہ دو عشروں کے دوران خشک سالی اور بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث زمین سے پانی نکالے جانے کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو ا ہے۔ بہت سے علاقوں میں زمین کی گہرائی میں پانی کی سطح اس حد تک گر چکی ہے کہ بورنگ سے بھی پانی نکالنا ممکن نہیں رہا۔
جنوبی کوریا میں یونیورسٹی آف سیول سے منسلک سائنسدان کی ویون سیو اور کلارک آر ولسن کی ایک حالیہ مشترکہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا بھر میں گراؤنڈ واٹر کی غیر ذمہ دارانہ حد تک زیادہ پمپنگ کے نتیجے میں کرہ ارض کا گردشی محور تقریباﹰ 80 سینٹی میٹر مشرق کی طرف سرک چکا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج کیا بتاتے ہیں؟
امریکی جیو فزیکل یونین کے جریدے میں حال ہی میں ایک چونکا دینے والی تحقیق شائع ہوئی۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن کے ماہر کلارک آر ولسن اس تحقیق کے شریک مصنف ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے تحقیقی ماڈل میں سن 1993ء سے 2010ء تک دنیا بھر میں زمین سے نکالے گئے پانی سے متعلق اعداد و شمار جمع کیے گئے۔
کلارک ولسن کے مطابق یہ امر انتہائی تشویش ناک ہے کہ 17 سال کے اس عرصے میں زمین سے تقریباﹰ 2100 گیگا ٹن پانی نکالا گیا، جس کے نتیجے میں عالمی سمندروں میں پانی کی سطح میں 1.3 ملی میٹر سالانہ کی شرح سے اضافہ بھی ہوا۔ اس تحقیق کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ اتنی بڑی مقدار میں پانی نکالے جانے کا اثر زمین کے گردشی محور پر بھی پڑا، جو اب 80 سینٹی میٹر مشرق کی جانب سرک چکا ہے۔
ولسن کے مطابق اگرچہ ماحولیاتی تبدیلیوں، گلیشیئرز کے پگھلنے اور سطح سمندر میں اضافے سے بھی زمین کی اس کے محور کے گرد گردش میں تبدیلیاں آتی ہیں تاہم یہ امر پہلی مرتبہ باقاعدہ اور درست اعداد و شمار کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ حد سے زیادہ گراؤنڈ واٹر پمپنگ بھی زمین کی اس کے محور کے گرد گردش کو متاثر کر رہی ہے۔
زمینی پانی کے نکالے جانے اور زمین کی گردش میں تعلق؟
اس تحقیق کے مصنف کی ویون سیو کے مطابق زمین کی اس کے محور کے گرد گردش کو قطبی گردش بھی کہا جاتا ہے۔ زمین پر مادے کی تقسیم میں ہونے والی تبدیلیاں اس گردش کا سبب بنتی ہیں، جس سے زمین کے قطبین کی پوزیشن میں بھی وقت کے ساتھ تغیر آتا رہتا ہے اور یہ ایک بالکل قدرتی عمل ہے۔
ویون سیو مزید بتاتے ہیں کہ 1990ء کی دہائی سے نوٹ کیا جا رہا ہے کہ زمین پر پانی کی تقسیم کا پہلو بھی محوری گردش کو متاثر کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سادہ انداز میں اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی بھی گھومنے والی شے پر اگر ایک جانب زیادہ دباؤ ڈالا جائے، تو وہ اسی جانب جھکنے لگتی ہے۔ بالکل اسی طرح زیر زمین پانی کی پوزیشن میں تبدیلی سے زمین کا محور سرک کر 80 سینٹی میٹر مشرق کی جانب چلا گیا۔
اشتہار
قطبی گردش میں تبدیلی زمینی موسموں کو بھی متاثر کرے گی؟
کلارک ولسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ زمین کی اس کے محور کے گرد گردش قطعی طور پر دائرے میں نہیں ہوتی، بلکہ دائروی کے بجائے بیضوی ہے۔ زمین کا گردشی محور عموماﹰ ایک سال میں چند سینٹی میٹر سرک جاتا ہے۔ لہٰذا دو دہائیوں کے دوران 80 سینٹی میٹر تک کی تبدیلی سے زمین پر موسموں یا دن کے دورا نیے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق کے نتائج اس حوالے سے تشویش ناک ہیں کہ بہت بڑی مقدار میں پانی زمین سے نکالا جا رہا ہے، جس کا اثر براہ راست محوری گردش اور سطح سمندر دونوں پر پڑ رہا ہے۔
پانی تو پانی ہے یہی زندگانی ہے لیکن چولستان میں تو مسائل اور ہیں
06:47
اس امریکی سائنس دان کے بقول پمپنگ یا بورنگ سے جو پانی زمین کی گہرائی سے نکالا جا تا ہے، وہ ہماری ضروریات پوری کر کے لازمی طور پر یا تو آبی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے اور یا پھر مختلف عوامل اور ذرائع سے گزر کر سمندروں میں جا گرتا ہے۔
اس طرح یہ عمل عالمی سطح پر پانی کی تقسیم کرتا ہے اور سطح سمندر میں سالانہ ایک اعشاریہ تین ملی میٹر اضافے کا سبب بھی بن رہا ہے۔
ولسن کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ساحلی علاقے اس وقت شدید خطرات کا شکار ہیں۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے شمال مغربی امریکہ سے شمال مغربی انڈیا تک وسط عرض بلد پر واقع ممالک اور خطوں میں زمین سے پانی نکالے جانے کی شرح کو کم کرنا ناگزیر ہے۔
بنگلہ دیش: ٹیکسٹائل فیکٹریاں پانی کے ذخائر ختم کر رہی ہیں؟
06:05
This browser does not support the video element.
پاکستان میں صورت حال کیسی ہے؟
سن 2020ء میں ملٹی ڈسپلینری ڈیجیٹل پبلشنگ انسٹیٹیوٹ کی شائع کردہ ایک ریسرچ کے مطابق دنیا بھر میں زیر زمین پانی کو سب سے زیادہ استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک میں استعمال ہونے والے کل پانی کا 60 فیصد گراؤنڈ واٹر پمپنگ یا بورنگ سے حاصل کیا جاتا ہے۔
اس موضوع پر تحقیق کے مصنف اسد سرور قریشی کے مطابق پاکستان میں 1960ء میں ٹیوب ویلوں کی مدد سے زیر زمین پانی نکالے جانے کا آغاز ہوا تھا، جس کا مقصد فصلوں کو سیراب کرنا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ 1960ء تک ملک بھر میں ان ٹیوب ویلوں کی تعداد محض 30 ہزار تھی جو 2018ء تک درجنوں گنا زیادہ ہو کر 12 لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی تھی۔
پاکستان میں پانی کی قلت یا مسئلہ بدانتظامی
11:04
This browser does not support the video element.
اسد قریشی کہتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں ٹیوب ویلوں سے پانی بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے نکالا جا رہا ہے، جس سے بہت سے انتہائی سنجیدہ ماحولیاتی مسائل نے جنم لیا ہے۔
ان کے مطابق پنجاب کی 50 فیصد زرعی اراضی کے نیچے زمینی پانی کی سطح چھ میٹر تک گر چکی ہے جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بہت سے علاقوں میں اب بورنگ سے بھی پانی حاصل کرنا ممکن نہیں رہا۔ ان علاقوں میں تو زیر زمین پانی کی سطح سے متعلق نئے اعداد و شمار تک بھی دستیاب نہیں ہیں۔
زرعی ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں آبپاشی کے لیے زمین سے پانی نکالا جاتا ہے مگر وہاں بارش اور سیلابی پانی کو 'ری چارج‘ کرنے کا مناسب بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں ہر سال مون سون کے موسم میں سیلابی پانی تباہی مچا کر سمندر میں جا گرتا ہے اور حکام اس کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیتے۔
پاکستان میں زمین سے کتنا پانی نکالا جا رہا ہے؟
پاکستان کے واٹر مینجمنٹ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کی مطابق 12.5 ہارس پاور کا ایک شمسی ٹیوب ویل روزانہ 35 ہزار گیلن پانی زمین سے نکالتا ہے۔ یہ شرح 1.5 کیوسک ماہانہ بنتی ہے، جو انتہائی حد تک تشویش کی بات ہے۔
جرمنی کے انوکھے جزیرے
جرمنی کے ہالگ جزائر تواتر سے سیلابی پانی کی نذر ہوتے رہے ہیں اور ایسے میں فقط پہاڑیوں پر قائم عمارتیں باقی بچتی ہیں۔ جرمنی کے پاس ایسے دس انوکھے جزیرے ہیں۔
تصویر: Stefan Ziese/Zoonar/picture alliance
سب سے بڑا لانگینس جزیرہ
شروع کرتے ہیں نسبتاﹰ بڑے جزیرے سے۔ بحیرہ شمالی میں واقع جرمنی کے دس ہالگ جزائر میں آبادی اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا جزیرہ لانگینس ہے۔ یہ دس کلومیٹر لمبا اور تقریباﹰ ڈیڑھ کلومیٹر چوڑا ہے اور اس پر ایک سو دس افراد رہتے ہیں۔
تصویر: Daniel Bockwoldt/dpa/picture alliance
بہت مرطوب
مصنوعی طور پر بلند کچھ گھر وہ مکانات ہیں، جو ان جزائر میں طوفانی دنوں میں زیرآب نہیں آتے۔ ہالگ جزائر کا بڑا حصہ طوفان کے وقت سمندری پانی کے نیچے چلا جاتا ہے، جسے مقامی افراد ’لینڈ انڈر‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ایسے میں یہاں بسنے والے افراد اپنے مال مویشیوں سمیت مصنوعی بلند جگہ ماؤنڈ پر قائم گھروں میں چلے جاتے ہیں اور طوفان تھمنے اور پانی اترنے کا انتظار کرتے ہیں۔
تصویر: Maja Hitij/dpa/picture alliance
ہالگ ہوگ
آپ یہاں مونڈز پر کئی گھر دیکھ سکتے ہیں۔ آپ یقیناﹰ سوچ رہے ہوں گے کہ اتنا علاقہ موجود ہے، تو لوگ ایک دوسرے کے اتنے قریب کیوں گھر تعمیر کرتے ہیں۔ اس کا جواب ہے طوفان۔ وہ ماؤنڈ جہاں گھر قائم ہوں، پانی سے بچتے ہیں۔
تصویر: C. Kaiser/blickwinkel/picture alliance
بہت خوب صورت
پانچ اعشاریہ سات مربع کلومیٹر کا ہالگ ہوگ جزیرہ، گو کہ لانگینس کا قریب نصف ہے، مگر یہاں کی آبادی سو ہے یعنی لانگینس کے تقریباﹰ برابر۔ ہوگ ہر سال چالیس ہزار سیاحوں کی مہمان نوازی کرتا ہے۔
تصویر: Stefan Ziese/Zoonar/picture alliance
گرؤڈے، ایک جزیرے پر چار گھر
ہانگ جزائر میں تیسرا نمبر جاتا ہے، گرؤڈے کو۔ یہ ڈھائی اسکوائر کلومیٹر کا جزیرہ ہے، جہاں چار رہائشی مکانات میں ایک درجن سے بھی کم افراد رہتے ہیں۔ یہاں چرچ ہے، قبرستان ہے اور ایک خالی اسکول ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
اولانڈ جزیرہ، زیادہ آبادی کم جگہ
ہانگ اولانڈ کا مجموعی رقبہ دو مربع کلومیٹر ہے۔ مگر یہاں بسنے والے افراد کی تعداد گرؤڈے جزیرے سے زیادہ ہے، یعنی تقریباﹰ بیس۔ یہاں اولانڈ ورافٹ ماؤنڈ پر اٹھارہ مکانات ہیں۔ یہ چھٹیاں گزارنے کی بھی بہترین جگہ ہے۔ یہاں ایک کمیونٹی سینٹر، ایک چرچ، ایک لائبریری اور ایک ریستوران ہے، جب کہ 40 سیاحوں کے رات گزارنے کے لیے جگہ بھی۔
تصویر: K. Wernicke/imageBROKER/picture alliance
چھوٹا اور خوشگوار، نورڈشٹرنڈشمور
دو مربع کلومیٹر سے کم زمین کا حامل جزیرہ نورڈ شٹرنڈشمور رقبے میں تو اولانڈ کے قریب ہے، مگر یہاں چار مونڈز ہیں، جن پر بیس رہائشی آباد ہیں۔ یہاں ایک چھوٹا سا اسکول اور مٹھی بھر طلبہ ہیں۔
تصویر: Carsten Rehder/dpa/picture alliance
ہیمبرگ ہالگ، زیادہ کچھ نہیں چل رہا
اس چھوٹے سے جزیرے پر ایک بہت بڑا گھر تعمیر ہے۔ یہ جزیرہ رقبے میں قریب ایک مربع کلومیٹر کا ہے اور یہاں آبادی نہیں ہے۔ مگر یہاں کا ریستوران ’ہالگ کروگ‘ موجود ہے، جو ایسٹر سے اکتوبر کے آخر تک کھلا رہتا ہے۔ اس ریستوران کی دیکھ بھال فطرت اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی یونین NABU کرتی ہے۔ ہیمبرگ ہالگ پر عموماﹰ خاموشی ہی ملے گی۔
تصویر: Carsten Rehder/dpa/picture alliance
ہالگ زؤڈےروگ پر آبادی میں اضافہ
زوڈےروگ جزیرہ ہالنگ کی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر ہے۔ یہ صفر اعشاریہ چھ مربع کلومیٹر کا ہے۔ مگر یہاں آبادی بڑھ رہی ہے۔ ستمبر 2013 میں یہاں ایک جوڑا منتقل ہوا تھا اور اب دو بچوں کے ساتھ رہ رہا ہے۔ یہ جزیرہ اپنی شکل کی وجہ سے ’بحیرہ شمالی کا دل’ کہلاتا ہے۔ یہاں آپ شادی بھی کر سکتے ہیں۔
تصویر: Carsten Rehder/dpa/picture alliance
ہالگ زوڈفال
زوڈفال جزیرہ ایک کلومیٹر کے قریب لمبا اور چھ سو میٹر تک چھوڑا ہے یعنی یہاں کا مجموعی رقبہ تقریباﹰ نصف مربع کلومیٹر ہے۔ یہاں ایک ماؤنڈ ہے جس پر ایک گھر تعمیر ہے۔ یہاں ایک خاندان رہتا ہے، مگر فقط موسم گرما میں۔
تصویر: C. Kaiser/blickwinkel/picture alliance
ہالگ نورڈے روگ
یہ قریب صفر اعشاریہ صفر نو مربع کلومیٹر کا جزیرہ ہے، جو جزائر ہالگ کی فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔ یہ واحد ہالگ جزیرہ ہے، جس پر ماؤنڈ موجود نہیں۔ یہاں آپ کو فقط پرندے اور ان کا فضلہ ملے گا۔ بریڈنگ سیزن کے بعد آپ اس جزیرے پر آ سکتے اور گھوم پھر سکتے ہیں۔
تصویر: Hinrich Bäsemann/picture alliance
ہالگ ہابیل
ہالگ جزائر میں سب سے چھوٹا ہابل جزیرہ ہے۔ آپ یہاں گھوم پھر نہیں سکتے۔ کیوں کہ اگر آپ پرندے نہیں ہیں، تو آپ کو خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔
تصویر: C. Kaiser/blickwinkel/picture alliance
12 تصاویر1 | 12
فیصل حسین یونیورسٹی آف واشنگٹن کے شعبہ ماحولیاتی انجینیئرنگ سے منسلک ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زرعی علاقوں میں کوئی حد ہی مقرر نہیں کہ کس علاقے میں کتنے ٹیوب ویل لگائے جائیں اور وہاں سے کتنا پانی نکالا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ 2016ء میں ان کی کوششوں سے پاکستان واٹر مینجمنٹ باڈیز کو ناسا جیٹ پروپلژن لیبارٹریز کا سٹیلائٹ ڈیٹا حاصل ہوا تھا، جس کی مدد سے حکام کو یہ جاننے میں مدد ملی تھی کہ کن علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس ڈیٹا میں ان پاکستانی علاقوں کی واضح نشان دہی بھی کی گئی تھی، جہاں سیلابی پانی کو با آسانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔
تاہم فیصل حسین کی اس حوالے سے کوششیں ادھوری ہی رہیں اور صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی مؤثر منصوبہ بندی نہ کی گئی۔
انسان کس طرح دنیا کو بنجر کر رہے ہیں
زمین کا ایک تہائی حصہ ریگستانوں پر مشتمل ہے اور بنجر زمین میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ذمہ دار انسان خود ہیں۔ غیرمعمولی کاشت کاری اور جنگلوں کی کٹائی زمین کی زرخیزی کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ریگستان میں تبدیلی
ایک وقت تھا جب صحارہ میں ہاتھی اور دریائی گھوڑے پائے جاتے تھے۔ آج صحارہ ایک بنجر علاقہ ہے۔ صرف ایک چھوٹا سا دریا سرسبز ماضی کی یاد دلاتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایک بہت بڑا علاقہ خشک ہو چکا ہے۔
تصویر: Imago Images/robertharding
انسان فطرت کے دشمن
خشک موسم والے علاقوں میں جب انسان قدرتی وسائل کو تباہ کرتے ہیں تو پودے و درخت ختم ہو جاتے ہیں اور زمین بھی بنجر ہوتی جاتی ہے۔ اس باعث خشک موسم کے حامل علاقوں میں بنجر زمین میں ستر فیصد تک کا اضافہ ہو چکا ہے، جیسا کہ بھارت کا یہ علاقہ۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عالمی خطرہ
ہر سال دنیا بھر میں ستر ہزار مربع کلومیٹر بنجر زمین کا اضافہ ہوتا جا رہا۔ یہ آئرلینڈ کا رقبہ بنتا ہے۔ بین الاقوامی تعاون کی جرمن تنظیم کے مطابق براعظم افریقہ میں چالیس فیصد آبادی ایسے علاقوں میں رہ رہی ہے، جن کے بنجر ہو جانے کا خدشہ موجود ہے۔ ایشیا میں انتالیس فیصد جبکہ جنوبی امریکا کی تیس فیصد لوگ ایسے علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ امریکا اور اسپین کے بھی کئی علاقے بھی اس خطرے سے دوچار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/F. Duenzl
قحط اور آبادی
بنجر رقبے میں اضافے کی ایک بڑی وجہ کئی ممالک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہے۔ مثال کے طور پر چین میں خشک اراضی پر بار بار کاشت کی جا رہی ہے۔ کسان اپنی چراہ گاہوں میں زیادہ سے زیادہ جانور رکھ رہے ہیں، جو وہاں پر موجود تمام پودوں، گھاس اور ہری بھری جھڑیوں کو کھا جاتے ہیں۔
تصویر: Imago/Xinhua
پانی کے بغیر جھیل
قزاقستان اور ازبکستان کی سرحد پر بحیرہ آرال ناکام زرعی پالیسی کی ایک ایسی علامت ہے، جس کی وجہ سے زمین بانجھ ہوتی جا رہی ہے۔ ماضی میں آرال دنیا کا چوتھی بڑی جھیل ہوا کرتی تھی اور پانی کی کمیابی سے آج اس کا کچھ حصہ ہی باقی بچا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی پریشانی
صرف ترقی پذیر ممالک ہی اراضی کے بنجر ہونے کے مسئلے سے دوچار نہیں ہیں۔ اسپین میں بھی یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ اس کی بڑی وجہ دنیا بھر کے سیاحوں کا اس ملک میں آنا ہے۔ ان سیاحوں کے لیے جنگلات کو ختم کرتے ہوئے ہوٹل بنائے جا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ ZUMAPRESS/M. Reino
ماحولیاتی نظام کی تباہی
قدرتی ماحولیاتی نظام کی تباہی کے ساتھ ساتھ زمین کا بنجر پن دیگر مسائل کا بھی سبب بن رہا ہے۔ غربت بڑھ رہی ہے، لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں اور انہیں اپنا گھر بار چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ افریقہ میں تقریباً 485 ملین لوگ اس سے متاثر ہیں۔