زمین سے 290 ملین کلو میٹر دور سیارچہ، نمونے آج لیے جائیں گے
20 اکتوبر 2020
امریکی خلائی ادارے ناسا کا ایک خلائی جہاز آج منگل بیس اکتوبر کو انسانی تاریخ میں پہلی بار خلا میں کسی سیارچے سے نمونے حاصل کرے گا۔ بَینُو نامی یہ سیارچہ خلا میں زمین سے دو سو نوے ملین کلو میٹر کی دوری پر ہے۔
اشتہار
بَینُو (Bennu) صرف کوئی ایک بڑا سیارچہ نہیں بلکہ یہ خلا میں پایا جانے والا سیاہ رنگ کے پتھریلے کوڑے کا ایک تیرتا ہوا مجموعہ ہے، جو زمین سے تقریباﹰ 29 کروڑ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ پہلا موقع ہو گا کہ امریکی خلائی ادارہ ناسا کسی سیارچے سے وہاں موجود مادوں کے نمونے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
ناسا کے خلائی جہاز ان سائیٹ نے چار سو بیاسی ملین کلومیٹر (تین سو ملین میل) کا سفر طے کیا ہے۔ یہ روبوٹ کنٹرول خلائی جہاز مسلسل چھ ماہ تک سفر کرنے کے بعد مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان سائیٹ خلائی مشن تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر کا بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔ اس میں جرمن ساختہ مکینکل دھاتی چادر بھی استعمال کی گئی ہے، جو مریخ کی حدت برداشت کرنے کے قابل ہے۔ فرانس کے ایک سائنسی آلات بنانے والے ادارے کا خصوصی آلہ بھی نصب ہے، جو مریخ کی سطح پر آنے والے زلزلوں کی کیفیات کو ریکارڈ کرے گا۔ اس کے اترنے پر کنٹرول روم کے سائنسدانوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/NASA/B. Ingalls
پہلی تصویر
تین ٹانگوں والا ان سائٹ مریخ کے حصے’الیسیم پلانیشیا‘ کے مغربی سمت میں اترا ہے۔ اس نے لینڈنگ کے بعد ابتدائی پانچ منٹوں میں پہلی تصویر کنٹرول ٹاور کو روانہ کی تھی۔ تین سو ساٹھ کلوگرام وزن کا یہ خلائی ریسرچ جہاز اگلے دو برسوں تک معلوماتی تصاویر زمین کی جانب روانہ کرتا رہے گا۔
تصویر: picture alliance/Zuma/NASA/JPL
ان سائنٹ مریخ کے اوپر
ان سائیٹ خلائی ریسرچ دو چھوٹے سیٹلائٹس کی مدد سے مریخ کی سطح تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان سیٹلائٹس کے توسط سے ان سائیٹ کی پرواز کے بارے میں معلومات مسلسل زمین تک پہنچتی رہی ہیں۔ اس خلائی مشن نے مریخ پر اترنے کے تقریباً ساڑھے چار منٹ بعد ہی پہلی تصویر زمین کے لیے روانہ کر دی تھی۔ اڑان سے لینڈنگ تک اِسے چھ ماہ عرصہ لگا۔ ناسا کے مریخ کے لیے روانہ کردہ خلائی مشن کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد ہے۔
ان سائیٹ مریخ کی سطح پر بارہ ہزار تین سو کلومیٹر کی رفتار سے پرواز کرتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔ اترے وقت اس کو بریکوں کے علاوہ پیراشوٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ ان سائیٹ پراجیکٹ کے سربراہ سائنسدان بروس بینرٹ کا کہنا ہے کہ مریخ کی جانب سفر سے کہیں زیادہ مشکل امر لینڈنگ ہوتا ہے۔ سن 1976 کے بعد مریخ پر لینڈنگ کی یہ نویں کامیاب کوشش ہے۔
مریخ کی سطح پر ان سائیٹ نامی خلائی تحقیقی جہاز ایک ہی مقام پر ساکن رہتے ہوئے اگلے دو برس تک اپنا مشن جاری رکھے گا۔ اس مشن میں مریخ کی اندرونی سطح کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ سرخ سیارے کے زلزلوں کی کیفیت کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یہ ریسرچ مشن مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار بارے کوئی معلومات جمع نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
5 تصاویر1 | 5
یہ نمونے ناسا کا خلائی جہاز اوسیرِس ریکس (Osiris-Rex) حاصل کرے گا، جو بعد میں انہیں لے کر زمین پر اترے گا تاکہ ان خلائی مادوں پر تفصیلی تحقیق کی جا سکے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ اسپیس کرافٹ ان نمونوں کے حصول کے لیے اس سیارچے سے صرف چند میٹر کی دوری تک پہنچ کر اپنا وہ روبوٹک بازو استعمال کرے گا، جو 'ٹیگسیم‘ (Tagsam) کہلاتا ہے۔
اشتہار
'ٹیگسیم‘ کیا ہے؟
اوسیرِس ریکس کے اس خود کار بازو کو 'ٹیگسیم‘ کا نام اس لیے دیا گیا ہے، کہ یہ خلا میں مختلف نمونے حاصل کرنے کا ایک ایسا طریقہ کار ہے جو 'ٹچ اینڈ گو‘ کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ اس عمل کے دوران یہ خلائی جہاز اپنے بازو کے ذریعے اس سیارچے کو تقریباﹰ پانچ سیکنڈ تک چھوئے گا۔
ان پانچ سیکنڈز میں اس روبوٹک بازو سے بہت زیادہ دباؤ کے ساتھ ایسی نائٹروجن گیس خارج ہو گی، جو سیارچے کی سطح پر گرد اور چھوٹے چھوٹے پتھروں کے ایک بادل کے پیدا ہونے کی وجہ بنے گی۔ پھر یہ خلائی جہاز اس سیارچے کی سطح پر بننے والے گرد اور چھوٹے پتھروں کے بادل کا کافی زیادہ حصہ کسی 'ویکیوم کلینر‘ کی طرح کھینچ کر اپنے اندر جذب کر لے گا۔
بَینُو اگلی صدی میں زمین کے خطرناک حد تک قریب ہو گا
اندازہ ہے کہ اوسیرِس ریکس بَینُو نامی سیارچے سے جو نمونے حاصل کرے گا، ان کا وزن 60 گرام سے لے کر دو کلو گرام تک ہو سکتا ہے۔ ناسا کی طرف سے اس عمل کو اس کی ویب سائٹ پر لائیو دکھایا جائے گا۔ اوسیرِس ریکس یہ نمونے حاصل کرنے کا کام آج منگل بیس اکتوبر کو عالمی وقت کے مطابق رات نو بجے کرے گا۔
بَینُو سیارچے کے بارے میں خلائی ماہرین کے اندازے یہ ہیں کہ اس وقت زمین سے 290 ملین کلو میٹر کے فاصلے پر موجود یہ خلائی جسم اگلی صدی کے دوران زمین کے خطرناک حد تک قریب آ جائے گا۔ تاہم یہ امکان بہت کم ہے کہ تب یہ سیارچہ واقعی زمین سے ٹکرا بھی جائے گا۔
ناسا کی ساٹھویں سالگرہ، تاریخی کامیابیوں پر ایک نظر
امریکی خلائی ادارہ ناسا اپنے قیام کی ساٹھویں سالگرہ منا رہا ہے۔ ان چھ عشروں میں اس مشہور خلائی ادارے کے توسط سے دنیا نے کچھ ایسے بھی لمحات دیکھے جو یاد گار ٹھہرے۔ ڈی ڈبلیو نے ایسے ہی کچھ تاریخی لمحات پر ایک نظر ڈالی ہے۔
سوویت یونین نے اپنا سپوتنک سیٹلائٹ سن 1957 میں خلا میں روانہ کیا تھا۔ یوں سوویت یونین خلائی مشن بھیجنے میں امریکا سے بازی لے گیا اور امریکا کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ خلا میں سویت یونین کا غلبہ قائم ہو جائے گا۔ تب ہی امریکی فوج نے انتیس جولائی کو ایکسلپورر وَن نامی سیٹلائٹ خلا میں بھیجا اور پھر اسی سال اکتوبر میں ناسا کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech
جب انسان چاند پر پہنچا
اپنے قیام کے صرف گیارہ سال بعد ہی ناسا پہلی بار چاند پر انسانوں کو اتارنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس تصویر میں خلا نورد نیل آرمسٹرانگ اور ایروِن ایلڈرن چاند کی سطح پر امریکی پرچم نصب کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
چودہ اپریل سن انیس سو ستر کے روز خلائی جہاز ’اپالو تیرہ‘ کا آکسیجن ٹینک پھٹ گیا تھا۔ جہاز میں موجود خلا نورد جیمز لوول کو ٹیکساس میں قائم ناسا کے مرکزی دفتر میں اس پیغام کے ساتھ رپورٹ کرنا پڑا تھا، ’’ہیوسٹن ، ہمیں مسئلہ پیش آ گیا تھا۔‘‘ خلانورد خرابی ٹھیک کرنے کے بعد بحفاظت زمین پر لوٹ آئے تھے۔
اٹھائیس جنوری سن 1986 کو خلا میں بھیجے جانے والی ’دی چیلنجر‘ سپیس شٹل اپالو تیرہ کی طرح خوش قسمت ثابت نہیں ہوئی۔ یہ خلا کی جانب روانہ ہونے کے چند منٹ بعد ہی دھماکے سے تباہ ہو گئی تھی اور اس میں موجود تمام سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ دھماکے کا سبب ’سیل بند‘ کرنے کے لیے استعمال کی گئی ربر کی مہر تھی جو غیر معمولی سرد درجہ حرارت کو برداشت نہیں کر سکی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/B. Weaver
دیرینہ مسابقت ختم ہو گئی
امریکی اور روسی سائنسدانوں کے درمیان خلا میں بھی جاری سرد جنگ بالآخر چودہ دسمبر سن انیس سو اٹھانوے کو اس وقت ختم ہو گئی جب امریکا کا ’یونیٹی‘ روس کے ’زاریا‘ اسٹیشنز آپس میں ملا دیے گئے۔ انہی دونوں کو ملا کر ’بین الاقوامی خلائی اسٹیشن‘ کی بنیاد ڈالی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA
ناسا کا اگلا مشن: مریخ پر انسان
مریخ سیارہ ناسا کے تجسس کا اگلا پڑاؤ تھا۔ چھ اگست سن 2012 کو ناسا کی بھیجی گئی موبائل لیبارٹری نے مریخ پر لینڈ کیا اور یہ موبائل لیبارٹری آج بھی مریخ سے سائنسی دریافتیں، سیلفیاں، تصاویر حتی کہ ٹویٹ پیغامات بھیجنے میں مصروف ہے۔ ناسا کا اگلا منصوبہ سن 2030 تک مریخ پر انسانوں کی لینڈنگ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA/JPL-Caltech/MSSS
6 تصاویر1 | 6
اوسیرِس ریکس کی زمین پر واپسی
اوسیرِس ریکس نامی خلائی جہاز ایک بڑی وین کی جسامت کا اسپیس کرافٹ ہے، جسے ناسا نے 2016ء میں خلا میں بھیجا تھا۔ جس وقت یہ خلائی جہاز بَینُو سیارچے کا مشاہدہ کر رہا ہو گا، اس وقت وہ کئی بڑے بڑے خلائی پتھروں میں گھرا ہوا اور بَینُو کی سطح سے محض چند میٹر دور ہو گا۔
یہ خلائی جہاز زمین سے اتنی دوری پر ہے کہ ناسا کے زمینی مرکز سے دیے جانے والے تکنیکی احکامات اس تک پہنچنے میں تقریباﹰ 16 منٹ لیتے ہیں۔ بَینُو سے حاصل کردہ نمونے لے کر یہ اسپیس کرافٹ ستمبر 2023ء میں واپس زمین پر اترے گا۔
اس مشن پر ناسا نے مجموعی طور پر تقریباﹰ ایک بلین ڈالر خرچ کیے۔ ماہرین کو امید ہے کہ یہ خلائی جہاز پہلی بار کسی سیارچے کے جو نمونے لے کر زمین پر لوٹے گا، ان کے مطالعے سے زمین کے نظام شمسی کی ابتدا سے متعلق اب تک خفیہ رہنے والے کئی کائناتی راز سامنے آ سکیں گے۔
م م / ع س (ڈی پی اے)
پلوٹو کی انتہائی اعلیٰ کوالٹی کی تصویریں
ناسا کا تحقیقاتی مشن ’نیو ہورائزن‘ نو برس تک سفر کرتا رہا اور پھر کہیں جا کر نظام شمسی کے آخری سرے پر پلوٹو تک پہنچا۔ اس بونے سیارے کی انتہائی عمدہ تصاویر اب جاری کر دی گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA/JHUAPL/SwRI
اتنی اچھی تصاویر جو پہلے کبھی نہ دیکھی گئیں
امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ ان تصاویر میں پلوٹو کی سطح کو انتہائی قربت سے دیکھا گیا ہے۔ پہاڑی اور برفیلے علاقوں سے مزین اس چھوٹا سے سیارے کی تصاویر پلوٹو کی ایک غیرمعمولی شکل دکھا رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/NASA/JHUAPL/SwRI
انتہائی اچھی تصویریں
نیو ہورائزن پلوٹو کے قریب سے گزرا، تو اس پر نصب دوربین ’لوری‘ نے ہر تین سیکنڈ کے وقفے سے اس بونے سیارے کی تصاویر کھینچیں۔ اس دوربین کے کیمرے کی شٹر اسپیڈ کا پورا فائدہ اٹھایا گیا، اور پلوٹو کی سطح کا باریکی سے مطالعہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Nasa/Jhuapl/Swri
ایک بڑا فرق
اس تصویر میں پلوٹو کا موسم گرما کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ خلائی جہاز ’نیو ہورائزن‘ کی نگاہ سے پلوٹو کی یہ تصاویر اس بونے سیارے کی اب تک کی تمام تصاویر سے بہت بہتر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA/JHUAPL
دسترس میں
پلوٹو کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک وقت ايسا بھی تھا، جب یہ خلائی جہاز اس بونے سیارے سے صرف 350 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ اس تصویر میں پلوٹو کا سب سے بڑا چاند چارون بھی دکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: JHUAPL/SwRI
ایک سیارہ جو اب سیارہ نہیں
سن 2006ء میں نیو ہورائزن کی روانگی کے چھ ماہ بعد بین الاقوامی فلکیاتی یونین (IAU) نے پلوٹو کی بابت ایک اہم فیصلہ کیا۔ اس کا مدار سیاروں کی طرح گول نہیں، اس لیے اسے سیاروں کی کیٹیگری سے نکال کر ’بونے سیاروں‘ کی کیٹیگری میں ڈال دیا گیا۔ پلوٹو جس جگہ پر ہے، وہاں اس طرح کے کئی آبجیکٹس دیکھے جا چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/Saurer
حجم کا تقابل
اس تصویر میں سورج، عطارہ، زہرہ، زمین اور مریخ دکھائی دے رہی ہیں۔ اس کے بعد نظام شمسی کے بڑے سیارے مشتری، زحل ، یورینس اور نیپچون ہیں۔ ان کے آگے یہ چھوٹا سا نکتہ پلوٹو ہے، جس کی قطر صرف دو ہزار تین سو ستر کلومیٹر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پلوٹو کے تمام چاند گول نہیں
نیوہورائزن نے اس بونے سیارے کے چاندوں کو بھی دیکھا۔ اس کے تمام چاند گول نہیں۔ ڈیٹا کے مطابق پلوٹو کا ایک چاند سٹیکس آٹھ سے اٹھائیس کلومیٹر قطر کا ہے۔ اس خلائی جہاز سے چارون، نِکس اور ہائیڈرا کی تصاویر بھی حاصل ہوئیں۔
تصویر: NASA/ESA/A. Feild (STScI)
چاند کا چاند بھی
پلوٹو کے ایک چاند نِکس کے بارے میں اس تحقیقاتی مشن سے قبل زیادہ معلومات دستیاب نہ تھیں۔ نیو ہورائزن سے یہ معلوم ہوا کہ یہ چاند پلوٹو کے گرد گول مدار میں گردش نہیں کرتا، بلکہ پلوٹو کے سب سے بڑے چاند چارون کی تجاذبی کشش کی وجہ سے ایک انوکھا سا مدار بناتا ہے، یعنی نِکس پلوٹو کے چاند کا چاند بھی ہے۔
نیوہورائزن پر تین آپٹیکل آلات تھے، جن کا کام پلوٹو کے مختلف مقامات کی تصاویر ریکارڈ کرنا تھا، جب کہ دو پلازما اسپیٹرو میٹر تھے، جو اس بونے سیارے پر سولر وِنڈز (شمسی شعاعیں) کے ذرات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ گرد اور ریڈیو میٹر بھی نصب تھے۔
تصویر: JHUAPL/SwRI
آپٹیکل دوربین
ٹیکنیشنز نے طویل فاصلے سے تصاویر ’لوری‘ نامی دوربین نصب کی تھی۔ اسی سے ہمیں پلوٹو کی انتہائی عمدہ تصاویر حاصل ہوئی ہیں۔ ڈیجیٹل کیمرے سے سیارے پر موجود تابکاری کو طول موج سے ماپا گیا۔ اس خلائی جہاز پر ساڑھے آٹھ کلوگرام سے زائد وزن کا یہ اعلیٰ دیگر آلات کے مقابلے میں بھاری ترین تھا۔
تصویر: NASA
2006 سے سفر
نیو ہورائزن نے 19 جنوری 2006 کو پلوٹو کے لیے اپنا سفر شروع کیا۔ کیپ کانیورل سے اٹلس فائیو راکٹ کے ذریعے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے اس خلائی جہاز نے زمین اور سورج کے تجاذب سے نکلنے کے لیے 16.26 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کیا۔ کسی خلائی جہاز کی اب تک کی یہ تیز ترین رفتار تھی۔
تصویر: NASA
سورج سے دور بہت دور
اس خلائی جہاز کی منزل نظام شمسی کا آخری سرا تھا۔ اس کے راستے میں مشتری اور ایک دم دار ستارہ آيا اور نو سال، پانچ ماہ اور 24 دن تک مجموعی طور پر 2.3 ملین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے اس بونے سیارے تک پہنچا۔