1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زمین کا آبی چکر زیادہ بے ترتیب ہوتا جا رہا ہے، اقوام متحدہ

8 اکتوبر 2024

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ سیلابوں اور خشک سالی کی شدت میں اضافہ اس بات کا ''تکلیف دہ اشارہ'' ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں کرہ ارض کے آبی چکر کو مزید بے ترتیب اور غیر متوقع بنا سکتی ہیں۔

سال 2023معلوم تاریخ کا گرم ترین سال بھی تھا اس دوران درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہوا اور بہت سے علاقوں میں طویل خشک سالی دیکھی گئی
سال 2023معلوم تاریخ کا گرم ترین سال بھی تھا اس دوران درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہوا اور بہت سے علاقوں میں طویل خشک سالی دیکھی گئیتصویر: picture-alliance/Zuma/A. Gupta

عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے بتایا ہے کہ2023ء گزشتہ تین دہائیوں کا خشک ترین سال تھا، جب دریاؤں میں پانی کی مقدار میں غیرمعمولی کمی ریکارڈ کی گئی۔

دنیا بھر میں آبی ذرائع کی صورتحال پر پیر کے روز اس ادارے کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال کے دوران دنیا بھر کے دریاؤں میں پانی کی مقدار معمول سے کم رہی اور آبی ذخائر میں بھی بہت کم پانی پہنچا۔ اس طرح انسانی آبادیاں، زراعت اور ماحولیاتی نظام پانی کی قلت کا شکار رہے۔

موسمیاتی تبدیلی دنیا کی معیشتوں کے لیے اربوں کے نقصان کا سبب

پاکستان میں بارشیں، سیلاب: مجموعی ہلاکتیں ڈیڑھ سو سے زائد

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس عرصے میں گلیشیئروں کے حجم میں گزشتہ پانچ دہائیوں کے مقابلے میں غیرمعمولی کمی ریکارڈ کی گئی اور دنیا کے ہر خطے میں یہی صورتحال دیکھنے کو ملی۔

برف پگھلنے کے نتیجے میں 600 گیگا ٹن سے زیادہ پانی پیدا ہوا، جس کی بڑی مقدار سمندر اور کچھ دریاؤں کا حصہ بن گئی۔

کہیں سیلاب کہیں خشک سالی، ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

01:15

This browser does not support the video element.

موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات کا اشارہ

ڈبلیو ایم او کی سیکرٹری جنرل سیلیسٹے ساؤلو نے کہا کہ یہ صورت حال موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات کا پتہ دیتی ہے۔ ماحولیاتی نظام، زندگیاں اور معیشتیں شدید بارشوں، سیلابوں اور خشک سالی کے ادوار کی صورت میں اس سے بری طرح نقصان اٹھا رہے ہیں۔

درخت ہمارے لیے کیا کرتے ہیں اور ہمیں ان کی ضرورت کیوں ہے؟

سیلیسٹے ساؤلو نے کہا کہ بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کے باعث 'آبی چکر‘ یا واٹر سائیکل کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ غیر متوقع اور تیزرفتار بھی ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا کے مختلف حصوں میں یا تو پانی کی قلت ہو جاتی ہے یا تواتر سے سیلاب آنے لگتے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق 2023ء کے وسط میں 'لا نینیا‘ سے 'ایل نینیو‘ کی جانب منتقلی کی صورت میں فطری موسمیاتی تبدیلیوں کے علاوہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں آنے والی موسمیاتی تبدیلیاں بھی آبی صورت حال میں شدید نوعیت کے تغیر کا بڑا سبب ہیں۔

گزشتہ سال آبی حوادث نے براعظم افریقہ کو سب سے زیادہ متاثر کیا، جہاں لیبیا میں سیلاب کے باعث دو ڈیم ٹوٹ جانے سے 11 ہزار سے زائد انسان ہلاک ہوئے اور ملک کی 22 فیصد آبادی متاثر ہوئی۔ اس کے علاوہ قرن افریقہ، جمہوریہ کانگو، روانڈا اور موزمبیق میں بھی سیلابوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔

امریکہ کے جنوبی حصے، وسطی امریکہ، ارجنٹائن، یوروگوائے، پیرو اور برازیل کو بڑے پیمانے پر خشک سالی کا سامنا رہا۔ برازیل میں دریائے ایمیزون جبکہ بولیویا اور پیرو کی سرحد پر جھیل ٹیٹیکاکا میں پانی کی مقدار اب تک کی کم ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی۔

گزشتہ سال معلوم تاریخ کا گرم ترین سال بھی تھا۔ اس دوران درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہوا اور بہت سے علاقوں میں طویل خشک سالی دیکھی گئی۔

ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ لوگ آخر کریں کیا؟

06:36

This browser does not support the video element.

صورت حال کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت

سیلیسٹے ساؤلو کا کہنا ہے کہ دنیا میں تازہ پانی کے ذخائر کی حقیقی صورت حال کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں، جس سے اس مسئلے کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اس پر قابو بھی نہیں پایا جا سکتا۔ اس رپورٹ کا مقصد آبی ذخائر کی نگرانی، ان کے بارے میں معلومات کے تبادلے، سرحدوں کے آر پار تعاون اور تخمینوں کو بہتر بنانا ہے اور اس بہتری کی فوری ضرورت بھی ہے۔

ڈبلیو ایم او نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ مشاہداتی معلومات تک رسائی اور ان کی دستیابی میں بہتری لانے کے مقصد سے تیار کی گئی ہے۔ خاص طور پر زمین کے جنوبی نصف حصے میں پانی کی صورتحال کو درست طور سے جانچنا اور اس حوالے سے بہتر معلومات کا تبادلہ بہت ضروری ہے۔

اس ادارے کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ پانی سے متعلقہ مسائل پر قابو پانے کے لیے اقوام متحدہ کے 'بروقت عالمگیر انتباہ‘ سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر کی جانے والی کوششوں کا مقصد آبی ذخائر کے بارے میں معلومات کا معیار اور آبی حوادث کی نگرانی اور ان کی پیش گوئی کو بہتر بنانا ہے تاکہ 2027ء تک تمام انسانوں کو ایسی آفات سے بروقت آگاہی کی سہولت میسر آ سکے۔

ج ا ⁄  م م ( اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں