زمین کی طرف بڑھنے والے سیارچے: ممکنہ تصادم سے تحفظ کیسے؟
مقبول ملک گیورگ بائنلِش / اا
17 اپریل 2019
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ خلا میں زمین کی طرف بڑھنے والے سیارچوں میں سے اگر کوئی کرہ ارض سے ٹکرا گیا، تو کیا ہو گا؟ ایسا تو سوچنا بھی خوفزدہ کر دینے والا ہے۔ لیکن سائنسدان اس ٹکراؤ سے بچاؤ کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
اشتہار
یورپی یونین کے ایک خلائی تحقیقی منصوبے کا مقصد ہی یہی ہے کہ خلا میں تیرتے ہوئے سیارچوں یا ایسٹیروئڈز (Asteroids) کو زمین کے قریب آنے سے روکا جائے۔ اس کے لیے خلائی اجسام کا نہ صرف مسلسل مشاہدہ کیا جاتا ہے بلکہ ایسی حکمت عملی بھی تیار رکھی جاتی ہے کہ سیارچوں کے زمین سے ممکنہ ٹکراؤ سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
سیارچے خلا میں انتہائی تیز رفتاری سے حرکت کرتے ہوئے ایسے پتھریلے یا دھاتی اجسام ہوتے ہیں، جن میں سے کئی کا رخ بہت خطرناک بھی ہوتا ہے، یعنی زمین کی طرف۔ یہ سیارچے زمین پر زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ زمین پر درجنوں کلومیٹر قطر کے ایسے ہی ایک سیارچے نے کئی ملین سال پہلے ایسی وسیع تر تباہی پھیلائی تھی کہ ڈائنوسارز کی نسل ہی ختم ہو گئی تھی۔
بارہ ہزار خطرناک سیارچے
تو کیا ہم انسان خود کو ایسے کسی نئے خلائی تصادم سے بچا سکتے ہیں؟ ایلن ہیرس کا تعلق جرمنی کے خلائی تحقیقی ادارے سے ہے اور وہ یورپی یونین کے نِیؤشیلڈ (NeoShield) نامی منصوبے کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کی ٹیم کا کام زمین کو سیارچوں کے ساتھ ٹکرانے سے بچائے رکھنا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اس وقت کسی سیارچے کے زمین سے ٹکرا جانے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
خلا میں ایسے ایسٹیروئڈز کی موجودہ معلوم تعداد 12 ہزار کے قریب ہے، جو اصولی طور پر کرہ ارض کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن ضرورت پڑنے پر سائنسدان زمین کی طرف بڑھنے والے ایسے سیارچوں کا رخ موڑ بھی سکتے ہیں، کئی ٹن وزنی کسی نہ کسی مصنوعی سیارے کے ساتھ۔ ایسے مخصوص سیٹلائٹس کی مدد سے خلا میں سیارچوں کے سفر کی سمت کو جزوی طور پر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
’خلائی سنوکر‘
سیارچوں کے رخ کو تبدیل کرنا کس طرح کا خلائی سائنسی عمل ہوتا ہے، اس بارے میں جرمن مرکز برائے خلائی تحقیق (ڈی ایل آر) کے ایلن ہیرس کہتے ہیں، ’’یہ ایک بڑا نپا تلا عمل ہوتا ہے۔ آپ کو علم ہوتا ہے کہ کوئی سیارچہ کہاں ہے۔ چونکہ سیارچے اور مصنوعی سیارے کے درمیان کشش ثقل بہت کم ہوتی ہے، اس لیے سیارچے کی سمت میں معمولی سی تبدیلی ہی ممکن ہوتی ہے۔ کافی زیادہ تبدیلی درکار ہو تو اس میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے، دس سے لے کر بیس سال تک۔‘‘
اگر کسی سیارچے کے رخ کی تبدیلی کے لیے وقت بہت کم بچا ہو تو پلان بی سے کام لیا جا سکتا ہے، یعنی کسی سیٹلائٹ کو سیدھا سیارچے سے ٹکرا دینا۔
ایسا پہلا عملی تجربہ سن 2020ء میں کیا جائے گا۔ یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے اور امریکی خلائی ادارہ ناسا مل کر جڑواں سیارچوں ’ڈِیڈی مَوس‘ اور ‘ڈِیڈی مُون‘ کو نشانہ بنائیں گے۔ ایک مصنوعی سیارہ نگرانی کرتے ہوئے ایک لینڈر کے ذریعے نمونے حاصل کرے گا، تو 330 کلوگرام وزنی ایک اور سیٹلائٹ سیدھا ’ڈِیڈی مُون‘ سے جا ٹکرائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے، ’’آپ اسے ’خلا میں سنوکر‘ کا نام بھی دے سکتے ہیں۔‘‘
دس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تصادم
ایسے کسی تصادم کے بعد کسی ایسٹیروئڈ کے سفر کی سمت کس حد تک بدلی جا سکے گی؟ اس کے لیے جرمنی کے شہر فرائی بُرگ کے ایرنسٹ ماخ انسٹیٹیوٹ میں ماہرین جو تجربے کر رہے ہیں، ان میں ایک سیٹلائٹ کی طرح کے جسم کو ایک سیارچے جیسے مادے کے ساتھ دس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے ٹکرایا جاتا ہے۔ یہ تقریباﹰ اتنی ہی رفتار ہے، جتنی سچ مچ خلا میں دیکھی جاتی ہے۔
ایک زمینی تجربہ گاہ میں اس خلائی نوعیت کے تجربے کا نتیجہ یہ کہ ایسے کسی سیٹلائٹ کے کسی ایسٹیروئڈ سے ٹکرانے پر اس سیارچے کی سطح پر دو گنا طاقت والا ردعمل پیدا ہوتا ہے۔ فرائی بُرگ کے ایرنسٹ ماخ انسٹیٹیوٹ کے محقق فرانک شیفر کہتے ہیں، ’’اس تجربے سے ہم نے اسی طرح کی صورت حال کا جائزہ لیا کہ ایک پروجیکٹائل کی صورت میں سیٹلائٹ اس سیارچے سے کیسے ٹکرائے گا اور یہ سیارچہ اسے کتنی قوت سے واپس بھیجے گا۔ یہ وہی اصول ہے، جیسے کسی جیٹ کا انجن کام کرتا ہے، بہت تیز رفتاری سے انجن سے فاضل مادوں کے اخراج کے باعث بھی جیٹ کی رفتار مسلسل زیادہ ہوتی جاتی ہے۔‘‘
آخری حل جوہری میزائل
لیکن یوں صرف چھوٹے اور بہت ٹھوس ایسٹیروئڈز کا رخ ہی بدلا جا سکتا ہے۔ کسی بہت بڑے سیارچے کی سطح اگر نرم ہو اور اس میں اسفنج کی طرح کے سوراخ بھی ہوں، تو ردعمل کی قوت بہت کم ہو جاتی ہے اور سیارچے کے سفر کا رخ بدلنا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
خلا سے ہم ماحولیات کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟
قریب ساٹھ برس قبل انسان نے خلا کے شعبے میں قدم رکھا۔ تب سے اب تک خلائی ٹیکنالوکی میں ڈرامائی جدت پیدا آئی ہے اور اس کی وجہ سے ماحول سے متعلق ہماری معلومات بھی بڑھی ہے۔
تصویر: Pew Charitable Trusts
علم میں اضافہ
بیسویں صدی کے وسط تک خلا میں سیٹیلایٹ چھوڑے جانے سے قبل ہمیں اپنے ماحول سے متعلق بہت کم معلومات تھیں۔ آج ہم جمع ہونے والے ڈیٹا کے ذریعے اپنے بدلتے سیارے کی کہانی سمجھ سکتے ہیں۔ 1985ء میں انہی سیٹیلائیٹس کی مدد سے ہمیں اوزون کی تہہ میں ہوئے چھید سے متعلق معلومات ملی تھی۔
تصویر: Pew Charitable Trusts
زمینی کا انتباہی نظام
بعض سیٹیلائیٹس ماحولیاتی تبدیلیوں پر نگاہ رکھتی ہیں، مثلاﹰ پگھلتی برف، سمندری سطح میں اضافہ اور حتیٰ کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی شرح۔ مثال کے طور پر جیسن تھری سیٹلائیٹ جسے سن 2016ء میں خلا میں بھیجا گیا، اس سلسلے کی جدید ترین سیٹلائیٹ ہے۔ یہ سمندری سطح میں اضافے پر نگاہ رکھتی ہی۔ اس سے حاصل ہونے والا ڈیٹا ماحولیاتی تبدیلیوں کے سمندروں پر اثرات کو سمجھنے میں کلیدی نوعیت کا ہے۔
تصویر: NASA.gov
مصروفِ عمل
خلائی ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسان کے ہاتھ نگرانی اور جائزے کے بہترین آلات آئے ہیں، جس سے جنگلات کی کٹوتی اور غیرقانونی طور پر مچھلیوں کے شکار حتیٰ کہ کسی مقام پر تیل کے رساؤ تک کی جانچ ہو سکتی ہے۔ محققین اس سے جان سکتے ہیں کہ کب اور کہاں ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
تصویر: DW/N. Pontes
قدرتی آفات پر نگاہ
خلا میں موجود سیٹیلائٹس قدرتی آفات مثلاﹰ سمندری طوفان، جنگلاتی آگ اور سیلابوں سے متعلق اہم معلومات فراہم کرتی ہیں۔ ان کی مدد سے حاصل شدہ ڈیٹا متاثرہ علاقوں میں انسانوں کی مدد کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ان سے کسی قدرتی آفت کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/NOAA
خلائی باغ بانی
خلا میں پودے اگانے کے تجربات ہمیں نہایت مفید معلومات دے چکے ہیں۔ اس معلومات کو زمین پر پائیدار زراعت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر خلانورد دریافت کر چکے ہیں کہ کس طرح کم پانی استعمال کر کے سبزیاں اگائی جا سکتی ہیں۔ چین نے حال ہی میں چاند کے تاریک حصے پر کپاس کا بیج بو کر تاریخ رقم کی ہے۔ یہ معلومات مستقل کے کسانوں کے نہایت کام آئے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA
راکٹ کے دھوئیں کا مسئلہ
بدقسمتی سے خلائی ٹیکنالوجی کا ایک منفی پہلا بھی ہے۔ ہر بار جب راکٹ زمین سے روانہ کیا جاتا ہے تو ایندھن کی وجہ سے خارج ہونے والی گیس میں المونیا نامی کیمکل ہوتا ہے، جو ماحول کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔ خلائی تحقیقاتی ادارے اب ماحول دوست ایندھن پر تحقیق کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ISRO
خلائی ملبہ
اس وقت زمین کے مدار میں قریب بیس ہزار ایسے ٹکڑے گردش کر رہے ہیں، جو مختلف راکٹ کی وجہ سے خلا میں پہنچے۔ ان میں اسکیو اور نٹ وغیرہ بھی شامل ہیں اور پرانے راکٹوں کا ملبہ بھی۔ گو کہ یہ زمین کے کرہء ہوائی سے باہر ہیں، مگر ان پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر یہ خلائی فضلہ بہت زیادہ کثیف ہو گیا تو سیٹیلائیٹس کے لیے نقصان کا باعث بنے گا۔
تصویر: AP
7 تصاویر1 | 7
یورپی یونین کے خلائی منصوبے نِیؤشیلڈ کے سربراہ ایلن ہیرس کہتے ہیں، ’’اگر کوئی بہت بڑا سیارچہ زمین کی طرف آ رہا ہو اور ہمیں اس کا پتہ بھی بڑی تاخیر سے چلے، تو پھر اس کے خلاف ہمارے پاس صرف ایک ہی آخری حل ہو گا، یعنی کوئی جوہری میزائل۔ لیکن اس طرح کسی جوہری میزائل سے نشانہ بنائے جانے کے ساتھ کوئی بہت بڑا سیارچہ جب دھماکے سے پھٹے گا، تو اس کے مختلف جسامت کے بہت سے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ بعد میں یہی خلائی ٹکڑے کوڑے کی صورت میں بھی زمین کا رخ کر سکتے ہیں اور ایسے کسی عمل کے نتائج بھی بہت ہی خطرناک ہو گیں۔‘‘
بس نِیؤشیلڈ کے ماہرین کوئی غلطی نہ کریں
تو پھر کسی سیارچے کے زمین کے ساتھ ممکنہ تصادم سے پوری طرح کیسے بچا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم صرف امید ہی کر سکتے ہیں کہ NeoShield منصوبے کے خلائی ماہرین زمین کی طرف بڑھنے والے تمام سیارچوں پر نظر رکھنے میں کبھی کوئی غلطی نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ ایسے جس بھی سیارچے کو انہوں نے دیکھ لیا، اسے تو وہ روک ہی لیں گے۔
تین لاکھ نئی کہکشائیں دریافت
سائنسدانوں نے لاکھوں ایسی نئی کہکشائیں دریافت کر لی ہیں، جو اب تک انسانی نظر سے اوجھل تھیں۔ سائنسدانوں کے مطابق اس پیشرفت سے بلیک ہول اور کہکشاؤں کے جھرمٹ کے تخلیق ہونے کے بارے میں مزید معلومات مل سکیں گی۔
تصویر: LOFAR/Maya Horton
ٹمٹماتی ہوئی سرخ کہکشائیں
یہ تصویر HETDEX ریجن میں گردش کرتی متعدد کہکشاؤں کی نشاندھی کرتی ہے۔ اٹھارہ ممالک سے تعلق رکھنے والے دو سو سے زائد سائنسدانوں نے ان کہکشاؤں کو دریافت کیا ہے۔ ماہرین فلکیات نے ریڈیو ٹیلی اسکوپ نیٹ ورک LOFAR کے ذریعے ان کی نئی نقشہ بندی کی۔
تصویر: LOFAR/Judith Croston
چمکدار پر
ریڈیو ٹیلی اسکوپ کے ذریعے سے حاصل کردہ یہ امیج B3 0157+406 نامی خلائی ریجن کی میگنیٹک فیلڈ میں بڑے پیمانے پر ایک ہنگامی سرگرمی دکھا رہا ہے۔ ایسے لوگ جو فلکیات کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے، انہیں اس تصویر میں دو بڑے پر دکھائی دیں گے۔
تصویر: LOFAR/Maya Horton
پیچ دار کہکشاں
اس تصویر میں M106 نامی کہکشاں کی روشن دم دیکھی جا سکتی ہے۔ محققین کو یقین ہے کہ آتش فشانی کرتا یہ حصہ دراصل اس کہکشاں کے وسط میں واقع ایک بہت بڑے بلیک ہول کا ثبوت ہے۔ ہیمبرگ یونیورسٹی سے وابستہ ماہر اجرام سماوی مارکوس بروگن کے مطابق LOFAR کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بلیک ہول کے کہکشاؤں پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔
تصویر: LOFAR/Cyril Tasse
گرداب نما کہکشاں
یہ تصویر M51 نامی کہکشاں کی ہے۔ اسے سائنسدان گرداب نما کہکشاں بھی کہتے ہیں، اس کا یہ نام اس تصویر سے ظاہر بھی ہوتا ہے۔ یہ زمین سے پندرہ اور 35 ملین نوری سال دور واقع ہے۔ اس کے وسط میں بھی ایک بہت بڑا بلیک ہول واقع ہے۔
تصویر: LOFAR/Sean Mooney
سرخ آنکھ کے مانند
کہکشاؤں کے اس جتھے کو CIZA J2242.8+5301 سے جانا جاتا ہے۔ سائنسدان اس کے شمالی حصے کو ’ساسیج‘ بھی کہتے ہیں۔ ماہر اجرام فلکیات کو یقین ہے کہ اس جتھے سے ملنے والی معلومات ظاہر کر سکیں گی کہ کہکشاؤں کے جتھے کس طرح ترتیب پاتے ہیں۔
تصویر: LOFAR/Duy Hoang
خلا میں دھماکے
اس تصویر میں IC 342 نامی پیچ دار کہکشاں میں ہونے والے سپر نووا دھماکوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ منظر دیکھنے میں شاندار معلوم ہوتا ہے۔ فرانسیسی سائنسدان سیرل تاشے دریافت ہونے والی اس نئی کہکشاں کو کائنات کا ایک نیا درز قرار دیتے ہیں۔
تصویر: LOFAR/Maya Horton
جھلملاتے ستارے
ٹیلی اسکوپ LOFAR سے حاصل کردہ یہ امیج رات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کبھی کبھار سائنسدانوں کو اس طرح کے دیدہ زیب منظر کو عکس بند کرنے میں بہت زیادہ مہارت دکھانا پرٹی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنسدانوں کی یہ کوشش ناکام نہیں ہوئی۔
تصویر: LOFAR/Cyril Tasse
ط
کہکشاؤں کا جتھہ Abell 1314 زمین سے چار سو ساٹھ ملین نوری سال دور واقع ہے۔ LOFAR کے ماہرین کو اس جتھے کی اور نئی دریافت کی جانے والی تین لاکھ کہکشاؤں کی جامع اور مکمل تحقیق کی خاطر بڑے پیمانے پر ڈیٹا اسٹور کرنا ہو گا۔ بیلے فیلڈ یونیورسٹی سے وابستہ ماہر فلکیات ڈومینیک شوارٹس کا کہنا ہے کہ اس مقصد کی خاطر دس ملین ڈی وی ڈیز پر اسٹور کیے جانے والے مواد کا تجزیہ کرنا ہو گا۔