1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زمین کے نظام شمسی سے باہر نئے سیارے دریافت، ایک قابل رہائش؟

1 اگست 2019

ماہرین فلکیات کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے زمین کے نظام شمسی سے باہر تین نئے سیاروں کا پتہ چلایا ہے۔ اکتیس نوری سال کے فاصلے پر ستاروں کے ایک جھرمٹ میں موجود ان سیاروں میں سے ایک ممکنہ طور پر قابل رہائش بھی ہو سکتا ہے۔

اس سیارے کا اپنے ستارے سے فاصلہ تقریباﹰ اتنا ہی ہے، جتنا ہمارے نظام شمسی میں مریخ کا سورج سے فاصلہتصویر: picture-alliance/dpa/NASA/C. Smith

جرمنی کے شہر گوئٹنگن سے جمعرات یکم اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات ان ماہرین کی طرف سے فلکیاتی تحقیقی جریدے 'ایسٹرانومی اینڈ ایسٹروفزکس‘ یا 'فلکیات اور فلکیاتی طبیعیات‘ میں بتائی گئی ہے۔ ایسے سیاروں کو فلکیات کی اصطلاح میں 'ایکسوپلینٹ‘ یا زمین کے نظام شمسی سے باہر پائے جانے والے سیارے کہا جاتا ہے، جن کی موجودگی کی تصدیق کرنے والے سائنسدانوں میں جرمن شہر گوئٹنگن کے محققین بھی شامل ہیں۔

ان ماہرین کے مطابق یہ تینوں سیارے زمین سے 31 نوری سال کے فاصلے پر واقع ستاروں کے 'ہائیڈرا‘ نامی جھرمٹ کے ایک ستارے جی جے تین سو ستاون (GJ357) کے گرد اپنے مدار میں گردش میں ہیں۔

اگرچہ ایک نوری سال وہ فاصلہ ہوتا ہے، جو روشنی سال بھر میں طے کرتی ہے، پھر بھی دیکھا جائے تو یہ تینوں سیارے زمین سے قدرے 'قریب‘ ہیں اور ہم سے 'زیادہ دور‘ نہیں۔ اس لیے کہ زمین کا نظام شمسی جس کہکشاں کا حصہ ہے، اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے کے لیے تقریباﹰ ایک لاکھ نوری سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

اولین مشاہدہ چھ ماہ پہلے

ان سیاروں کا پہلی بار مشاہدہ اس سال فروری میں امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے 'ٹرانزِٹنگ ایکسوپلینٹ سروے سیٹلائٹ‘ یا TESS کے ذریعے کیا گیا تھا۔ ان تین نئے دریافت شدہ سیاروں میں سے ایک، جسے GJ 357 d کا نام دیا گیا ہے، ممکنہ طور پر قابل رہائش بھی ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سیارے پر اوسط درجہ حرارت کا فوری اندازہ منفی 53 ڈگری سینٹی گریڈ لگایا گیا ہے لیکن وہاں کی فضا کے بارے میں ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

زمین سے اکتیس نوری سال دور 'گرم زمین‘

ان تین میں سے پہلے سیارے کو GJ 357 b کا نام دیا گیا ہے، جسے سائنسدان اپنے طور پر 'گرم زمین‘ بھی کہہ رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہاں درجہ حرارت کا تخمینہ 250 ڈگری سینٹی گریڈ تک لگایا گیا ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ سیارہ اپنے ستارے GJ 357 کے گرد گردش کرتے ہوئے اسے کافی حد تک اپنے سائے سے ڈھانپ بھی دیتا ہے اور یوں اس کی روشنی کی شدت بھی کم کر دیتا ہے۔

جرمنی میں گوئٹنگن یونیورسٹی کے فلکیاتی طبیعیات کے ادارے کے محقق اور اس موضوع پر ایک تحقیقاتی رپورٹ کے شریک مصنف شٹیفان ڈرائسلر کہتے ہیں، ''جی جے تین سو ستاون ڈی یعنی تین میں سے آخری سیارے پر درجہ حرارت کا زمین پر دستیاب جدید ترین آلات کی مدد سے تخمینہ منفی 53 ڈگری سینٹی گریڈ لگایا گیا ہے، جو بہت ہی کم یعنی منجمد کر دینے والا ٹمپریچر ہے۔ اس کے باوجود ہمارا خیال ہے کہ یہ سیارہ ممکنہ طور پر قابل رہائش ہو سکتا ہے۔‘‘

مقید فضا اور مائع پانی

شٹیفان ڈرائسلر کے مطابق، ''اس سیارے کا اپنے ستارے سے خلائی فاصلہ تقریباﹰ اتنا ہی بنتا ہے، جتنا ہمارے نظام شمسی میں مریخ کا سورج سے فاصلہ۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر اس سیارے کی فضا 'مقید‘ یعنی بیرونی طبعی اثرات سے محفوظ ہے، جس کا مستقبل میں تعین کیا جا سکے گا، تو یہ اس حد تک حدت کو اپنے ہاں محفوظ رکھ سکے گا کہ یوں گرم ہو سکے اور اس کی بالائی سطح پر مائع پانی بھی پایا جائے۔‘‘

مریخ سے مماثلت

گوئٹنگن یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس سیارے کے ممکنہ طور پر قابل رہائش ہونے کے اندازے لگائے جا رہے ہیں، اس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اسے اس کے ستارے سے اتنی ہی اور مناسب توانائی ملتی ہے، جتنے ہمارے نظام شمسی میں سورج سے زمین کے ہمسایہ سیارے مریخ کو۔‘‘

ان تین میں سے جس درمیان والے سیارے کو GJ 357 c کا نام دیا گیا ہے، اس کا درجہ حرارت 130 ڈگری سینٹی گریڈ تک بنتا ہے اور اس کی کمیت زمین کی کمیت سے کم از کم بھی تین سے چار گنا تک زیادہ ہے۔

م م / ش ح / ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں