زمین کے چاند اور مریخ کے بعد خلائی تسخیر میں اگلا ہدف زہرہ
3 جون 2021
امریکی خلائی ادارہ نظام شمسی میں زمین کے گرم ترین ہمسایہ سیارے زہرہ کی طرف دو خلائی روبوٹک مشن بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ زمین کے چاند اور مریخ کی تسخیر کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ زہرہ کی طرف مشن بھیجنے کا سوچا گیا ہے۔
اشتہار
امریکی ریاست فلوریڈا میں کیپ کنیورل سے جمعرات تین جون کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کے نئے منتظم بِل نَیلسن نے ادارے کے ملازمین سے اپنے اولین تفصیلی خطاب میں اعلان کیا کہ ناسا مستقبل میں زہرہ کی طرف دو روبوٹک خلائی مشن روانہ کرے گا۔
خلائی تحقیق کے ماہرین نظام شمسی کے اس دوسرے اور زمین کے بہت گرم ہمسایہ سیارے کو 'ابلتا ہوا‘ سیارہ قرار دیتے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہو گا کہ زمین پر سائنس دان ایک ایسے سیارے کی تسخیر کی کوشش کریں گے، جسے زمین کے سولر سسٹم کا 'غالباﹰ سب سے زیادہ نظر انداز کردہ‘ سیارہ سمجھا جاتا ہے۔
نَیلسن نے اپنے خطاب میں کہا، ''یہ دونوں مشن ایک طرح سے جڑواں خلائی مشن ہوں گے اور ان کا مقصد یہ سمجھنے کی کوشش کرنا ہو گا کہ زہرہ کس طرح 'جہنم کی طرح کا‘ ایسا سیارہ بنا کہ وہاں درجہ حرارت اتنا زیادہ ہے کہ اس کی سطح پر سیسہ تک پگھل سکتا ہے؟‘‘
خلائی سیاحت: اسپیس شپ ٹو ’ورجن گیلکٹک‘ کا اندرونی منظر
انگریز موجد رچرڈ برینسن نے خلائی جہاز ’ورجن گیلکٹک‘ کا اندرونی منظر دنیا کے لیے پیش کر دیا ہے۔ یہ خلائی جہاز مسافروں کو لے کر زمین کے مدار میں جائے گا۔ اس سیاحت کے لیے فی مسافر ڈھائی لاکھ ڈالر تک کرایہ ادا کرے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
وسیع خلا کا ایک مختصر نظارہ
ممتاز انگریز موجد اور کاروباری شخصیت سَر رچرڈ برینسن خلائی سیاحت کے لیے متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ خلائی جہاز ’ورجن گیلکٹک‘ استعمال کریں گے۔ اب تک چھ سو امیر افراد نے بکنگ کروا رکھی ہے۔ ایک مسافر اس سیاحت کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر تک کرایہ ادا کرے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Drew
خلا میں تیرنا
ورجن گیلکٹک کی ہر پرواز پر صرف چھ مسافروں کی گنجائش ہے۔ یہ تمام مسافر مکمل خلائی لباس پہن کر اپنی سیٹ پر بیٹھیں گے۔ ایک مرتبہ جب جہاز مدار میں پہنچ جائے گا تب وہ پوری طرح الٹا ہو جائے گا تا کہ تمام مسفر خلا سے زمین کا نظارہ کر سکیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
انفرادی ضروریات کی حامل سیٹ
خلائی جہاز پر سیاحوں کی سیٹیں ہر وقت کشش ثقل قوت کو برقرار رکھنے کی حامل ہوں گی۔ ان سیٹوں پر بیٹھے خلائی سیاح لائیو فلائیٹ ڈیٹا کے ساتھ بھی منسلک رکھے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
واضح منظر
خلائی جہاز ورجن گیلکٹک میں بارہ کھڑکیاں ہیں۔ یہ کھڑکیاں تمام سیٹوں کو ایک طرح سے گھیرے ہوئے ہیں تا کہ تمام خلائی مسافر باہر کا مسلسل بھرپور نظارہ کرتے رہیں۔ اس خلائی سفر میں مسافروں کے مزاج کا بھی بہتر انداز میں خیال رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
آدھا جہاز، آدھا راکٹ
ورجن گیلکٹک یا اسپیس شپ ٹُو ایک خصوصی جیٹ کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ یہ عمودی رخ پر سُپر سانک رفتار کے ساتھ اپنا سفر اختیار کرے گا۔ پائلٹ راکٹ چلانے کا بٹن دبائے گا تو اس کے ساتھ خلائی جہاز بھی حرکت میں آ جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
ہمیشہ رہنے والا نقش
اس خاص خلائی جہاز ورجن گیلکٹک میں سولہ کیمرے نصب ہوں گے۔ یہ کیمرے ہر مسافر کے تمام سفر کی کیفیات کو مسلسل ریکارڈ کرتے رہیں گے۔ اس میں ایک بڑا شیشہ بھی نصب کیا گیا ہے تا کہ جب خلائی مسافر خلا میں تیرنا شروع کریں تو وہ خود کو بھی دیکھ سکیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
ایک انتہائی مہنگا سفر
ورجن گیلکٹک کے تمام تر پرزے امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ایک مقام موجاو میں قائم ایک فیکٹری میں جوڑ کر اسے خلائی جہاز کی شکل دیتے ہیں۔ تمام مسافروں کو سفر اختیار کرنے سے قبل خصوصی تربیت بھی دی جائے گی۔ بظاہر یہ ایک انتہائی منفرد اور بہت ہی مہنگا سفر ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Montoya Bryan
7 تصاویر1 | 7
ایک مشن کا نام 'ڈاونچی پلَس‘
بِل نَیلسن نے کہا، ''ان دونوں روبوٹک مشنوں میں سے ایک کا نام 'ڈاونچی پلَس‘ ہو گا اور اس کے ذریعے زہرہ کی بہت کثیف بادلوں والی فضا کا مطالعہ کیا جائے گا۔ ساتھ ہی یہ کھوج لگانے کی کوشش بھی کی جائے گی کہ آیا اس سیارے پر کبھی کوئی سمندر بھی تھا اور یہ کہ یہ سیارہ کبھی رہائش کے قابل بھی رہا تھا یا نہیں؟‘‘
اس مشن کے دوران جو چھوٹی سی خلائی گاڑی زہرہ کی فضا میں بھیجی جائے گی، وہ اس سیارے کی فضا میں موجود گیسوں کے نمونے حاصل کر کے ان کا سائنسی مطالعہ بھی کرے گی۔
یہ مشن 1978ء کے بعد گزشتہ تقریباﹰ نصف صدی میں امریکا کی سربراہی میں زہرہ کی فضا میں کوئی اسپیس کرافٹ بھیجنے کی اولین کوشش ہو گا۔
ناسا کے خلائی جہاز ان سائیٹ نے چار سو بیاسی ملین کلومیٹر (تین سو ملین میل) کا سفر طے کیا ہے۔ یہ روبوٹ کنٹرول خلائی جہاز مسلسل چھ ماہ تک سفر کرنے کے بعد مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان سائیٹ خلائی مشن تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر کا بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔ اس میں جرمن ساختہ مکینکل دھاتی چادر بھی استعمال کی گئی ہے، جو مریخ کی حدت برداشت کرنے کے قابل ہے۔ فرانس کے ایک سائنسی آلات بنانے والے ادارے کا خصوصی آلہ بھی نصب ہے، جو مریخ کی سطح پر آنے والے زلزلوں کی کیفیات کو ریکارڈ کرے گا۔ اس کے اترنے پر کنٹرول روم کے سائنسدانوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/NASA/B. Ingalls
پہلی تصویر
تین ٹانگوں والا ان سائٹ مریخ کے حصے’الیسیم پلانیشیا‘ کے مغربی سمت میں اترا ہے۔ اس نے لینڈنگ کے بعد ابتدائی پانچ منٹوں میں پہلی تصویر کنٹرول ٹاور کو روانہ کی تھی۔ تین سو ساٹھ کلوگرام وزن کا یہ خلائی ریسرچ جہاز اگلے دو برسوں تک معلوماتی تصاویر زمین کی جانب روانہ کرتا رہے گا۔
تصویر: picture alliance/Zuma/NASA/JPL
ان سائنٹ مریخ کے اوپر
ان سائیٹ خلائی ریسرچ دو چھوٹے سیٹلائٹس کی مدد سے مریخ کی سطح تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان سیٹلائٹس کے توسط سے ان سائیٹ کی پرواز کے بارے میں معلومات مسلسل زمین تک پہنچتی رہی ہیں۔ اس خلائی مشن نے مریخ پر اترنے کے تقریباً ساڑھے چار منٹ بعد ہی پہلی تصویر زمین کے لیے روانہ کر دی تھی۔ اڑان سے لینڈنگ تک اِسے چھ ماہ عرصہ لگا۔ ناسا کے مریخ کے لیے روانہ کردہ خلائی مشن کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد ہے۔
ان سائیٹ مریخ کی سطح پر بارہ ہزار تین سو کلومیٹر کی رفتار سے پرواز کرتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔ اترے وقت اس کو بریکوں کے علاوہ پیراشوٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ ان سائیٹ پراجیکٹ کے سربراہ سائنسدان بروس بینرٹ کا کہنا ہے کہ مریخ کی جانب سفر سے کہیں زیادہ مشکل امر لینڈنگ ہوتا ہے۔ سن 1976 کے بعد مریخ پر لینڈنگ کی یہ نویں کامیاب کوشش ہے۔
مریخ کی سطح پر ان سائیٹ نامی خلائی تحقیقی جہاز ایک ہی مقام پر ساکن رہتے ہوئے اگلے دو برس تک اپنا مشن جاری رکھے گا۔ اس مشن میں مریخ کی اندرونی سطح کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ سرخ سیارے کے زلزلوں کی کیفیت کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یہ ریسرچ مشن مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار بارے کوئی معلومات جمع نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
5 تصاویر1 | 5
دوسرے مشن کا نام 'ویریتاس‘
ناسا کے ایڈمنسٹریٹر نے بتایا کہ زہرہ کی طرف بھیجے جانے والے دوسرے مشن کا نام 'ویریتاس‘ ہو گا اور وہ زہرہ کی سطح پر سخت چٹانی پتھروں کے نمونے حاصل کر کے یہ سمجھنے میں مدد دے گا کہ زمین کے اس ہمسایہ سیارے کی ارضیاتی علوم کے حوالے سے تاریخ سے کیا معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں؟
ناسا کے چیف سائنٹسٹ ٹام ویگنر کے مطابق یہ بات حیران کن ہے کہ انسان دراصل زہرہ کے بارے میں کتنی کم معلومات رکھتے ہیں۔ اب تک کی معلومات کے مطابق زہرہ کی فضا زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس سے بھری ہوئی ہے۔
ٹام ویگنر کے بقول، ''ان دونون خلائی مشنوں کی مدد سے اتنی زیادہ معلومات حاصل ہو سکیں گی کہ یہ زہرہ کی ایک طرح سے تقریباﹰ دوبارہ دریافت جیسی بات ہو گی۔‘‘
امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کی طرف سے مریخ کی سطح پر اتاری جانے والی تیسری روبوٹک گاڑی کیوروسٹی کو آج چھ اگست کے دن دو برس مکمل ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
ریکارڈ فاصلہ
ناسا کی طرف سے جنوری 2004ء میں مریخ کی سطح پر جو ایک روبوٹک گاڑی اتاری گئی اسے اپورچونٹی کا نام دیا گیا تھا۔ منصوبے کے مطابق اس گاڑی کو ایک کلومیٹر کے اندر اس سُرخ سیارے کی سطح کا جائزہ لینا تھا۔ مگر گزشتہ ایک دہائی کے دوران اپورچونٹی مریخ پر 40 کلومیٹر کا سفر کر چکی ہے۔ جو زمین سے پرے کسی گاڑی کا ریکارڈ سفر ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
کیوروسٹی کا اہم سنگ میل
چھ اگست 2012ء کو مریخ کی سطح پر اتاری جانے والی روبوٹک گاڑی کیوروسٹی ہمارے نظام شمسی کے اس سیارے کی سطح پر مصروف عمل ہے۔ کیوروسٹی زمینی کنٹرول سنٹر کو مریخ کی سطح کی تصاویر بھیجنے میں مصروف ہے۔ اس کے علاوہ اس پر نصب نظاموں نے پہلی بار وہاں کی ایک چٹان کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ یہ اس مشن کا ایک اہم سنگ میل ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
مریخ کی سطح پر پہلا سوراخ
کیوروسٹی میں نصب ڈرلنگ نظام نے رواں برس فروری میں مریخ کی سطح پر سوراخ کیا۔ اس کا قطر 1.6 انچ جبکہ گہرائی چھ انچ تھی۔ ناسا حکام نے اس پیشرفت کو ’’مریخ پر اترنے کے بعد کی عظیم ترین کامیابی‘‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/NASA/JPL-Caltech
پانی کی موجودگی کا ثبوت
سائنسدان مریخ کی اس چٹان کے تجزیے سے یہ امید کر رہے ہیں کہ یہ بات معلوم ہو سکے گی کہ آیا ماضی میں کبھی اس کی سطح پر پانی موجود رہا ہے یا نہیں۔ اس کے نتائج سے مریخ کے بارے میں مزید اہم معلومات بھی حاصل ہوں گی۔
تصویر: Reuters/NASA/JPL-Caltech/MSSS
زندگی کے لیے سازگار فضا
کھدائی کے ذریعے حاصل کیے گئے مریخ کی چٹانی سطح کے نمونے میں سلفر، نائٹروجن، فاسفورس اور کاربن کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔ ان کیمیائی اجزاء کو زندگی کے لیے اہم قرار دیا جاتا ہے۔ ناسا ماہرین کے مطابق، ’’یہ کبھی قابل رہائش جگہ رہی ہو گی۔‘‘
تصویر: picture alliance/AP Photo/NASA
سفر جاری ہے
900 کلوگرام وزنی یہ روبوٹک گاڑی شمسی توانائی کے علاوہ جوہری توانائی سے چلتی ہے۔ اس طرح خصوصی ساخت کے چھ پہیوں والی یہ گاڑی ریتلی اور پتھریلی زمین پر با آسانی حرکت کر سکتی ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/Malin Space Science Systems
اپنی ہی ایک تصویر
کیوروسٹی پر انتہائی جدید آلات نصب ہیں۔ جن میں کمپیوٹرز، انٹینیا، ٹرانسمیٹر، کیمرے اور چیزوں کو پکڑنے والے بازو شامل ہیں۔ کسی خرابی کی صورت میں یہ گاڑی خود ہی اسے دور بھی کر سکتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس پر نصب مختلف کیمرے اس گاڑی کے دیگر حصوں کی تصاویر بھی بنا کر زمین پر بھیجتے رہتے ہیں۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/Malin Space Science Systems
حرکت کرتی آنکھ
کیوروسٹی کے ایک روبوٹک آرم پر ایک خصوصی کیمرہ نصب ہے جسے ’مارس ہینڈ لینز امیجر‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک طرح کی خوردبین ہے جو روبوٹ کے طویل روبوٹک بازو کو آہستگی کے ساتھ زیرتجزیہ مقام کے چھوٹے چھوٹے حصوں کی طرف لاتی ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
مریخ سے سورج گرہن کا نظارہ
کیوروسٹی پر نصب ایک پول پر لگے کیمرے نے یہ تصاویر بنائی ہیں۔ ان میں مریخ کے دو چاندوں میں سے ایک فوبوز Phobos مریخ اور سورج کے درمیان سے گزر رہا ہے جس سے جزوی سورج گرہن دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
مریخ کا پہلا سال
24 جون 2014ء وہ دن تھا جب کیوروسٹی کو مریخ کی سطح پر اترے مریخ ہی کے وقت کے مطابق ایک سال مکمل ہوا۔ مریخ کا سال دنیا کے 687 دنوں کے برابر ہے۔ اور یوں اس نے اپنے لیے مقرر کردہ وقت کا ہدف بھی حاصل کر لیا ہے۔ مگر یہ اب بھی رواں دواں ہے اور ممکن ہے کہ یہ اپورچونیٹی کے ریکارڈ کو بھی توڑ دے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech
10 تصاویر1 | 10
دونوں خلائی مشنوں کی روانگی کا وقت
یہ دونوں نئے خلائی مشن 2028ء اور 2030ء کے درمیان زہرہ کی طرف بھیجے جائیں گے اور ان کے لیے ناسا کے 'ڈسکوری پروگرام‘ کے تحت فی کس 500 ملین ڈالر مہیا کیے جائیں گے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ناسا نے زہرہ کی طرف یہ دونوں مشن بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہوئے دو دیگر خلائی مشنوں سے متعلق تجاویز پر فی الحال عمل درآمد نا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان تجاویز میں سے ایک کے تحت نظام شمسی کے چاند Io کی طرف ایک مشن بھیجنے کا مشورہ دیا گیا تھا جبکہ دوسرا ممکنہ منصوبہ زمین کے سولر سسٹم کے ایک اور سیارے نیپچون کے برفیلے چاند ٹرائٹن (Triton) کی طرف ایک معلوماتی مشن بھیجنے سے متعلق تھا۔
ناسا کا ارادہ ہے کہ ان تجاویز پر بعد میں کسی وقت دوبارہ غور کیا جائے گا۔
م م / ک م (اے پی، اے ایف پی)
سینٹینل اول سے حاصل ہونے والی تصاویر
تین اپریل 2014ء کو سینٹینل اول کو خلا میں بھیجا گیا تھا۔ یہ زمینی مشاہدے کے یورپی پروگرام کوپرنیکس کا پہلا سیٹلائٹ ہے۔ تاہم اب یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے نے پہلی مرتبہ اس سیٹلائٹ کی طرف سے بھیجی گئی تصاویر جاری کی ہیں۔
تصویر: ESA – S. Corvaja
نئے سیٹلائٹ کی پہلی تصویر
سینٹینل اول کو انتہائی منفرد منصوبوں پر تجربات کے لیے خلا میں بھیجا گیا ہے۔ اس سیٹلائٹ میں ایک خصوصی لیزر نصب ہے اور کی مدد سے بہت تیز رفتاری کے ساتھ اعداد و شمارکا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی ماحولیاتی آفت کی صورت میں اس لیزر کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
تصویر: ESA/ATG medialab
پہلا قدم
خلا میں بھیجے جانے کے نو روز بعد سینٹینل اول نے پہلی تصاویر اتاریں۔ دیگر یورپی منصوبوں کی طرح برسلز میں ان تصاویر کو بھی دکھایا گیا۔
تصویر: ESA
گلیشئرز کے پگھلنے کا ثبوت
یہ تصویر پائن آئی لینڈ گلیشئر کی ہے۔ یہ مغربی انٹارکٹیکا کا ایک عظیم الجثہ گلیشئر ہے اور یہاں سے ہر سال اربوں ٹن برف سمندر میں شامل ہوتی ہے۔ تاہم یہ زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے دوران اس گلیشئر کا سامنے والا حصہ ہر سال ایک کلومیٹر تک سکڑتا رہا ہے۔
تصویر: ESA
کیپریوی، نمیبیا کا منفرد علاقہ
کیپریوی شمال مشرقی نمیبیا کا ایک علاقہ ہے۔ دسمبر سے مارچ تک جاری رہنے والی بارشوں کی وجہ سے دریائے سامبیزی سے ملحقہ علاقے سیلاب کا شکار ہو جاتا ہے۔ کیپریوی نمیبیا کا ایسا واحد خطہ ہے، جہاں سال بھر پانی دستیاب رہتا ہے اور اسی وجہ سے یہاں جانور بھی موجود ہوتے ہیں۔
تصویر: ESA
محققین کا جزیرہ
انٹارکٹیکا کا شمالی حصہ جزیرہ نما ہے۔ یہاں پہاڑوں کی اونچائی2800 میٹر تک ہے اور اسے جنوبی امریکا کے پہاڑی سلسلے اینڈن Anden کا تسلسل بھی کہا جاتا ہے۔ انٹارکٹیکا کا یہ جزیرہ نما اپنی خصوصیات کی وجہ سے پورے براعظم میں محققین اور سائنسدانوں کی توجہ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
تصویر: ESA
برف حرکت میں ہے
آؤسٹفونا Austfonna ناروے کا ایک منجمد پہاڑ ہے اور یہ 8120 مربع میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس بناء پر اسے یورپ کا سب سے بڑا گلیشئر کہا جاتا ہے۔ سینٹینل اول اور DLR مشن کی جانب سے کی گئی پیمائش کے نتیجے کے مطابق یہ پہلے کے مقابلے میں دس گنا تیزی سے حرکت کر رہا ہے۔
تصویر: ESA/DLR/Gamma/University of Leeds/University of Edinburgh
شمالی سینٹینل جزائر
بحر ہند میں واقع مختلف جزائر پر مشتمل ایک گروپ کو انڈامان جزائر کہتے ہیں اور انہی میں سے ایک نارتھ سینٹینل آئی لینڈ بھی ہے۔ 1996ء سے سینٹینل آئی لینڈ پر سیاحوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہاں پر آباد افراد نے باقی ماندہ دنیا سے اپنا تعلق ختم کر دیا ہے۔
تصویر: ESA
دنیا میں نمک کا سب سے بڑا صحرا
سالار دی یُویونی دنیا میں نمک کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ اس کی بیرونی سطح دس ہزار سال پہلے ایک جھیل کے سوکھنے کی وجہ سے قائم ہوئی تھی۔ نمک کا یہ صحرا سطح سمندر سے 3600 میٹر بلندی پر جنوبی امریکی ملک بولیویا کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔