زندگی ایک برس میں معمول پر آجائے گی، جرمن ویکیسن مینوفیکچرر
16 نومبر 2020
نئے کورونا وائرس کے خلاف امریکی کمپنی فائزر کے ساتھ مل کر ویکسین تیار کرنے والی جرمن کمپنی بیون ٹیک کے جنرل مينيجر نے امید ظاہر کی ہے کہ آئندہ برس موسم سرما تک دنیا بھر میں زندگی معمول پر لوٹ آئے گی۔
اشتہار
بیون ٹیک کے جنرل مينیجر اوگور شاہین نے ايک برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ 'انتہائی ضروری‘ ہے کہ سال 2021ء کے موسم سرما سے قبل زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ویکسینیشن مل جانی چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ''اگر سب کچھ ٹھیک رہا، تو ہم رواں برس کے اختتام تک ویکسین کی فراہمی شروع کر دیں گے۔‘‘ ڈاکٹر شاہین کے مطابق، ''ہمارا ہدف ہے کہ ہم آئندہ برس اپریل تک اس ویکسین کی 300 ملین خوراکیں فراہم کر دیں، جس سے اس وائرس کے خلاف مؤثر بچاؤ شروع ہو جائے گا۔ يہ وائرس اب تک دنیا بھر میں 13 لاکھ افراد کی زندگیاں چھین چکا ہے۔‘‘
بیون ٹیک کے جنرل مينیجر اوگور شاہین کے بقول، ''سب سے زیادہ اہم آئندہ برس کا موسم گرما ہے۔ گرمیوں میں ہمیں مدد ملے گی کیونکہ انفیکشن کی شرح کم ہو جائے گی۔ لیکن جو چیز بہت ضروری ہے وہ ہے آئندہ موسم سرما سے قبل بڑے پیمانے پر ویکسینیشن۔‘‘
انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ ایسا ہو گا، کیونکہ ویکسین تیار کرنے والے بہت سے اداروں کو کہا گیا ہے کہ وہ ویکسین کی تیاری بڑھا دیں۔ اوگور شاہیں کے مطابق، ''ہم آئندہ برس ایک نارمل موسم سرما گزاریں گے۔‘‘
امریکی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بیون ٹیک نے قبل ازیں کہا تھا کہ ان کی تیار کردہ ویکسین کے بڑے پیمانے پر طبی آزمائش سے معلوم ہوا ہے کہ یہ ویکسین کورونا کے پھیلاؤ کے خلاف 90 فیصد تک مؤثر ہے۔ یہ ٹرائل ابھی تک جاری ہے تاہم ویکسین کی حتمی منظوری سے قبل یہ آخری مرحلہ ہے۔
ان دو کمپنیوں کی مشترکہ ویکسین کے علاوہ بھی کئی ایک کمپنیاں اس دوڑ میں شریک ہیں اور اسی باعث یہ امید اب بڑھ چلی ہے کہ زندگی جلد اپنے معمول پر لوٹ سکے گی۔
کورونا کی وبا سے دنیا بھر میں متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد پانچ کروڑ 45 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ اس سے ہونے والی بیماری کووڈ انیس اب تک 13 لاکھ 18 ہزار انسانی جانیں لے چکی ہے۔ موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی اس وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔
مختلف ممالک کے اسکول کورونا سے کیسے نمٹ رہے ہیں؟
موسم گرما کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں اسکول دوبارہ کھل رہے ہیں۔ ایسے میں کورونا وائرس کے ایک اور مرتبہ پھیلنے کا بھی خطرہ ہے۔ مختلف ممالک کے اسکولوں کے حفاظتی اقدامات پر ایک نظر!
تصویر: Getty Images/L. DeCicca
تھائی لینڈ: ایک باکس میں کلاس
بنکاک کے واٹ خلونگ توئی اسکول میں پڑھنے والے تقریباﹰ 250 طلبا کلاس کے دوران پلاسٹک ڈبوں میں بیٹھتے ہیں اور انہیں پورا دن اپنے چہرے پر ماسک بھی پہننا پڑتا ہے۔ ہر کلاس روم کے باہر صابن اور پانی رکھا جاتا ہے۔ جب طلبا صبح اسکول پہنچتے ہیں تو ان کا جسمانی درجہ حرارت بھی چیک کیا جاتا ہے۔ اسکول میں جولائی کے بعد سے انفیکشن کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔
تصویر: Getty Images/L. DeCicca
نیوزی لینڈ: کچھ طلبا کے لیے اسکول
دارالحکومت ویلنگٹن کے یہ طلبا خوش ہیں کہ وہ اب بھی اسکول جا سکتے ہیں۔ آکلینڈ میں رہنے والے طلبا اتنے خوش قسمت نہیں۔ یہ ملک تین ماہ تک وائرس سے پاک رہا لیکن 11 اگست کو ملک کے سب سے بڑے اس شہر میں چار نئے کیس سامنے آئے۔ طبی حکام نے شہر کے تمام اسکولوں اور غیر ضروری کاروبار کو بند رکھنے اور شہریوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images/H. Hopkins
سویڈن: کوئی خاص اقدامات نہیں
سویڈن میں طلبا اب بھی گرمیوں کی اپنی تعطیلات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ یہ چھٹیوں سے پہلے کی تصویر ہے اور حکومتی پالیسی کو بھی عیاں کرتی ہے۔ دیگر ممالک کے برعکس اسکینڈینیویا کے شہریوں نے کبھی بھی ماسک پہننے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کاروبار، بار، ریستوران اور اسکول سب کچھ کھلا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/TT/J. Gow
جرمنی: دوری اور تنہائی
ڈورٹمنڈ کے پیٹری پرائمری اسکول میں یہ طلبا مثالی طرز عمل کی نمائش کر رہے ہیں۔ جرمنی کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے تمام اسکولوں کی طرح اس اسکول کے بچوں کے لیے بھی ماسک پہننا لازمی ہیں۔ ان کا تعلیمی سال بارہ اگست سے شروع ہو چکا ہے۔ فی الحال ان اقدامات کے نتائج کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Fassbender
مغربی کنارہ: 5 ماہ بعد اسکول واپسی
یروشلم سے 30 کلومیٹر جنوب میں واقع ہیبرون میں بھی اسکول دوبارہ کھل گئے ہیں۔ اس خطے کے طلبا کے لیے بھی چہرے کے ماسک پہننا ضروری ہیں۔ کچھ اسکولوں میں دستانوں کی بھی پابندی ہے۔ فلسطینی علاقوں میں اسکول مارچ کے بعد بند کر دیے گئے تھے جبکہ ہیبرون کورونا وائرس کا مرکز تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Bader
تیونس: مئی سے ماسک لازمی
تیونس میں ہائی اسکول کے طلبا کی اس کلاس نے مئی میں ماسک پہننا شروع کیے تھے۔ آئندہ ہفتوں میں اس شمالی افریقی ملک کے اسکول دوبارہ کھل رہے ہیں اور تمام طلبا کے لیے ماسک ضروری ہیں۔ مارچ میں تیونس کے اسکول بند کر دیے گئے تھے اور بچوں کی آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Belaid
بھارت: لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے پڑھائی
مغربی بھارتی ریاست مہاراشٹر میں واقع اس اسکول ان بچوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں، جن کی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔ یہاں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے انہیں پڑھایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/P. Waydande
کانگو: درجہ حرارت کی جانچ کے بغیر کوئی کلاس نہیں
کانگو کے دارالحکومت کنشاسا کے متمول مضافاتی علاقے لنگوالا میں حکام طلبا میں کورونا وائرس کے انفیکشن کا خطرہ انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ ریورنڈ کم اسکول میں پڑھنے والے ہر طالب علم کو عمارت میں داخل ہونے سے پہلے درجہ حرارت چیک کروانا ہوتا ہے اور چہرے کے ماسک بھی لازمی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Mpiana
امریکا: متاثرہ ترین ملک میں پڑھائی
کووڈ انیس کے ممکنہ کیسز کا پتہ لگانے کے لیے ہر امریکی اسکول میں روزانہ درجہ حرارت کی جانچ کی جاتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات کی اس ملک کو فوری طور پر ضرورت بھی ہے۔ دنیا میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ اموات اب بھی امریکا میں ہو رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Newscom/P. C. James
برازیل: دستانے اور جپھی
ماورا سلوا (بائیں) شہر ریو ڈی جنیرو کی سب سے بڑی کچی آبادی میں واقع ایک سرکاری اسکول کی ٹیچر ہیں۔ وہ گھر گھر جا کر اپنے طلبا سے ملنے کی کوشش کرتی اور انہیں ایک مرتبہ گلے لگاتی ہیں۔ انہوں نے اس کے لیے پلاسٹک کے دستانے اور اپر ساتھ رکھے ہوتے ہیں۔