1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آفات

زندگی اے زندگی !

انعم صبا
30 ستمبر 2019

کسی طوفان باد و باراں کی پیشگی اطلاع اور اس سے نمٹنے کی تیاری تو کافی حد تک ممکن ہے لیکن زلزلہ ایک ایسی آفت ہے جس کے مقام اور وقت کا درست تعین ابھی تک انسان کے بس سے باہر ہے۔

Anum Saba
تصویر: privat

قدرتی آفات اچانک وارد ہوتی ہیں اور عموماً محدود وقت میں شدید نقصان کر کے غائب ہو جاتی ہیں۔ ایسا ہی ایک سانحہ چوبیس ستمبر کو چار بج کر ایک منٹ پر کشمیر کے خوبصورت شہر میرپور اور اس کے نواح میں رونما ہوا۔ اب تک 39 اموات اور 732 افراد کے زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ سینکڑوں مکانات کے مکمل یا جزوی تباہ ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ تقریباً پانچ لاکھ آبادی والے میر پور شہر کی بیشتر پختہ عمارات مضبوط تعمیر کی بنا پر ریکٹر سکیل پر 5.8 شدت کے زلزلے کو سہہ کر منہدم ہونے سے تو بچ گئیں لیکن ان میں دراڑیں اور شگاف پڑ گئے۔

ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کی دوسری بڑی مصنوعی جھیل اور منگلا ڈیم کی تعمیر کے دوران مقامی آبادی کو بلند مقام پر منتقل کیا گیا تو یہ جدید اور باترتیب شہر وجود میں آیا تھا۔ خوش قسمتی کہیں کہ حالیہ زلزلہ دن کی روشنی میں اس دوران آیا، جب زیادہ تر لوگ موسم کی مناسبت سے سہ پہر سے رات تک کا وقت اپنے گھروں کے صحن یا برآمدے میں گزارتے ہیں۔ افراد کے چھتوں کے نیچے موجود نہ ہونے سے زیادہ جانی نقصان نہ ہوا۔ ایک معروف پاکستانی ماہر ارضیات خالد شعیب کے مطابق حالیہ زلزلے کی لہر کی شدت، گہرائی، تحرک اور رخ ایسے تھے کہ کمروں کی نسبت دیواریں زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔

زلزلے والی شام کو میں بھی پاکستان ریلیف کی ایمرجنسی رسپانس ٹیم کے ہمراہ میرپور شہر میں داخل ہوئی تو تمام شہر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ڈسڑکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال کو جانے والی سڑک پر مقامی رضاکار نوجوان ٹریفک کنٹرول کر رہے تھے تا کہ امدادی گاڑیوں کے لیے راستہ کھلا رہے۔ ہسپتال کے باہر ایمبولینسوں کے سائرن اور سرخ فلیشرز نے 2005 کے زلزلے میں مظفرآباد اور مانسہرہ کی افسوسناک یاد تازہ کر دی جہاں چھہتر ہزار انسان لقمہ اجل بن گئے تھے۔ ہم ہسپتال میں داخل ہوئے تو ڈاکٹر مزمل نے 23 ہلاکتوں اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمیوں کی آمد کا بتایا۔ ہم نے دو وارڈز میں زخمیوں کو دیکھا جن میں عورتیں، بچے، بزرگ اور جوان ہرعمر کے افراد شامل تھے۔ زخمیوں کے لواحقین نے بتایا کہ زیادہ لوگ دیواروں کے نیچے آکر زخمی ہوئے ہیں۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

وہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت یا مقامی دستیاب چھوٹی ایمبولینسوں میں ہسپتال پہنچے تھے۔ ان کے چہروں پر بے آرامی اور کسی قدر پریشانی کے آثار تو تھے لیکن مجھے خوف دکھائی نہیں دیا۔ آفٹر شاکس کے باوجود وہ ہسپتال کی عمارت میں موجود تھے اور طبی امداد ملنے پر اطمینان کا اظہار کر رہے تھے۔ مقامی تعلیمی ادارے کشمیر آرفن ویلفئیر ٹرسٹ کے طالب علم اور دیگررضاکار وہاں کھانا بانٹتے نظر آئے۔ پاکستان آرمی، پولیس اور دیگر حکومتی اداروں کے اہلکار بھی وہاں موجود و متحرک تھے۔

اسلام آباد سے ہمراہ سفر کر کےآنے والی پاکستاں ریلیف کی ٹیم میں سے مجتبٰی حیدر کی میرپور میں ایک سینئرعہدیدار بریگیڈئر خالد شفیع سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ جونہی کچھ علاقوں کے زلزلے سے متاثر ہونے کی اطلاع موصول ہوئی انہوں نے فوری طور پر امدادی دستے ضروری سامان کے ہمراہ روانہ کر دیے اور خود بھی ان مقامات پر موجود رہ کر امدادی کام کی نگرانی کی۔

چونکہ ہمارے ساتھ سرچ ڈاگز بھی موجود تھے لہٰذا ہم کسی ممکنہ ہنگامی ضرورت میں ان کے استعمال کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان ایمچور ریڈیو سوسائٹی کے رضاکاروں کے ہمراہ فوری طور پر پندرہ میل دور سب سے زیادہ متاثرہ یونین کونسل جاتلاں کی جانب نکل پڑے۔

 راستے میں شدید بارش شروع ہو گئی۔ وہاں پہنچے تو کشمیر انٹرنیشنل ریلیف فنڈ کے کمیونٹی ہسپتال میں بارہ اموات اورایک سو ساٹھ زخمیوں کا بتایا گیا۔ ہم نے سفرجاری رکھنا چاہا تو مقامی لوگوں نے بتایا کہ آگے سڑک تباہ ہو چکی ہے اور اپر جہلم نہر کا پل بھی ٹوٹ گیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

 شدید بارش اور رات کے اندھیرے میں ہم متبادل طویل راستے سے چیچیاں پہنچے اور پھر وہاں سے سموال اور ساہنگ ککری تک ہوتے ہوئے اگلی صبح ساڑھے نو بجے تمام متاثرہ بستیوں کا ابتدائی جائزہ مکمل کر لیا۔ گزشتہ شام ہی ملبے سے سب لوگوں کو نکال لیا گیا تھا۔ اب لوگ اپنا بچا کھچھا قیمتی سامان سنبھال رہے تھے۔ کچھ جگہوں پر مرنے والوں کی تدفین کی تیاریاں بھی جاری تھیں۔ بکریاں، گائیں اور دیگر پالتو جانور سہمے سہمے سے تھے۔

پاکستان اپنے قیام سے اب تک کئی ناگہانی آفات کا سامنا کر چکا ہے۔ زلزلے اور سیلاب سے کثیرجانی اور مالی نقصانات ہوتے چلے آئے ہیں۔ 2005 کے زلزلے کے بعد کیبینٹ ڈویژن اور پرائم مسنٹر سیکریٹیریٹ میں قائم ایمرجنسی ریلف سیل بین الاقوامی اور ملکی امدادی اداروں کی رہنمائی اور این اوز وغیرہ کے لیے معاونت کرتے رہے۔

 2007 میں پارلیمنٹ کی قانون سازی کی روشنی میں نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی قائم ہوئی جسے صوبائی سطح پر بھی فعال کیا گیا۔ 2010 کے ہولناک سیلاب کے بعد این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے نے قدرے زیادہ منظم انداز میں ارتقائی مراحل طے کیے ہیں۔ 1122 نے بھی اچھی مثال قائم کرنے کا سفر جاری رکھا ہے۔ عوام کو شکوے بھی یقیناً ہوں گے لیکن رفتہ رفتہ ان اداروں کی خدمات وسیع اور موثر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔

این ڈی ایم اے کے مطابق میرپور میں اب تک 2089 خیمے، 2900 کمبل، 500 ترپال، 260 پلاسٹک شیٹ، 200 فرسٹ ایڈ کٹ، 200 ہائی جین کٹ، 800 مچھر دانیاں، 4500 راشن پیک اور 50،000 پانی کی بڑی بوتلیں تقسیم کی جا چکی ہیں۔  مزید براں 20 ایمبولینسیں، 6 ریسکیو گاڑیاں اور 110 ریسکیو اہلکار آٹھ ٹیموں کی صورت میں امدادی کام کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں  پمز ہسپتال میں ڈاکٹروں کی ٹیم معاونت کے لیے الگ سے موجود ہے۔ پولی کلینک ہسپتال نےاسلام آباد سے ایک موبائل ایکسرے مشین میر پور کے ہسپتال پہنچائی ہے۔

پاکستان اور کشمیر کے متحرک ارضیاتی طبقات کے عین اوپر محل وقوع اور انواع واقسام کے قدرتی اور انسانی پیدا کردہ ہنگامی حالات کے پیش نظر امدادی اداروں کی تعداد اور استعداد کار بڑھانا خطے کی اہم ضرورتوں میں سے ہے۔

 خالصتاً انسانی بنیادوں پر کام کرنے والے اچھے فلاحی اداروں اور امدادی کارروائیوں کے ماہرین پر مشتمل باضابطہ این جی اوز کو اجتماعی قومی ڈھانچے کا مربوط حصہ بنا کر ان کی صلاحیتوں سے استفادہ اسی صورت ممکن ہے جب باہمی اعتماد بڑھاتے ہوئے جدید سائنسی خطوط پر تربیت اور تعاون کے فقدان پر قابو پایا جائے۔ بروقت اطلاع رسانی اور فوری مشاورت کے بعد اقوام متحدہ کے اوچا کلسٹر سسٹم کے مطابق ہر رکن ادارے کی مہارت اور وسائل کے لحاظ سے درجہ بندی، کام کی تقسیم اور جغرافیائی علاقے کی نشاندہی وہ امور ہیں، جن پر مزید توجہ دینے سے امدادی کارروائیوں میں آسانی، سرعت اور عملی افادیت پیدا ہو گی۔ کون جانتا ہے کل کس نوعیت کی ہنگامی صورتحال درپیش ہو اور اس کا دائرہ ضرر کتنا وسیع ہو۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں