1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’زندگی‘ جو خود کشی کی راہ ہر چلنے سے روکتی ہے

25 نومبر 2022

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں خودکشی سے بچاؤ کی امدادی سروس ذہنی صحت کے مسائل سے نبردآزما افراد کے لیے لائف لائن ہے۔ تاہم اس مسلم اکثریتی علاقے میں بہت سے لوگ مدد لینے سے گریزاں ہیں۔

Indien | Herbst in Srinagar
تصویر: Muzamil Mattoo/NurPhoto/picture alliance

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں خودکشی سے بچاؤ کی امدادی سروس ذہنی صحت کے مسائل سے نبردآزما افراد کے لیے لائف لائن ہے۔ تاہم اس مسلم اکثریتی علاقے میں بہت سے لوگ مدد لینے سے گریزاں ہیں۔ 56 سالہ محفوظ احمد اپنی بیٹی کے کسی دوسرے مرد سے شادی کرنے سے چند دن قبل اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ بھاگ جانے کی سماجی بدنامی سے نبرد آزما تھے۔ وہ مایوس ہو چکے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے دوستوں سے میل جول بند کر دیا۔ اسی دوران محفوظ احمد کوخودکشی کے خیالات آنے لگے۔ستمبر کی ایک سرد شام کو انہوں نے اپنے گھر کے سامنے کا دروازہ بند کیا اور اپنی زندگی ختم کرنے کے ارادے سے زہریلے زنک فاسفائیڈ کی بوتل لے کر اپنے سونے کے کمرے میں چلے گئے۔

کشمیر میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کی وجہ اس خطے میں جاری تنازعہ قرار دیا جاتا ہےتصویر: Jakub Krechowicz/PantherMedia/IMAGO

تاہم انہوں نے اس کے بجائے اپنا سمارٹ فون اٹھایا اور "زندگی" کو تلاش کیا ۔ یہ خودکشی سے بچاؤ کی ایک ہیلپ لائن کا نام  ہے جو حال ہی میں انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز (IMHANS) نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں قائم کی ہے۔

محفوظ احمد نے نمبر ڈائل کیا اور بولے،''ہیلو! کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں؟‘‘ ایک نوجوان ماہر نفسیات نے اس کی کال اٹھائی اور وہ دو گھنٹے تک بات کرتے رہے، جب تک کہ محفوظ احمد بالآخر پرسکون نہ ہو گئے۔  زویا میر  ایک ماہر نفسیات اور IMHANS میں 'زندگی' پروجیکٹ کی سربراہ ہیں۔ انہوں نے بتایا،''میں نے ان کی چھوٹی بیٹی اور بیٹے کے مستقبل کے بارے میں بات کر کے  انہیں حفاظتی عوامل پر استوار کیا۔‘‘

خود کشی کی سوچ کو جنم دینے والا سر درد کس کو کہتے ہیں؟

 ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے زویا میر نے کہا ، ''میں نے یہ بھی پایا کہ ان کے مذہبی عقیدے نے انہیں زندہ رہنے کی ہمت دی۔ اس لیے میں نے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جب تک کہ وہ پرسکون نہ ہوگئے۔‘‘ محفوظ احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ماضی میں ان کے مسلم عقائد انہیں خودکشی کے بارے میں سوچنے سے روکتے تھے لیکن جیسے جیسے وہ مزید مایوس ہوتے گئے انہیں ایسا لگا کہ اب وہ پہلے والا معاملہ نہیں رہا۔

خودکشی سے جڑا بدنامی کا خوف توڑنا

مسلم اکثریتی کشمیر میں خودکشی ایک بدنما داغ سمجھی جاتی  ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بدنامی کا خوف لوگوں کو ان کی ذہنی صحت کے لیے پیشہ ورانہ مدد لینے سے روکتا ہے۔زندگی سے وابستہ ماہر نفسیات ڈاکٹر سید مہوش یاور نے کہا کہ کشمیری زبان میں خودکشی کے مترادف کوئی لفظ نہیں۔ یاور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ زندگی ہیلپ لائن خودکشی سے متعلق بدنما داغ کو ختم کرنے اور لوگوں کو خودکشی کے بارے میں کھل کر بات کرنے اور مدد لینے کی ترغیب دینے کے لیے قائم کی گئی تھی۔

بھارتی گھریلو خواتین کی خودکشی کے واقعات میں اضافہ

مقامی حکومت کے کرائم گزٹ 2021ء کے مطابق خطے میں گزشتہ سال  خودکشیوں کے 586 جبکہ  2020 ء میں 472 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ کشمیر میں دیگر بھارتی ریاستوں کے مقابلے میں خودکشی کی شرح زیادہ ہے اور 2010 ءسے 2018 ء تک 2,612 خودکشیوں سے ہونے والی اموات ریکارڈ کی گئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انڈیا کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق یہاں ہر سال تقریباً 290 افراد خودکشی سے مرتے ہیں۔

کچھ مطالعات کا اندازہ ہے  کشمیر کی سات ملین کی آبادی میں سے 45 فیصد کسی نہ کسی قسم کی ذہنی پریشانی کا شکار ہیں۔ دماغی صحت کی بیماریوں کی اونچی شرح بنیادی طور پر علاج تک ناقص رسائی، بدنامی کا داغ کا خوف ہے۔

مدد کے لیے پکار

زویا میر نے کہا کہ مریضوں کی طرف سے مشاورت اور نفسیاتی مدد کے لیے زندگی ہیلپ لائن پر کال کرنے کے بعد تقریباً 400 خودکشیوں کو روکا گیا ہے۔ زندگی ہیلپ لائن پر زیادہ تر نوجوان خواتین پر مشتمل طبی ماہرین نفسیات کا ایک گروپ خودکشی سے بچاؤ کی مشاورت، ابتدائی طبی امداد، نفسیاتی مدد، پریشانی میں کمی کا انتظام، ذہنی تندرستی، اور نفسیاتی بحران میں مدد کی پیشکش کرتی ہیں۔

میر نے کہا کہ ہیلپ لائن پر زیادہ تر نوجوانوں یا نوعمروں کی کالیں آتی ہیں، جن میں خود کشی کا رجحان تو کم ہے لیکن  انہیں خود کشی کے خطرات لاحق رہتے ہیں۔ اس کی وجہ  خطے میں جاری تنازعہ کے باعث ان کی ذہنی صحت پر برے اثرات کا مرتب ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہیلپ لائن پر موصولہ کالوں میں سے زیادہ ترکا تعلق محبت میں دل ٹوٹنے، خاندان میں مالی پریشانی، ناکام شادیوں یا والدین کی توقعات پر پورا نہ اترنے سے ہے۔

بدنامی کے خوف سے بہت سے لوگ خود کشی کے تدارک کے لیے قائم ہیلپ لائن سے رابطہ کرنے سے کتراتے ہیںتصویر: kallejipp/Shotshop/IMAGO

صدمے کا شکار ہیلتھ ورکز

اگرچہ ہیلتھ ورکرز نے زندگی کے پلیٹ فارم سےکشمیر میں بہت سے خودکشیوں کو روکا ہےلیکن خودکشی کرنے والے مریضوں سے نمٹنا ان کی اپنی ذہنی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔ محفوظ احمد کی خودکشی کی کوشش کو ناکام بنانے کے چند دن بعد پولیس نے اعلان کیا کہ ایک 52 سالہ شخص نے سری نگر میں بہنے والے دریائے جہلم میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

بھارت:  خودکشی کے واقعات میں ڈرامائی اضافہ

 زویا میر کے مطابق ،''میرا دل ڈوب گیا، اور میں یہ خبر سن کر رونے لگی یہ سوچ کر کہ یہ محفوظ احمد ہو سکتے ہیں۔ ہم نے پروٹوکول توڑا اور انہیں کال کرنے کے لیے اپنے ڈیٹا سے ان کا فون نمبر حاصل کیا لیکن خوش قسمتی سے مرنے والے وہ( محفوظ احمد) نہیں تھے۔‘‘  خودکشی کرنے والوں کو مشاورت مہیا کرنے والے ایک ماہر نفسیات نے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اپنے مریضوں کے لیے نجات دہندہ بننا چاہتے ہیں لیکن ناکامی کے خوف کا نتیجہ اکثر جذباتی صدمے نکلتا ہے۔

اس ماہر نفسیات نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم ایسا نہیں کرنا چاہتےکیونکہ ایک خودکشی کرنے والے شخص کی صورتحال کسی کے بھی رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہوتی ہے اور ہمیں یقین نہیں ہوتاکہ ہم کسی کو بچا سکیں گے یا نہیں۔‘‘ وہ اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ دوسروں کو صدموں سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے اپنے  دماغی صحت کے مسائل کے بارے میں بات چیت کریں۔

ش ر⁄ ع ت (ثمن لطیف)

بھارت میں ’کسانوں کا قبرستان‘

03:03

This browser does not support the video element.

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں