پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کی جاری کردہ 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اڑتالیس فیصد خواتین جبکہ بیس فیصد مردوں کی اٹھارہ سال سے پہلے ہی شادی کر دی جاتی ہے۔
اشتہار
ہمارے معاشی اشاریے پست ترین سطح پر ہی کیوں نہ ہوں لیکن آبادی کی شرح بلند ترین سطحوں پر ہوتی ہے۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کی جاری کردہ 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اڑتالیس فیصد خواتین جبکہ بیس فیصد مردوں کی اٹھارہ سال سے پہلے ہی شادی کر دی جاتی ہے۔
نوجوان شادی شدہ خواتین میں حمل ٹھہرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور دوسری طرف کم شعور اور خاندانی منصوبی بندی جیسے موضوع پر کھل کر بات نہ کرنے کی وجہ سے انہیں مانع حمل کی سہولیات بھی میسر نہیں ہوتیں یا انہیں اس کے بارے میں مکمل علم نہیں ہوتا کہ یہ کس طرح استعمال میں لائی جا سکتی ہیں۔
پدر شاہی نظام والے ہمارتے معاشرے میں مردوں کو اولاد نرینہ ہی چاہیے ہوتی ہے۔ ساتھ ہی انہیں اولاد کی صحت کا خیال بھی ہوتا ہے جبکہ یہ خواہش بھی شدید ہوتی ہے کہ عورت پیداواری لحاظ سے بہتر حالت میں ہو۔ تاہم اس تمام معاملے میں انہیں ماں کی صحت کا خیال نہیں آتا، کیونکہ ان کے خیال میں یہ ایک قدرتی عمل ہے اور دنیا بھر کی سبھی خواتین ہی بچے پیدا کرتی ہیں اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ لیکن اگر بنیادی طبی تقاضے ملحوظ نا رکھے جائیں تو سب سے زیادہ نقصان ماں کو ہی ہوتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت شادی شدہ جوڑوں میں سے صرف ایک تہائی خاندان خاندانی منصوبہ بندی کے لیے جدید یا روایتی طریقہ کار استعمال کرتے ہیں، جس میں خواتین کی نس بندی کو سب سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔
خواتین کی نس بندی دنیا بھر میں خاندانی منصوبہ بندی کے لیے استعمال ہونے والا سب سے عام طریقہ ہے۔ یورپ اور امریکا میں اب بھی گولیوں اور دوسری اشیاء کا استعمال زیادہ عام ہے لیکن دوسری طرف جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکہ سمیت بیشتر ممالک میں خواتین کی نس بندی ہی ایک ترجیحی طریقہ ہے۔ نس بندی کو ترجیح دینے کے لیے خواتین کے پاس متعدد وجوہات ہیں۔
اگر بھارت کی بات کی جائے تو وہاں ریاستی پالیسی کے تحت خواتین کی نس بندی کے ذریعے خاندانی منصوبہ بندی کو فروغ دیا گیا۔ 1980 کی دہائی میں اس پالیسی کو تبدیل کیا گیا مگر اس کے باوجود اس طریقہ کار کی ترجیحی حیثیت برقرار ہے۔ اس کے برعکس لاطینی امریکا میں خواتین کی نس بندی کی ترجیحات کی سب سے بڑی وجہ مضبوط ثقافتی اصولوں کی بنا پر جلد شادی کا ہونا ہے۔ اس کے بعد ظاہر ہے جلد بچے پیدا ہو جاتے ہیں اور خواتین اس کے بعد خاندانوں کو محدود کرنے کے لیے نس بندی کی طرف جاتی ہیں۔
سائنس میں خواتین کا بین الاقوامی دن
سائنس کے میدان میں پاکستانی خواتین کی کارکردگی غیر معمولی قرار دی جا سکتی ہے۔ یہ خواتین کئی سائنسی شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔
تصویر: Privat
ڈاکٹر فوزیہ ادریس ابڑو
ڈاکٹر فوزیہ ادریس اس وقت پاکستان آرمڈ فورسز کے سائبر سیکیورٹی ونگ سے وابستہ ہیں اور افواجِ پاکستان سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔
تصویر: Privat
حبا رحمانی
پاکستانی نژاد انجینئر حبا رحمانی ایک عشرے سے امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا سے وابستہ ہیں اور کینیڈی سپیس فلائٹ سینٹرمیں خلا میں بھیجے جانے والے وہیکلز اور اسپیس شپس کی لانچنگ کی تکنیکی نگرانی کی ذمہ داری ادا کر نے کے ساتھ مختلف راکٹ لانچنگ پروسیس کی ٹیلیمیٹری لیبارٹری میں نگرانی بھی کرتی ہیں ۔
تصویر: Privat
زرتاج احمد
زرتاج احمد کراچی کے ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں جو کئی برس سے پاکستان میں سائنسی علوم خاص طور پر خلائی سائنس کی ترویج کے لیے کوشاں ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ پاکستان سپیس سائنس ایجوکیشن سینٹر قائم کیا ہے۔ جو ملک میں نوجوانوں کو خلائی سائنس سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ انہیں کیریئر کاؤنسلنگ بھی فراہم کرتا ہے۔
تصویر: Privat
مبینہ ظفر
مبینہ ظفر کا تعلق لاہور سے ہے وہ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ملٹی ڈسپلنری گروپ سربانا جیورنگ سے بحیثیت سینئر پروگرامر وابستہ ہیں۔ انہوں نے سن 2018 میں اسی گروپ کی جانب سے ینگ فی میل پروفیشنل آف دی ایئر کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا، جس سے وہ سن 2012 سے وابستہ ہیں۔ مبینہ کو یہ ایوارڈ پاکستان میں پانی کے ذرائع کے لیے منیجمنٹ اینڈ مانیٹرنگ انفارمیشن سسٹم بنانے پر دیا گیا۔
تصویر: Privat
ڈاکٹر تسنیم زہرہ حسین
ڈاکٹر تسنیم زہرہ حسین کو پاکستان کی پہلی خاتون اسٹرنگ تھیورسٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ کنیرڈ کالج لاہور سے فزکس میں گریجویشن کرنے والی ڈاکٹر تسنیم نے اسٹوخوم یونیورسٹی اٹلی سے پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹورل ہارورڈ یونیورسٹی سے محض 26 برس کی عمر میں کیا۔ وہ ’ورلڈ ایئر آف فزکس‘ کانفرنس جرمنی میں پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکی ہیں۔
تصویر: Privat
ڈاکٹر نرگس ماول والا
پاکستانی نژاد ڈاکٹر نرگس ماول والا ایم آئی ٹی کے سکول آف فلکی طبیعات کی ڈین ہیں۔ وہ سن 2015 میں لیگو ٹیم کی ساتھ ثقلی موجوں کی دریافت میں اہم کردار ادا کرنے کے باعث بین الااقوامی شہرت رکھتی ہیں ۔ جس سے تقریبا سو سال پرانے آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کی تصدیق ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ماول والا کی پیدائش لاہور اور ابتدائی تعلیم کراچی کی ہے ۔
تصویر: Privat
ہما ضیا فاران
ہما ضیا فاران کا شمار پاکستان کی ان چنیدہ خواتین میں ہوتا ہے جو اندرون ملک خاص طور پر دیہی علاقوں میں خواتین کی تعلیم کے لیے برسوں سے کوشاں ہیں۔ گزشتہ حکومت کے دور میں اقوام متحدہ کے تحت شروع کیے جانے والے پروگرام "الف اعلان" نے ہما کی سرکردگی میں چلنے والی تنظیم پاکستان الائنس فار میتھ اینڈ سائنس کے ساتھ کئی تعلیمی منصوبے کامیابی کے ساتھ مکمل کیے۔
تصویر: Privat
سعدیہ بشیر
سعدیہ بشیر پاکستانی کمپیوٹر سائنسدان اور گیم ڈیویلیپر ہیں۔ اس مقصد کے لئے انھوں نے پکسل آرٹ اکیڈیمی قائم کی جہاں پاکستان میں پہلی دفعہ کمپیوٹر گیمز کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ سعدیہ کو پہلی پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے جنھوں نے عالمی ڈیم ڈیویلیپر کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ وہ 'وومن انٹر پری نیور 'اور 'وومن کین ڈو 'سمیت کئی بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔
تصویر: Privat
صادقہ خان
صادقہ خان بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون سائنس جرنلسٹ ہیں جو اپنے ادارے سائنسیا پاکستان کے بینر تلے پاکستان میں سائنسی صحافت کی ترویج میں مسلسل کوشاں ہیں۔ وہ نیشنل سائنس ایوارڈ، برلن سائنس ویک جرنلزم گرانٹ اور آگاہی جرنلزم ایوارڈ حاصل کرچکی ہیں۔ انھیں' ایوری وومن ان ٹیکنالوجی ایوارڈ برطانیہ 'کے لئے بھی منتخب کیا گیا ہے۔
تصویر: Privat
ڈاکٹر آصفہ اختر
جرمنی میں مقیم پاکستانی نژاد ڈاکٹر آصفہ اختر جرمنی کے مشہور تحقیی ادارے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کی نائب صدر ہیں جنھیں حال ہی میں سن 2021 کے لائبنس انعام سے نوازا گیا ہے جسے جرمنی میں سائنسی تحقیق کا اعلیٰ ترین ایوارڈ سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر آصفہ مائیکرو بائیولوجی میں اپنی تحقیق کے باعث اس سے پہلے بھی بہت سے عالمی اعزازات حاصل کرچکی ہیں۔
تصویر: Privat
10 تصاویر1 | 10
اب اگر پاکستان کی بات کی جائے تو دیگر معاملات کی طرح خاندانی منصوبہ بندی کا معاملہ بھی کئی پیچیدگیوں کا شکار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں چیزیں کرنا نہیں پڑتیں اپنے آپ ہو جاتی ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی کو بھی یہاں کسی فعال پالیسی نے فروغ نہیں دیا۔
خواتین کی نس بندی پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کا سب سے عام اور سب سے لازم جزو بن گیا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک بڑی وجہ عوامی سہولت کے لیے مانع حمل اشیاء کی غیر مستقل فراہمی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین جو خاندانی منصوبہ بندی کی طرف جانے کی خواہش رکھتی ہیں، ان کو یا تو نجی ذرائع سے اشیاء کی تلاش کرنا ہوں گی یا پھر سہولیات کی عدم موجودگی کے باعث نس بندی کروانا ہوگی۔
دوسری وجہ یہ ہے ، چونکہ یہ ایک مستقل طریقہ ہے ایک بار نس بندی کے بعد خواتین اس وقت تک مانع حمل استعمال کرنے والوں میں شمار کی جاتی رہیں گی جب تک کہ وہ 49 سال کی عمر سے کم ہوں۔
پاکستان کے زیادہ تر ہسپتالوں اور کلینکوں میں اگر کوئی عورت نس بندی کے لیے اکیلی جاتی ہے تو ڈاکٹر اسے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہوتا کہ بعد میں ان کے شوہر کوئی پریشانی پیدا کریں گے جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا ہو گا۔
اس کے برعکس اگر کوئی مرد نس بندی کروانا چاہتا ہے تو اس کو اپنی بیوی کی رضامندی کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی لیکن ایسا کم ہی دیکھنے کو ملا ہے کہ مرد کی طرف سے نس بندی کا سوچا جائے۔ حالانکہ میڈیکل سائنس میں خاندانی منصوبہ بندی کی خاطر مرد کی نس بندی زیادہ آسان اور محفوظ طریقہ سمجھی جاتی ہے لیکن فرسودہ سماجی تصورات کا کیا کریں؟ جس میں مرد کی نس بندی کا مطلب مردانگی کا خاتمہ ہے۔
ان سب جوڑ توڑ کے بعد خاندان خاندانی منصوبہ بندی یا خواتین کی نس بندی کی طرف تب جاتی ہیں جب بچوں کا پہلے ہی ڈھیر لگ چکا ہوتا ہے۔ اوپر سے عورتیں اپنی طبعی عمر گزار چکی ہوتی ہیں۔
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق پاکستان میں خواتین کی نس بندی کی عموماً عمر 39 سال ہے۔ اس ڈھلتی عمر میں نس بندی کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس فیملی نے جو کرنا تھا وہ پہلے ہی کرچکی ہے۔ کرنے کو اب کچھ رہا نہیں تو سوچا کہ فارغ بیٹھ کر کیا کریں گے، نس بندی ہی کرا لیتے ہیں۔ اگر کسی نے کہہ دیا کہ ماشااللہ ماشااللہ کافی بچے ہیں آپ کے تو آگے سے کہہ دیں گی، بس جی وہ تو میں نے نس بندی کرالی ورنہ ۔۔۔
جہاں خاندانی منصوبہ بندی کے لیے وسائل بڑھانے کی ضرورت ہے وہیں مختلف ذرائع سے بیداری کی بھی بہت ضرورت ہے۔ اور معاشرے میں اس بنیادی شعور کا ہونا بھی لازمی ہے کہ ماں کی صحت یابی کے بغیر آپ صحت مند خواب نہیں دیکھ سکتے۔
عورت کس کس روپ ميں استحصال کا شکار
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين غلامی پر مجبور ہيں اور کئی صورتوں ميں خواتين کا استحصال جاری ہے۔ جبری مشقت، کم عمری ميں شادی، جنسی ہراسگی اور ديگر کئی جرائم سے سب سے زيادہ متاثرہ عورتيں ہی ہيں۔
تصویر: dapd
جدید غلامی کيا ہے؟
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور ميں غلامی ايسی صورت حال کو کہا جاتا ہے، جس ميں کسی کی ذاتی آزادی کو ختم کيا جائے اور جہاں کسی کے مالی فائدے کے ليے کسی دوسرے شخص کا استعمال کيا جائے۔
تصویر: Louisa Gouliamaki/AFP/Getty Images
تشدد، جبر، جنسی ہراسگی: جدید غلامی کے انداز
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين مختلف صورتوں ميں غلامی کر رہی ہيں۔ 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کی رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت، قرض کے بدلے کام، جبری شاديوں اور ديگر صورتوں ميں وسيع پيمانے پر عورتوں کا استحصال جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
جنسی استحصال آج بھی ايک بڑا مسئلہ
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کے مطابق موجودہ دور میں جنسی استحصال کے متاثرين ميں خواتين کا تناسب ننانوے فيصد ہے۔
تصویر: Sazzad Hossain/DW
جبری مشقت: مردوں کے مقابلے ميں عورتيں زيادہ متاثر
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن اور بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے تعاون سے اکھٹے کيے جانے والے 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کے اعداد کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت کے متاثرين ميں عورتوں کا تناسب چون فيصد ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
جبری شادیاں، لڑکيوں کے ليے بڑا مسئلہ
رپورٹ کے مطابق قرض کے بدلے یا جبری شاديوں کے متاثرين ميں خواتین کا تناسب چوراسی فيصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Bouys
نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے مہم
'واک فری‘ اور اقوام متحدہ کا 'ايوری وومين، ايوری چائلڈ‘ نامی پروگرام نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے ہے۔ اس مہم کے ذريعے جبری يا کم عمری ميں شادی کے رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو اب بھی 136 ممالک ميں قانوناً جائز ہے۔ يہ مہم کفالہ جيسے نظام کے خاتمے کی کوشش کرے گی، جس ميں ايک ملازم کو مالک سے جوڑ ديتا ہے۔