زندگی کے مالیکیول دیکھنے والوں کے لیے کیمیا کا نوبل انعام
عاطف توقیر
4 اکتوبر 2017
کریو الیکٹران مائیکرواسکوپی کے طریقہء کار کے ذریعے حیاتی مالیکیولوں کو قابل مشاہدہ بنانے والے محققین کے لیے کیمیا کے نوبل انعام کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ انعام اس طریقہ کار کے موجد تین سائنس دانوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
اشتہار
رائل سویڈش اکیڈمی کی جانب سے بدھ کے روز نوبل انعام برائے کیمیا کا اعلان کرتے ہوئے زندہ مادے کے مالیکیوں کو قابل مشاہدہ بنانے والے ان سائنس دانوں کو خراج تحسین بھی پیش کیا گیا ہے۔
یہ ایورڈ سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے 75 سالہ جیک ڈوبوشے، جو امریکی یونیورسٹی آف لوزیانہ میں بائیوفزکس (حیاتی طبیعات) کے اعزازی پروفیسر کے بہ طور کام کرتے ہیں، برطانوی سائنس دان 72 سالہ رچرڈ ہنڈرسن، جو کیمبرج کی ایم آر سی لیبارٹری برائے مالیکیولر بائیولوجی کے پروگرام کے سربراہ ہیں اور 77 سالہ ژوآخم فرانک، جو جرمن نژاد امریکی شہری ہیں اور اس وقت نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں بائیو کیمسٹری (حیاتی کیمیا) اور مالیکیولر سائنسز کے پروفیسر ہیں، کے نام رہا۔
ٹیکنالوجی، جس کی ایجاد پر انہیں نوبل انعام دیا گیا، انسانی آنکھ سے اوجھل حیاتی مالیکیولوں کو جوہری سطح پر غیرمعمولی تفصیل سے دِکھا سکتی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی دیگر بہت سے مقاصد کے علاوہ ادویات سازی کے شعبے میں غیرمعمولی انداز سے استعمال کی جا رہی ہے۔
نوبل پرائز جیتنے والے معروف ادیب
نئے ہزاریے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ادباء میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔ ان میں آسٹریا کی طنز نگار کے علاوہ اولین ترک ادیب اور چینی مصنف بھی شامل ہیں
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
امریکی گیت نگار بوب ڈلن
امریکی گیت نگار اور ادیب بوب ڈلن کو رواں برس کے نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی گیت نگار کو ادب کا یہ اعلیٰ ترین انعام دیا گیا ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، اداکار اور مصنف ہونے کے علاوہ ساز نواز بھی ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری کے جوہری بھی دکھائے ہیں۔
تصویر: Reuters/K.Price
2015: سویٹلانا الیکسیوچ
نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے بیلا روس کی مصنفہ سویٹلانا الیکسیوچ کو ادب نگاری کے ایک نئے عہد کا سرخیل قرار دیا۔ کمیٹی کے مطابق الیکسیوچ نے اپنے مضامین اور رپورٹوں کے لیے ایک نیا اسلوب متعارف کرایا اورانہوں نے مختلف انٹرویوز اور رپورٹوں کو روزمرہ کی جذباتیت سے نوازا ہے۔
تصویر: Imago/gezett
2014: پیٹرک موڈیانو
جنگ، محبت، روزگار اور موت جیسے موضوعات کو فرانسیسی ادیب پیٹرک موڈیانو نے اپنے تحریروں میں سمویا ہے۔ نوبل کمیٹی کے مطابق انہوں نے اپنے ناآسودہ بچین کی جنگ سے عبارت یادوں کی تسلی و تشفی کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا اور یادوں کو الفاظ کا روپ دینے کا یہ منفرد انداز ہے۔
تین برس قبل کینیڈا کی ادیبہ ایلس مُنرو کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے اُن کو عصری ادب کی ممتاز ترین ادیبہ قرار دیا۔ مُنرو سے قبل کے ادیبوں نے ادب کی معروف اصناف کو اپنی تحریروں کے لیے استعمال کیا تھا لیکن وہ منفرد ہیں۔
تصویر: PETER MUHLY/AFP/Getty Images
2012: مو یان
چینی ادیب گوان موئے کا قلمی نام مو یان ہے۔ انہیں چینی زبان کا کافکا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق مو یان نے اپنی تحریروں میں حقیقت کے قریب تر فریبِ خیال کو رومان پرور داستان کے انداز میں بیان کیا ہے۔ چینی ادیب کی کمیونسٹ حکومت سے قربت کی وجہ سے چینی آرٹسٹ ائی وی وی نے اِس فیصلے پر تنقید کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2011: ٹوماس ٹرانسٹرُومر
سویڈش شاعر ٹرانسٹرُومر کے لیے ادب کے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ اُن کی شاعری کے مطالعے کے دوران الفاظ میں مخفی جگمگاتے مناظر بتدریج حقیقت نگاری کا عکس بن جاتے ہیں۔ ٹوماس گوسٹا ٹرانسٹرُومر کی شاعری ساٹھ سے زائد زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔
تصویر: Fredrik Sandberg/AFP/Getty Images
2010: ماریو ورگاس یوسا
پیرو سے تعلق رکھنے والے ہسپانوی زبان کے ادیب ماریو ورگاس یوسا کو اقتدار کے ڈھانچے کی پرزور منظر کشی اور انفرادی سطح پر مزاحمت، بغاوت و شکست سے دوچار ہونے والے افراد کی شاندار کردار نگاری پر ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے لاطینی امریکا کے کئی حقیقی واقعات کو اپنے ناولوں میں سمویا ہے۔ میکسیکو کی آمریت پر مبنی اُن کی تخلیق کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: AP
2009: ہیرتا مؤلر
نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق ہیرتا مؤلر نے اپنی شاعری اور نثری فن پاروں میں بے گھر افراد کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ ایسے افراد کے درد کا اظہار ہے۔ جیوری کے مطابق جرمن زبان میں لکھنے والی مصنفہ نے رومانیہ کے ڈکٹیٹر چاؤشیسکو کو زوردار انداز میں ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ اُن کا ایک ناول Atemschaukel کا پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Getty Images
2008: ژان ماری گستاو لاکلیزیو
فرانسیسی نژاد ماریشسی مصنف اور پروفیسر لا کلیزیو چالیس سے زائد کتب کے خالق ہے۔ ان کی تخلیقات کے بارے میں انعام دینے والی کمیٹی نے بیان کیا کہ وہ اپنی تحریروں کو جذباتی انبساط اور شاعرانہ مہم جوئی سے سجانے کے ماہر ہیں۔ بحر ہند میں واقع جزیرے ماریشس کو وہ اپنا چھوٹا سا وطن قرار دیتے ہیں۔ اُن کی والدہ ماریشس اور والد فرانس سے تعلق رکھتے ہیں۔
تصویر: AP
2007: ڈورس لیسنگ
چورانوے برس کی عمر میں رحلت پا جانے والی برطانوی ادیبہ ڈورس لیسنگ نے بے شمار ناول، افسانے اور کہانیاں لکھی ہیں۔ سویڈش اکیڈمی کے مطابق خاتون کہانی کار کے انداز میں جذباتیت اور تخیلاتی قوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کا شمار نسلی تعصب رکھنے والی جنوبی افریقی حکومت کے شدید مخالفین میں ہوتا تھا۔
تصویر: AP
2006: اورہان پاموک
اورہان پاموک جدید ترکی کے صفِ اول کے مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے لکھے ہوئے ناول تریسٹھ زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو چکے ہیں۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ اپنے آبائی شہر (استنبول) کی اداس روح کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو انتشار کی کیفیت میں کثیر الثقافتی بوجھ برادشت کیے ہوئے ہے۔ دنیا بھر میں وہ ترکی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2005: ہیرالڈ پِنٹر
برطانوی ڈرامہ نگار ہیرالڈ پِنٹر نوبل انعام ملنے کے تین برسوں بعد پھیھڑے کے کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ ایک صاحب طرز ڈرامہ نگار تھے۔ ان کے کردار جدید عہد میں پائے جانے والے جبر کا استعارہ تھے اور وہ بطور مصنف اپنے اُن کرداروں کو ماحول کے جبر سے نجات دلانے کی کوشش میں مصروف رہے۔ وہ بیک وقت اداکار، مصنف اور شاعر بھی تھے۔
تصویر: Getty Images
2004: الفریڈے ژیلینک
آسٹرین ناول نگار الفریڈے ژیلینک کو نوبل انعام دینے کی وجہ اُن کے ناولوں اور ڈراموں میں پائی جانے والی فطری نغمگی ہے جو روایت سے ہٹ کر ہے۔ ژیلینک کے نثرپاروں میں خواتین کی جنسی رویے کی اٹھان خاص طور پر غیرمعمولی ہے۔ اُن کے ناول ’کلاویئر اشپیلرن‘ یا پیانو بجانے والی عورت کو انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس نوبل پر فلم بھی بنائی جا چکی ہے۔
تصویر: AP
2003: جان میکسویل کُوٹزی
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ناول نگار، انشا پرداز اور ماہرِ لسانیات جان میکسویل کُوٹزی کے نثرپاروں میں انتہائی وسیع منظر نگاری اور خیال افرینی ہے۔ کوئٹزے نوبل انعام حاصل کرنے سے قبل دو مرتبہ معتبر مان بکرز پرائز سے بھی نوازے جا چکے تھے۔ ان کا مشہر ناول ’شیم‘ نسلی تعصب کی پالیسی کے بعد کے حالات و واقعات پر مبنی ہے۔
تصویر: Getty Images
2002: اِمرے کارتیس
ہنگری کے یہودی النسل ادیب اصمرے کارتیس نازی دور کے اذیتی مرکز آؤشوٍٹس سے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اِس اذیتی مرکز پر منڈھلاتی موت کے سائے میں زندگی کے انتہائی کمزور لمحوں میں جو تجربہ حاصل کیا تھا، اسے عام پڑھنے والے کے لیے پیش کیا ہے۔ ان کا اس تناظر میں تحریری کام تیرہ برسوں پر محیط ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Lundahl
2001: شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال
کیریبیئن ملک ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سے تعلق رکھنے والے شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال ایک صاحب طرز ادیب ہیں۔ انہوں نے مشکل مضامین کو بیان کرنے میں جس حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اُن کا خاصا ہے۔ اُن کے موضوعات میں سماج کے اندر دم توڑتی انفرادی آزادی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
16 تصاویر1 | 16
نوبل کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، ’’بائیوکیمیکل نقشے دستیاب ٹیکنالوجی میں خلا کی وجہ سے مالیکیولر سطح پر حیاتی مادے کی تفصیل بتانے سے قاصر تھے، مگر کریو الیکٹران مائیکروسکوپی نے یہ تمام مسائل حل کر دیے۔ ہم بائیو کیمسٹری کے شعبے میں اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے ایک انقلاب دیکھ رہے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ کریو الیکٹران مائیکروسکوپی ہی کو حال ہی میں زیکا وائرس سے متاثر مالیکیولوں کے مطالعے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ اس وائرس کے شکار نوزائیدہ بچوں کے سر غیرمعمولی طور پر چھوٹے ہوتے ہیں۔
نوبل امن انعام حاصل کرنے والی شخصیات اور ادارے
امن کا نوبل انعام سن 1901ء سے ہر سال 10 دسمبر کو باقاعدہ طور پر دیا جاتا ہے۔ اب تک 101 افراد اور 24 اداروں کو اس اعلیٰ اعزاز سے نوازا جا چکا ہے۔ ان میں سے چند کی تفصیلات یہاں دی جا رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images
:2013 کیمیائی ہتھیاروں کے بغیر پر امن دنیا
سال 2013ء کے لیے امن کا نوبل انعام کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے عالمی ادارے ’آرگنائزیشن فار پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز‘ OPCW کو دیا گیا ہے۔ یہ ادارہ کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق 1997ء میں منظور ہونے والے عالمی کنونشن کے تحت دنیا بھر میں کیمیائی ہتھیاروں کی صورتحال پر نظر رکھتا ہے۔ رواں برس اکتوبر میں اس ادارے کو شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کا کام سونپا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
:2012 یورپی یونین
سال 2012ء کا نوبل انعام ’چھ دہائیوں سے بھی زائد عرصے سے یورپ میں ترقی، امن، مصالحت، جمہوریت اور انسانی حقوق کو فروغ دینے پر‘ یورپی یونین کو دیا گیا تھا۔ یورپی پارلیمنٹ کے اسپیکر مارٹن شُلز نے اس اعزاز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا: ’’یورپی یونین دراصل مصالحت ہی کا نام ہے۔ یورپی یونین ایسا منفرد پراجیکٹ ہے جس نے جنگ کو امن میں اور نفرت کو یکجہتی میں بدل دیا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa
:2011 توکل کرمان، ایلن جانسن اور لائما گبووی
سال 2011ء کے لیے نوبل انعام برائے امن لائبیریا اور یمن سے تعلق رکھنے والی تین خواتین کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ان میں لائبیریا کی خاتون صدر ایلن جانسن سرلیف Ellen Johnson-Sirleaf اور لائبیریا ہی کی امن کے لیے سرگرم خاتون شہری لائما گبووی Leymah Gbowee کے علاوہ خواتین کے حقوق کے لیے مثالی کوششیں کرنے والی یمنی خاتون توکل کرمان شامل تھیں۔
تصویر: dapd
2010: لیو ژیاؤبو
چینی مصنف لیو ژیاؤبو کو سال 2010 کا نوبل انعام برائے امن دیا گیا تھا۔ جمہوریت نواز ژیاؤبو اس وقت چین میں 11 برس قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
2009: باراک اوباما
امریکی صدر باراک اوباما کو امن کا نوبل انعام دسمبر 2009 میں اس وقت دیا گیا، جب انہیں عہدہ صدارت سنبھالے ابھی ایک برس بھی نہیں ہوا تھا۔ بعض نقادوں کی طرف سے اس پر تنقید بھی کی گئی کہ انہیں ایسے اقدامات کے لیے یہ انعام پیشگی طور پر دے دیا گیا، جو انہیں ابھی کرنا تھے۔
تصویر: AP
2008 مارتی اَہتِساری
فن لینڈ کے سیاستدان اور 1994ء سے 2000ء تک ملک کے صدر رہنے والے مارتی اہتساری کو عالمی سطح پر سفارت کاری اور مصالحت کاری کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ نوبل کمیٹی نے ’’مختلف براعظموں میں تین دہائیوں سے بھی زائد عرصے تک بین الاقوامی تنازعات کو حل کرانے کے سلسلے میں ان کی کوششوں پر‘‘ انہیں 2008ء کا نوبل انعام دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
2007: ایل گور
سابق امریکی نائب صدر ایل گور اور ’انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج‘ کے چیئرمین ڈاکٹر راجندر کے پاچوری کومشترکہ طور پر سال 2007 کا نوبل انعام برائے امن دیا گیا۔ انہیں یہ اعزاز تحفظ ماحول کے لیے ان کی کوششوں کے صلے میں ملا تھا۔
تصویر: AP
2006: محمد یونس
سال 2006ء کے نوبل انعام برائے امن سے معروف بنگلہ دیشی ماہر معاشیات اور ’غربا کے بینکر‘ محمد یونس اور ان کے قائم کردہ ’گرامین بینک‘ کو نوازا گیا۔ ان کے بینک نے کئی ملین غریب افراد کو انتہائی آسان شرائط پر قرضے دیے، جن سے ان کا معیار زندگی بہتر ہوا۔
تصویر: AP
2005: IAEA
2005ء کا نوبل امن انعام جوہری توانائی کے عالمی ادارے IAEA کو دیا گیا تھا۔ اس ادارے کو یہ اعزاز جوہری توانائی کو فوجی مقاصد کے استعمال سے روکنے کے لیے اس کے کردار کو سراہتے ہوئے دیا گیا۔ اُس وقت انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ، مصر سے تعلق رکھنے والے محمد البرادعی نے یہ اعزاز وصول کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
2004: ونگاری ماتھائے
ونگاری ماتھائے پہلی افریقی خاتون ہیں، جنہیں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ کینیا کی پروفیسر اور سائنسدان ماتھائے کو یہ انعام پائیدار ترقی، جمہوریت اور امن کے لیے ان کی کوششوں پر دیا گیا، جو انہوں نے اپنی ’گرین بیلٹ موومنٹ‘ نامی تنظیم کے ذریعے کیں۔ یہ تنظیم 1977 میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائی گئی تھی۔ ماتھائے کا انتقال 25 ستمبر 2011 کو ہوا۔
تصویر: AP
2003: شیریں عبادی
ایرانی وکیل شیریں عبادی پہلی مسلمان اور ایرانی خاتون ہیں جنہیں نوبل انعام برائے امن دیا گیا۔ عبادی کو اس اعزاز سے جمہوریت اور انسانی حقوق کے علاوہ امن کے لیے ان کی غیر معمولی کوششوں پر نوازا گیا تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images
2001: کوفی عنان اور اقوام متحدہ
بارہ سال قبل امن کا نوبل انعام اقوام متحدہ کے اداروں کو دیا گیا۔ جنرل اسمبلی کے صدر اس وقت جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ ہان سیونگ سُو تھے جبکہ اقوام متحدہ کی سربراہی اس وقت سکریٹری جنرل کوفی عنان کے ہاتھوں میں تھی۔
تصویر: AP
1994: عرفات، پیریز اور رابین
1993ء میں پی ایل او کے چیئرمین یاسر عرفات نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا جس کا نتیجہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے ان فریقین کے ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی صورت میں نکلا۔ 1994ء میں یاسر عرفات کو اسرائیلی وزیر اعظم یٹساک رابین اور وزیر خارجہ شیمعون پیریز کے ساتھ مشترکہ طور پر نوبل انعام برائے امن دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
1993: منڈیلا، ڈی کلارک
جنوبی افریقہ کے صدر کی حیثیت سے فریڈرک ڈی کلارک نے ملک میں جاری نسلی امتیاز پر مبنی قوانین ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نسلی امتیاز کے دور میں افریقی نیشنل کانگریس نامی پارٹی کے سربراہ نیلسن منڈیلا نے 27 برس جیل میں گزارے۔ ان دونوں افراد کو جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خاتمے کی کوششوں کے لیے نوبل انعام برائے امن سے نوازا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
1991: اونگ سان سوچی
اونگ سان سوچی 1980ء کی دہائی کے آخر سے اپنے وطن میانمار یا سابقہ برما میں جمہوریت کے لیے پرامن جدوجہد کر رہی ہیں۔ سوچی کو 1991ء میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔
تصویر: Getty Images
15 تصاویر1 | 15
نوبل انعام برائے کیمیا اس بار دیا جانے والا تیسرا نوبل انعام ہے۔ اس سے قبل پیر کے روز طب کا نوبل انعام بائیوکلاک (حیاتی گھڑی) کے افعال اور اثرات پر تحقیق کرنے والے ماہرین حیاتیات کو دیا گیا تھا۔ منگل کو نوبل انعام برائے طبعیات کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ انعام سن 2015ء میں گریویٹیشنل ویوز (تجاذبی موجوں) کے براہ راست مشاہدہ پر دیا گیا۔ آئن اسٹائن نے سن 1915ء میں اپنے نظریہ اضافیت میں ان موجوں کی پیش گوئی کی تھی، تاہم اس کے سو برس بعد ان موجوں کو براہ راست ریکارڈ کیا جا سکا۔ ایک اعشاریہ تین ارب نوری سال کی دوری پر دو بلیک ہولز کے ٹکراؤ کی وجہ سے پیدا ہونے والی ان موجوں کا مشاہدہ لیگو (لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری) کے تحقیقی پراجیکٹ کے ذریعے کیا گیا تھا، جسے علم طبعیات میں ایک نئے باب کے اضافے سے تعیبر کیا جا رہا ہے۔