1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زوال کا المیہ

5 جنوری 2025

تاریخ میں کسی بھی قوم کو ہمیشہ عروج حاصل نہیں رہا۔ زوال کا شکار ہونے پر اکثراقوام چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئیں۔ ماضی میں ایسا بھی ہوا ہے کہ بعض واقعات میں زوال شدہ قوم کی تاریخ ہی مٹ گئی۔

تصویر: privat

اِس مضمون میں ہم تین سلطنتوں کا ذِکر کریں گے۔ جو عروج و زوال کے مرحلوں سے گزریں اور تاریخ میں اپنے نشانات چھوڑ گئیں۔ پہلی رومی سلطنت تھی، جس کی بنیاد فوجی طاقت پر تھی۔ ان کی فتوحات کا سلسلہ نہ ختم ہونے والا تھا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت بے حد وسیع ہو گئی، جس کے انتظامات کے لیے مشکلات پیش آنے لگیں۔ فوج میں مفتوحہ قوموں کے فوجی بھی شریک ہو گئے، جس کی وجہ سے فوجی اتحاد اور جنگی حربوں میں تبدیلی آئی۔

 دوسری جانب جو مفتوحہ علاقوں میں رومی عہدیداروں نے رقم اکھٹی کرنی شروع کی۔ اُن کے ذرائع کی لوٹ مار کی اور روزمرّہ کی زندگی میں اُن کے ساتھ حقارت کا سلوک کیا تو مقبوضہ علاقوں میں بغاوتیں شروع ہو گئیں۔ جب ہر طرف بغاوت کی خبر مِلی تو رومی حکمراں طبقہ اِن کو ختم کرنے میں ناکام ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 410ء عیسوی میں جرمن قبائل نے روم پر قبضہ کر لیا۔

ابتدائی دور میں رومی سلطنت دو حصّوں میں بٹ گئی تھی۔ مغربی اور مشرقی۔ جب مغربی سلطنت کا زوال ہوا تو اس کے نتیجہ میں یورپ میں فیوڈل لاڈز نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنائیں۔ اس تقسیم نے یورپ کے اتحاد کو ختم کر دیا۔ فیوڈل لاڈز اپنے قلعہ میں رہتے تھے، جہاں ان کی اپنی فوج ہوتی تھی۔ فیوڈل لاڈز آپس میں جنگیں بھی کرتے تھے جس کی وجہ سے دیہاتوں اور قصبوں میں فوجیں لوٹ مار کرتیں تھیں اور ایک عام آدمی کے لیے پُراَمن زندگی گزارنا مشکل تھا۔

عہدِ وسطی کےاس دور میں حکمرانوں کی سیاسی طاقت انتشار کا شکار ہوئی۔ جبکہ چرچ ایک طاقتور ادارے کی شکل میں اُبھرا۔ معاشرہ سخت مذہبی ہو گیا۔ یورپ کے حکمراں پوپ کے ماتحت ہو گئے اور یورپی معاشرہ پسماندہ ہوتا چلا گیا۔ رومی سلطنت کے زوال نے یورپ کو تہذیبی طور بھی پسماندہ کر دیا تھا۔

زوال کی دوسری تاریخ کی مثال منگول سلطنت ہے، جسے چنگیز خان (وفات۔1227ء) نے قائم کر کے فوجی قوت کے سہارے وسعت دی۔ اس کے بعد اس کے جانشین قُبلائی خان (وفات۔1294ء) نے چین میں اپنی حکومت قائم کی۔ ہلاکوخان (وفات۔1265ء) وسطِ ایشیا میں قتل و غارت گری کرتے ہوئے اسماعیلیوں کے قلعے ''الموت‘‘ پہنچا۔ یہاں اُس نے اُن کی لائبریری کو جلایا۔ وہاں سے بغداد آیا اور 1256ء میں خلیفہ کو قتل کر کے بیت الحکمت کی لائبریری جلا کر شہریوں کا قتلِ عام کیا۔

مَنگولوں کا اُس وقت عروج ہوا جب اُنہوں نے مشرقی یورپ میں فتوحات کیں اور روس کے حکمرانوں کو شکست دے کر اپنی حکومت اور رہائش کے لیے ایک بڑا خیمہ لگایا جو ''گولڈن ہورڈ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہاں سے منگول سردار روسی ریاستوں پر حکومت کرتے تھے اور روسی حکمراں انہیں خراج دینے کے لیے گولڈن ہورڈ آتے تھے۔

دوسری سلطنتوں کی طرح منگول بھی آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہوئے۔ مِنگ خان نے انہیں چین سے نکال دیا۔ روسی شہزادوں نے مِل کر 1380ء میں گولڈن ہورڈ کو شکست دے کر مَنگول اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔

اس کے بعد منگولوں کا اقتدار ایران میں رہا جہاں یہ ''اِلحانی‘‘ کہلاتے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے اور اپنے آبائی وطن منگولیہ تک محدود ہو کر رہ گئے تھے اگرچہ منگولوں نے فتوحات تو بہت کیں مگر تہذیب اور کلچر میں کچھ پیدا نہیں کیا۔ جب اِن کی سلطنت کا خاتمہ ہوا تو انہوں نے فتوحات اور لوگوں کا قتلِ عام کا ہی ورثہ چھوڑا تھا۔

تیسری سلطنت جس کا ہم ذکر کرنا چاہیں گے وہ ہندوستان میں مُغلوں کی تھی۔ اِنہوں نے تقریباً ہندوستان کے بڑے حصّے پر اپنا اقتدار قائم کر لیا تھا۔ لیکن اِن کی سلطنت کی کمزوری کا اظہار اُس وقت ہوا جب 1707ء میں اورنگزیب کی وفات ہوئی۔ کیونکہ مغلوں میں جانشینی کا کوئی قانون نہیں تھا۔ اس لیے ہر شہنشاہ کی وفات کے بعد جانشینوں میں خانہ جنگی ہوتی تھی۔ اِن مسلسل خانہ جنگیوں نے سیاسی استحکام کو ختم کیا۔ ٹیکسوں کی آمدنی کم ہو گئی۔ اس کی وجہ سے حکمراں طبقے کو معاشی مُشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب انتظامی حالات خراب ہوئے تو سب سے زیادہ مُتاثر ہونے والے عام لوگ تھے، جو بھُوک اور اَفلاس میں مُبتلا تھے۔

سلطنت کی کمزوری کی وجہ سے مرہٹوں، جاٹوں، سِکھّوں اور روحیلہ پٹھانوں نے بغاوتیں کر دیں۔ مُغل شہنشاہ کے پاس نہ فوج تھی اور نہ سرمایہ کہ اِن بغاوتوں کا خاتمہ کرتا۔ اِسی دوران 1757ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے پلاسی کی جنگ میں فتح یاب ہو کر اپنی سیاسی طاقت مضبوط کی۔ 1764ء میں مُغل شہنشاہ نے کمپنی کو بنگال اور اڑیسہ میں ٹیکس اکٹھا کرنے کا حق دیا۔ اس کے بعد مُغل شہنشاہ کبھی مَرہٹوں کا وظیفہ خوار رہا اور کبھی انگریزوں کا۔

لہٰذا جب مُغل سلطنت زوال کا شکار ہوئی تو یہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گئی۔ اودھ، مرشد آباد اور دَکن کی ریاستیں تو بڑی تھیں مگر چھوٹی چھوٹی ریاستیں پورے مُلک میں پھیلی ہوئی تھیں۔ زوال نے ہندوستان کے اتحاد کو ختم کر دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کمپنی کو ہندوستان میں مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔

اس تناظر میں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا موجودہ دور میں بھی اگر بڑے ممالک زوال کا شکار ہوں تو کیا وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتے ہیں؟

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں