زچگی کے دوران اموات کے حیرت انگیز اعداد و شمار
12 جنوری 20242020 ء میں تقریباً 3 لاکھ خواتین حمل یا بچے کی پیدائش کے دوران ہلاک ہوئیں۔ اس میں امریکہ بھی شامل ہے، جہاں زچگی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن بھارت کا ایم ایم آر نامی یہ انڈیکس نیچے ہے۔
حمل سے زیادہ تر مراد نئی زندگی لی جاتی ہے اور ہر بار یہ زندگی کا ایک منفرد تجربہ ہوتا ہے لیکن بہت ساری صورتوں میں حمل کا مطلب موت بھی ہے۔
فروری 2023 ء کے آخر میں، اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں زچگی کی شرح اموات پر ایک نئی رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کس طرح ہر دو منٹ میں ایک عورت بچے کی پیدائش یا حمل کے دوران پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادھانوم گیبریئسس نے ایک بیان میں کہا، '' افسوسناک بات یہ کہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے لیے زچگی ایک خطرناک تجربہ ہوتا ہے۔‘‘
خوفناک اعداد و شمار
اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کے مطابق سال دوہزار میں، عالمی سطح پر زچگی کے دوران شرح اموات یعنی ایم ایم آر 339 رہی۔ ہر ایک لاکھ خواتین میں سے 339 خواتین زچگی میں موت کے منہ میں چلی گئیں۔
بھارت کی ریاست کیرالہ میں ''میٹرنل مورٹیلیٹی ریٹ‘‘ ایم ایم آر محض 19 ریکارڈ کیا گیا جو پورے ملک میں سب سے کم اور یہاں تک کہ امریکہ سے بھی کم ہے۔
2020 ء میں، عالمی ایم ایم آر 223 تھا۔ تب بھی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا دنیا بھر کے بیشتر ممالک ان 20 سالوں میں اپنے ہاں زچگی کی شرح اموات (MMR) کو نمایاں طور پر کم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال دوہزار اور 2015 ء کے درمیان اس بابت معمولی کمی واقع ہوئی تھی لیکن 2016 ء کے بعد عالمی سطح پر زچگی کی شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے جو ناقابل قبول ہے۔ WHO کی ایک سائنسدان اور اس تازہ رپورٹ کی شریک مصنف جینی کریس ویل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' پائیدار ترقی کا ہدف سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ گولز 2030 کے لیے ہدف یہ عالمی سطح پر فی ایک لاکھ زندہ پیدائش کے دوارن خواتین کی اموات کو 70 تک لانا ہے۔ ہم فی الحال اس ہدف کو پورا کرنے سے بہت دور ہیں۔‘‘
امریکہ میں مسائل کیا ہیں؟
دراصل یہ بتانا آسان نہیں ہے کہ امریکہ میں ایم ایم آر ریٹ کیوں بڑھ رہا ہے۔ کامن ویلتھ فنڈ، ایک فاؤنڈیشن ہے جو امریکہ میں صحت کی دیکھ بھال کے مسائل پر آزادانہ تحقیق کی حمایت کرتی ہے۔ اس کی ایک محقق منیرا گُنجا، کہتی ہیں کہ بہت سے عوامل اس صورت حال کا سبب بننے میں شامل ہیں بشمول ''صحت کی بہت سی بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی۔‘‘
پھر یہ حقیقت ہے کہ بہت سے امریکیوں کے پاس ہیلتھ انشورنس نہیں ہے اور وہ اپنے ڈاکٹر کے پاس جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ صحت کی خدمات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور دائیوں کی کمی ہے جو حمل کے دوران لوگوں کی مدد کر سکیں۔
نسل پرستی بھی ایک مسئلہ
سیاہ فام امریکیوں میں سفید امریکیوں کے مقابلے ایم ایم آر تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔
گُنجا کا کہنا ہے کہ یہ واضح فرق معاشرے میں اندر تک پھیلی نسل پرستی کی وجہ سے بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں،''سیاہ فام امریکی شروع سے ہی نقصان میں ہیں۔ ان کی رہائش، ان کی تعلیم کی سطح، ان کی ملازمتیں اور تنخواہ اور یہاں تک کہ ڈاکٹر سے بھی اکثر براہ راست انہیں نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
منیرا گُنجا نے کہا کہ اگر امریکہ میں زیادہ فعال دائیاں ہوں گی تو اس سے بڑا فرق پڑے گا۔ دائیاں حاملہ خواتین کے ساتھ ایک قریبی ربط قائم کر سکتی ہیں، گھر میں ان کی دیکھ بھال کر سکتی ہیں اور بعد از پیدائش کی مدت کے دوران بھی معائنہ کر سکتی ہیں ۔ کیونکہ یہی وہ مدت ہوتی ہے جس کے دوران امریکہ میں زچگی کی تمام اموات کے نصف واقعات رونماں ہوتے ہیں۔
(کارلا بلائیکر) ک م/ ع ت