زہران ممدانی نیویارک کے میئر منتخب
5 نومبر 2025
نیویارک کے میئر کے انتخاب میں کامیابی کے ساتھ ہی ڈیموکریٹک سوشلسٹ رہنما زہران کوامی ممدانی نے تاریخ میں اپنا نام درج کرا لیا۔ وہ اس شہر کے پہلے مسلمان میئر، پہلے جنوبی ایشیائی نژاد میئر، اور پہلے افریقہ میں پیدا ہونے والے میئر کے ساتھ ہی یکم جنوری کو عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک صدی سے زیادہ عرصے میں نیویارک کے سب سے کم عمر میئر بن جائیں گے۔
انہوں نے صدر ٹرمپ کے حمایت یافتہ امیدوار کرٹس سلیوا کو شکست دی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ارب پتی ایلون مسک نے ممدانی کی شدید مخالفت کی تھی۔
ممدانی کا بیان
نیویارک کے نومنتخب میئر نے کہا کہ ان کی فیصلہ کن فتح اس بات کی علامت ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کیسے شکست دی جا سکتی ہے، وہی ٹرمپ جو اس نوجوان مسلمان کی ڈیموکریٹک سوشلسٹ پالیسیوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔
ممدانی نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی قوم کو یہ دکھا سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس ملک سے غداری کی، اسے کیسے شکست دی جائے، تو وہ انتخابات کے نتائج کو دیکھ سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ''اس سیاسی تاریکی کے دور میں، نیویارک روشنی بنے گا۔‘‘
انہوں نے کہا، "نیویارک، آج رات تم نے تبدیلی کا مینڈیٹ دیا ہے۔ میں ہر صبح ایک ہی مقصد کے ساتھ جاگوں گا، اس شہر کو کل سے بہتر بنانا۔‘‘
ممدانی نے اپنے حامیوں کے زبردست نعروں کے درمیان کہا، ''روایتی سوچ کے مطابق میں ایک مکمل امیدوار نہیں ہوں۔ میں نوجوان ہوں، باوجود اس کے کہ میں خود کو بڑا ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ میں مسلمان ہوں۔ میں ڈیموکریٹک سوشلسٹ ہوں۔ اور سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ میں ان میں سے کسی بات پر معذرت خواہ نہیں ہوں!‘‘
انہوں نے اپنی جیت کو مزدور طبقے کی فتح قرار دیا، وہ لوگ جو روزی کمانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
ممدانی کو درپیش چیلنجز
ممدانی کے غیر متوقع عروج نے ان ڈیموکریٹس کے مؤقف کو تقویت دی ہے جو پارٹی سے مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ وہ درمیانی راستہ اختیار کرنے کے بجائے زیادہ ترقی پسند اور بائیں بازو کے امیدواروں کو اپنائے۔
دوسری جانب، قومی سطح پر ریپبلکن رہنماؤں، بشمول صدر ڈونلڈ ٹرمپ، نے ممدانی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے، انہیں "انتہائی نظریات والے" ڈیموکریٹک چہرہ قرار دیا جو ان کے بقول امریکہ کی مرکزی دھارے سے ہٹ چکے ہیں۔
ٹرمپ نے بارہا دھمکی دی تھی کہ اگر ممدانی جیت گئے تو وہ نیویارک شہر کے وفاقی فنڈز بند کر دیں گے، حتیٰ کہ شہر کا انتظام خود سنبھالنے تک کی بات کہی۔
ممدانی کو اب ٹرمپ سے براہ راست نمٹنا پڑے گا، جنہوں نے نہ صرف انتقامی کارروائی کی دھمکی دی بلکہ یہاں تک کہا تھا کہ اگر وہ جیت گئے تو وہ ممدانی کو "گرفتار اور ملک بدر" کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
اپنی تقریر میں بھارتی نژاد والدین کے بیٹے ممدانی نے ٹرمپ کو براہِ راست مخاطب کیا: ''نیویارک ہمیشہ تارکینِ وطن کا شہر رہے گا، ایک ایسا شہر جو تارکینِ وطن نے بنایا، ان ہی کی محنت سے چلتا ہے، اور آج رات سے، انہی میں سے ایک کی قیادت میں ہو گا۔‘‘
انہوں نے دوبارہ کہا، ''اگر کوئی قوم کو دکھا سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کو کیسے شکست دی جائے، تو وہ وہی شہر ہے جس نے اسے پیدا کیا۔‘‘
صدر ٹرمپ نے بعد میں اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر مختصر تبصرہ کیا، '' تو اس کا آغاز ہوتا ہے ۔۔۔ ‘‘
زہران ممدانی کون ہیں؟
چونتیس سالہ زہران ممدانی نے نیویارک سٹی کے میئر کا الیکشن جیت کر ایک غیر معروف ریاستی قانون ساز سے ملک کی نمایاں ڈیموکریٹک شخصیات میں سے ایک بننے تک کا غیر معمولی سفر مکمل کیا ہے۔
جون میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری میں حیرت انگیز فتح کے بعد سے ہی، نیویارک کے لوگ ٹیلی ویژن پر ممدانی کی داڑھی والے مسکراتے چہرے کو دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔
زہران یوگینڈا میں ایک انڈین نژاد خاندان میں پیدا ہوئے اور وہ سات سال کی عمر سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ 2018 میں انہیں امریکی شہریت ملی تھی۔
ان کی والدہ میرا نائر بھارتی ریاست اوڈیشا کے شہر راؤرکیلا سے تعلق رکھنے والی ہندو فلم ساز ہیں، جبکہ ان کے والد پروفیسر محمود ممدانی ایک یوگنڈین نژاد بھارتی نژاد اسکالر ہیں۔
ممدانی نے ایلیٹ برونکس ہائی اسکول آف سائنس اور اس کے بعد مائن میں بوڈوئن کالج میں تعلیم حاصل کی، جسے ترقی پسند سوچ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے 2015 میں ریپ موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا، لیکن ان کی پیشہ ورانہ موسیقی کی مسابقتی دنیا میں قدم رکھنے کی کوشش دیر تک نہیں رہی۔ اداکار سے سیاست دان بننے والے ممدانی خود کو دوسرے درجے کا فنکار قرار دیتے ہیں۔
سیاست میں دلچسپی لینے کے بعد وہ 2018 میں کوئنز سے ایک قانون ساز کے طور پر منتخب ہوئے تھے۔
ممدانی کا ڈیموکریٹک سوشلزم کیا ہے؟
زہران ممدانی خود کو 'ڈیموکریٹک سوشلسٹ‘ کہتے ہیں۔ مگر اس کا مطلب کیا ہے؟
جی ڈی پالیٹکس پوڈکاسٹ کے بانی اور میزبان گیلن ڈروک نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈیموکریٹک سوشلزم کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ حکومت عوامی فلاح کے پروگراموں کو زیادہ فراخدلانہ مالی امداد فراہم کرے۔
انہوں نے کہا، ''یورپی ناظرین کے لیے ان کی پالیسیاں کوئی غیر مانوس بات نہیں۔ مثلاً حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی بچوں کی دیکھ بھال (چائلڈ کیئر) کی سہولت۔
تجزیہ کار نے مزید کہا کہ اگرچہ امریکہ میں زیادہ تر لوگ سوشلزم کے مخالف ہیں اور سرمایہ داری کو ترجیح دیتے ہیں، پھر بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر سوشلسٹ نظریات تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔
کیا ممدانی اپنی پالیسیاں نافذ کر سکیں گے؟
ڈروک کے مطابق ممدانی اپنی تمام تجاویز پر عملدرآمد نہیں کر سکیں گے۔
انہوں نے وضاحت کی، ''نیویارک سٹی کی صورت حال پیچیدہ ہے کیونکہ زیادہ تر مالی کنٹرول اب بھی نیویارک اسٹیٹ کے پاس ہے، جو نیویارک سٹی کی طرح زیادہ لبرل یا ترقی پسند نہیں۔‘‘
ڈروک کے مطابق ممدانی نے کہا ہے کہ وہ امیر ترین نیویارکرز پر ٹیکس بڑھانا چاہتے ہیں، مگر نیویارک اسٹیٹ کی گورنر کیتھی ہوچل نے کہا ہے کہ انہیں اس میں دلچسپی نہیں۔
تجزیہ کار کا خیال ہے کہ گورنر اور نئے میئر کے درمیان کچھ معاملات پر مفاہمت ہو سکتی ہے، مگر اس کا انحصار انتخابی نتیجے کے فرق پر ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا، ''یہ صرف اس بات کا سوال نہیں کہ وہ جیتتے ہیں یا نہیں، بلکہ یہ بھی اہم ہے کہ وہ کس انداز میں جیتتے ہیں۔‘‘
ممدانی امریکہ کی خارجہ پالیسی پر بھی کھل کر تنقید کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایک مضبوط فلسطینی حامی موقف اختیار کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے اسرائیل نواز گروپ انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ممدانی کی جیت، ڈیموکریٹک پارٹی کی مستقبل کی سمت پر قومی سطح پر اثر ڈال سکتی ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین