زہریلی مچھلی جاپان کی نفیس غذائی ثقافت کا حصہ
4 جولائی 2012جاپان میں ہر سال متعدد افراد پوفر فش کھانے کے بعد ہسپتال میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اکثر کیسز میں یہ زہریلی مچھلی ہلاکت خیز ثابت ہوتی ہے۔ اس مچھلی کے ظاہری نقصانات کے باوجود حکام کو اسے کھانے کے لیے پیش کیے جانے پر سخت پابندی میں نرمی لانا پڑتی ہے۔
ایک جاپانی باشندے آفی سیونادوس کے بقول، ’پوفرفش یا گول مچھلی کھانے کے بعد ہونٹوں پر ایک خاص قسم کی جھنجھناہٹ محسوس ہوتی ہے، جس کی وجہ اس مچھلی میں موجود نیورو ٹوکسین یا اعصاب پر اثر انداز ہونے والا زہر ہے۔ تاہم یہی اس مچھلی کی خصوصیت ہے۔‘ آفی سیونادوس کا کہنا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پوفر مچھلی میں پائے جانے والے ٹیٹروڈو ٹوکسین کے اثر سے پیدا ہونے والی بے حسی یا سُن ہو جانے کی کیفیت فالج تک کا سبب بن سکتی ہے اور عمل تنفس پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
امریکا کے فوڈ اور ڈرگ ایڈمنسٹریٹشن کے مطابق پوفر مچھلی کا گوشت کھانے والے پر 4 سے 6 گھنٹوں کے اندر فالج کا حملہ ہو سکتا ہے اور یہ مرگ آور ثابت ہو سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مکمل فالج کے علاوہ اس زہریلی مچھلی کا استعمال کرنے والے افراد کے ساتھ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مرنے سے تھوڑی دیر پہلے تک ہوش میں ہوں اور اس کے بعد ان کی موت واقع ہو جائے۔
ٹوکیو میں قائم ایک پُر تعیش معروف ریستوران میں ڈنرکرنے والے کو تاہم اس امر کا یقین ہونا چاہیے کہ وہ کسی طرح بھی خطرے میں نہیں ہے۔ اس ریستوران میں ایک بڑے سے پانی کے ٹینک میں یہ مچھلیاں تیر رہی ہوتی ہیں۔ ’شیکی گاسو‘ اس ریستوران کے مالک ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ ان کے ہاں پوفر مچھلی کو پیش کرنے سے پہلے اس کے زہریلے مادے والے اندرونی اعضاء کو ایک بہت تیز چھری سے کاٹ کر نکال دیا جاتا ہے۔ ان کے ریستوران میں ایک سند یافتہ اور باتربیت باورچی کام کرتا ہے، جس نے اس کام میں مہارت حاصل کر رکھی ہے۔ سوزوکی کے بقول یہ مہارت حاصل کرنے کے لیے پانچ سال کا کورس کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کا لائسنس ملتا ہے۔
Km/Ia (AFP)