فلپائن کے صدر روڈریگو ڈوٹيرٹے نے اپنے ملک کے شہریوں کے کویت جا کر کام کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ایسی خبریں گردش میں ہیں کہ کویت میں فلپائنی شہریوں کو وسیع پیمانے پر استحصال اور زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے فلپائنی صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے کے حوالے سے بتایا ہے کہ اب فلپائنی شہری کویت جا کر کام نہیں کریں گے۔
صدر کے ترجمان نے بیس جنوری بروز ہفتہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایسی خبروں کے بعد کہ کویت میں فلپائنی شہریوں کو وسیع پیمانے پر زیادتی اور استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے، صدر ڈوٹيرٹے نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
صدر ڈوٹيرٹے کے ترجمان ہیری روکے نے مزید کہا کہ اس خلیجی ملک میں بالخصوص خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جس کے نتیجے میں چند ايک واقعات ميں خواتين ہلاک بھی ہوئیں۔
انہوں نے کہا، ’’صدر ڈوٹيرٹے کے اس فیصلے کے بعد لیبر سیکرٹری سیلوسٹر بیلو نے حکم جاری کر دیا ہے کہ اب فلپائنی شہری کام کرنے کی غرض سے کویت نہیں جائیں گے۔‘‘ فوری طور پر کویتی حکومت نے صدر ڈوٹيرٹے کے اس فیصلے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
روکے کے مطابق کویت جا کر ملازمت کرنے والے فلپائنی شہری کافی زیادہ مسائل کا شکار ہیں اور اس پابندی کے بارے میں کافی پہلے سے غور کیا جا رہا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً دس ملین فلپائنی شہری بیرون ملک ملازمت کرتے ہیں اور ان کی طرف سے ملک میں اپنے رشتہ داروں کو ارسال کی جانے والی رقوم ملکی اقتصادیات کا ایک اہم ستون قرار دی جاتی ہیں۔ صرف کویت میں کام کی غرض سے آباد فلپائنی شہریوں کی تعداد کم ازکم ایک لاکھ ستر ہزار بنتی ہے۔
یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ یہ نئی پابندی کتنے عرصے تک مؤثر رہے گی۔ یہ امر اہم ہے کہ اس پابندی کی زد میں وہ فلپائنی شہری نہیں آئیں گے، جو پہلے سے ہی کویت میں ملازمت کر رہے ہیں۔
جمعرات کے دن ڈوٹيرٹے نے دارالحکومت منیلا میں ایک اجتماع سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ کویتی حکومت پر زور دیں گے کہ وہاں کام کرنے والے غیر ملکی ورکرز کے حالات بہتر بنائے جائیں اور ان کا استحصال ختم کیا جائے۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر یہ صورتحال نہیں بدلی جاتی تو وہ فلپائن کے شہریوں کو کویت جا کر کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
ننھے ہاتھ، بھاری منافع: تُرکی میں چائلڈ لیبر
تعلیم کے بجائے مزدوری: تُرکی میں لاکھوں شامی تارکین وطن کے بچے اسکول نہیں جاتے۔ چائلڈ لیبر پر پابندی کے باوجود بہت سے بچے یومیہ بارہ گھنٹوں تک مزدوری کرتے ہیں۔ ترکی ميں سلائی کے ايک کارخانے کی تصویری جھلکیاں۔
تصویر: DW/J. Hahn
کام کا ڈھیر لگا ہوا ہے
خلیل کی عمر 13 سال ہے اور اس کا تعلق دمشق سے ہے۔ ترک شہر استنبول کے علاقے ’باغجیلار‘ میں واقع سلائی کے کارخانے میں خلیل ہفتے کے پانچ دن کام کرتا ہے۔ اس علاقے ميں سلائی کے بیشتر کارخانوں میں زيادہ تر خلیل کی طرح کے بچے ہی کام کرتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
ساتھ کام کرنے والے بچے
اس ورکشاپ میں سلائی مشینیں بلا ناغہ چلتی ہیں۔ یہاں کام کرنے والے پندرہ ملازمین میں سے چار بچے ہیں، جن کا تعلق شام سے ہے۔ ترکی میں ٹیکسٹائل کی صنعت کے شعبے میں وسیع پیمانے پر بچوں کی مزدوری کی صورت ميں غیر قانونی کام جاری ہے۔ نو عمر بچوں سے نہ صرف کم اجرت پر مزدوری کرائی جاتی ہے بلکہ کاغذات اور کسی بھی قسم کے تحفظ کے بغير کام کرایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
اسکول جانےسے محروم بچے
سوتی کے کپڑے کو چھانٹتے ہوئے 13 سالہ خلیل کہتا ہے، ’’میں مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتا۔‘‘ یہاں خواتین کے انڈر گارمنٹس بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ چھانٹنا، کاٹنا اور سینا، خلیل کے ساتھ ایک نوجوان خاتون بھی کام کرتی ہيں۔ خلیل اپنے آبائی ملک شام میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا لیکن خانہ جنگی کی باعث خلیل کو اپنا مکان اور سب کچھ چھوڑنا پڑا۔ اب خلیل اسکول جانے کے بجائے سلائی کے کارخانے میں کام کر رہا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
استحصال یا مدد؟
ترکی میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے۔ 15 سال سے کم عمر کے بچوں کو ملازمت دینے پر جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ اس بات سے کارخانے کا مالک بخوبی واقف ہے، اسی لیے وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ ’میں بچوں کو کام دیتا ہوں تاکہ وہ بھيک مانگنے سے بچ سکیں۔ مجھے معلوم ہے کہ بچوں کو کام دینے پر پابندی ہے۔ لیکن اس طرح سے میں ان کے اہلِ خانہ کی مدد کر رہا ہوں جو کے شاید اس مشکل صورتحال سے باہر نہیں نکل سکيں۔‘
تصویر: DW/J. Hahn
’امید کرتا ہوں کہ میں گھر واپس جا سکوں‘
مُوسیٰ کی عمر بھی 13 سال ہے۔ سلائی کے اس ورکشاپ میں زیادہ تر بچے شام کے شمالی صوبہ ’عفرین‘ کی کُرد آبادی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کام کے علاوہ موسیٰ کی کیا مصروفیات ہیں؟ وہ بتاتا ہے، ’’میں فٹ بال کھیلتا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ شام میں دوبارہ امن بحال ہوجائے تاکہ ہم گھر واپس جا سکیں۔‘‘ موسیٰ شام واپس جا کر تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
سستی ملازمت
اس ورکشاپ میں روزانہ خواتین کے لیے ہزاروں انڈر گارمنٹس مختلف رنگ اور ناپ میں تیار کیے جاتے ہیں۔ ان ملبوسات کی قیمت صرف چند ترکش لیرا ہے۔ ترکی میں بچوں سے مزدوری کرانے کا مقصد چین کے مقابلے میں سستی لیبر کی تياری ہے۔ ترکی میں بچوں کو فی گھنٹہ 50 یورو۔سینٹ سے بھی کم اجرت ادا کی جاتے ہے جبکہ بچوں کے مقابلے میں بالغ مزدور دگنا کماتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
ایک دن میں بارہ گھنٹے کام
آرس گیارہ سال کی بچی ہے اور گزشتہ چار ماہ سے کام کر رہی ہے۔ آرس کی والدہ فی الوقت حاملہ ہیں اور اس کے والد بھی ٹیکسٹائل فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ آرس کے دن کا آغاز صبح آٹھ بجے ہوتا ہے۔ آرس کی ڈیوٹی شب آٹھ بجے ختم ہوتی ہے۔ اس کو دن میں دو مرتبہ کام سے وقفہ لینے کی اجازت ہے۔ تنخواہ کی صورت میں آرس کو 700 ترکش لیرا ماہانہ ملتے ہیں جو تقریبا 153 یورو بنتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
تعلیم: عیش و عشرت کے مانند ہے
چونکہ آرس پیر سے جمعہ تک کام میں مصروف ہوتی ہے اس لیے وہ سرکاری اسکول نہیں جا سکتی۔ تاہم آرس ہفتے کے آخر میں ایک شامی سماجی ادارے کے زیرِ انتظام چلنے والے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہے۔ نصاب میں ریاضی، عربی اور ترکش زبان سکھائی جاتی ہے۔ اس سکول کے زیادہ تر اساتذہ کو بھی جنگ کی وجہ سے اپنا ملک ’شام‘ چھوڑنا پڑا تھا۔
تصویر: DW/J. Hahn
کلاس روم سے دوری
چار سے اٹھارہ سال کی عمر کے درمیان کے 70 سے زائد بچے اس چھوٹے سے شامی سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بعض اوقات خواتین اساتذہ بچوں کے والدین کو قائل کرنے کے لیے ان کے گھر بھی جاتی ہیں۔ یہ اساتذہ والدین سے اپنے بچوں کو کم از کم ایک دن اسکول بھیجنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاکہ بچوں کو اپنا مستقبل سوارنے کا موقع مل سکے۔