زیادہ تر لادین چیک جمہوریہ، مقدس مریم کا مجسمہ وجہٴ تنازعہ
21 جون 2019
چیک جمہوریہ کو براعظم یورپ کا سب سے زیادہ لادین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس ملک میں پیدا ہونے والے ایک مذہبی تنازعے پر کئی یورپی ممالک میں حیرانی پائی جاتی ہے۔
اشتہار
چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ میں مسیحیوں کے کیتھولک فرقے کے ایک گروپ اور شہر کے تاریخ شناسوں نے قدیمی وسطی حصے میں ماضی میں منہدم کی گئی ایک یادگار دوبارہ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ اس یادگاری ستون پر یسوع مسیح کی والدہ مقدس مریم کا ایک مجسمہ بھی نصب ہو گا، لیکن تعمیر سے قبل ہی چیک شہریوں نے اس یادگار پر اعتراضات شروع کر دیے ہیں۔
پراگ میں مقدس مریم کے مجسمے کا حامل ایک ستون ہابسبرگ سلطنت کے دور میں سن 1650 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس کو سن 1918 میں آسٹرین سلطنت کے خاتمے کے دور میں شہر کے بہت مشتعل شہریوں نے 'ماضی کے حکمرانوں کی یادگار‘ قرار دیتے ہوئے منہدم کر دیا گیا تھا۔
سن 1989 میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد پراگ کے کیتھولک باشندوں اور تاریخ پسندوں نے 'کنواری مریم کے اس ستون‘ کی دوبارہ تعمیر کی حامی تنظیم (Association for the Renewal of the Marian Column) قائم کی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ صدی میں نازی دور کے بعد کمیونسٹ حکومت نے بھی اس یادگاری ستون کی تعمیر نو کی اجازت نہیں دی تھی۔
قریب سو برس قبل منہدم کیا گیا ستون پندرہ میٹر (انچاس فٹ) بلند تھا اور اُس کے بالائی حصے پر بھربھرے پتھر سے بنا مقدس مریم کا مجسمہ نصب تھا۔ اس قدیمی مجسمے کے سنگ تراش باروک دور کے مشہور فنکار ژاں ژیری بینڈل تھے اور انہوں نے یہ مجسمہ سن 1650 کی دہائی میں کسی وقت تراشا تھا۔ اسی آئندہ بنائے جانے والے ستون پر مریم کے نئے مجسمے کی سنگ تراشی پیٹر وانا کو سونپی گئی تھی۔ وہ اپنا کام مکمل کر چکے ہیں اور اب اس ستون کی تعمیر نو کے منتظر ہیں۔
پراگ کے شہریوں کا خیال ہے کہ اس ستون اور مجسمے کی تعمیر نو سے کیتھولک عقیدے کی حامل ہابسبرگ مسیحی بادشاہت کے مظالم کی یاد بھی تازہ ہو جائے گی۔ اسی بادشاہت کے دور میں مذہبی مصلح ژاں ہُوس کو سن 1415 میں بد عقیدہ قرار دے کر زندہ جلا دیا گیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ تب چیک باشندوں نے ژاں ہُوس کی ہلاکت کے دکھ میں کیتھولک عقیدے سے منہ موڑنا شروع کر دیا تھا۔
یورپی یونین کے رکن اس ملک میں کیتھولک عقیدے کے ماننے والوں کی تعداد بہت قلیل ہے۔ سن 2011 کی مردم شماری کے مطابق مجموعی طور پر ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی میں چھیاسی لاکھ چیک شہریوں نے خود کو لادین یا کسی بھی مذہب کے نہ ماننے والے قرار دیا تھا۔
اس کیتھولک یادگار کی تعمیر نو کے منصوبے کے مخالف ایک شہری نے کہا کہ یہ ستون مذہبی عدم برداشت کا نشان تھا۔ اسی طرح ایک اور شہری نے اس یادگار کی دوبارہ تعمیر کو 'بیمار سوچ‘ کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ستون کے مقام کے بہت ہی قریب ہے وہ جگہ بھی ہے، جہاں جون سن 1621 میں پروٹسٹنٹ انقلاب کے ستائیس سرکردہ چیک رہنماؤں کو حکومتی حکم پر قتل کر دیا گیا تھا۔ کچھ چیک شہریوں نے اس ستون کو 'انسانیت کی تذلیل‘ کی علامت بھی قرار دیا تھا۔
دوسری جانب اس یادگار کی تعمیر نو کے لیے سرگرم تنظیم کو موجودہ چیک جمہوریہ میں نوکر شاہی اور سرخ فیتے کا سامنا بھی ہے۔ ریاستی اہلکار دوبارہ پیش کردہ تعمیراتی دستاویز پر بھی وقفے وقفے سے اعتراضات لگانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شہر کی مقامی حکومت کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس یادگار کی نئے سرے سے تعمیر کا عمل محض ایک درخواست تک ہی محدود ہے اور اس منصوبے کو ستمبر سن 2017 میں مسترد بھی کر دیا گیا تھا۔ تکنیکی طور پر یہ بلدیاتی فیصلہ تاحال مؤثر ہے مگر تعمیر نو کی حامی تنظیم اس کی منسوخی کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔
ع ح، م م، اے ایف پی
انتہائی دلکش یورپی گھڑیال
کلائی کی گھڑیوں اور اسمارٹ فون کے دور میں عوامی مقامات پر نصب گھڑیالوں کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ یورپ میں کئی مقامات پر نصب بڑے گھڑیال اتار لیے گئے ہیں لیکن کئی گھڑیال اب بھی اپنی دلکشی کے ساتھ قائم و دائم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
لندن کا بگ بین
لندن کا بِگ بین یورپ کا انتہائی مشہور گھڑیال تصور کیا جاتا ہے۔ یہ جس مینار پر نصب ہے، اُس کا اصل نام ایلزبتھ ٹاور ہے لیکن اِس کی شہرت بگ بین ٹاور کے نام ہی سے ہے۔ اس کو لندن کی آواز یا ’وائس آف لندن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ فی الحال مرمت کی وجہ سے بگ بین خاموش ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PA Wire/V. Jones
برلن کا ورلڈ ٹائم کلاک
جرمن دارالحکومت برلن کے الیگزانڈر پلاٹز پر نصب یہ گھڑیال انتہائی منفرد ہے۔ اس کو سن 1969 میں سابقہ مشرقی جرمنی کے صنعتی ڈیزائنر ایرش ژون نے ڈیزائن کیا تھا۔ ابتدا سے ہی یہ سیاحوں اور عام لوگوں کی ملاقات کا ایک مشہور مقام ہے۔ اس کے بلند مقام پر نظام شمسی اور نچلے حصے میں سلنڈروں کے ذریعے زمین کا نظام الاوقات دکھایا گیا ہے۔
یہ قدرے کم شہرت کا حامل گھڑیال ضرور ہے لیکن اپنی ساخت میں انتہائی دلچسپ ہے۔ یہ برلن کے یورپ سینٹر میں نصب ہے۔ تیرہ میٹر بلند یہ کرونو میٹر تقریباﹰ تین منزلوں کے مساوی ہے۔ اس کے شیشے کے بڑے بڑے پیمانوں میں سبز سیال مادہ گھنٹوں اور چھوٹے پیمانوں کا پانی منٹ کے لیے مختص ہے۔
تصویر: picture-alliance/Eibner-Pressefoto
پراگ کے ٹاؤن ہال کا گھڑیال
چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ کے ٹاؤن ہال پر نصب سن 1410 میں تعمیر ہونے والا فلکیاتی گھڑیال گاتھک طرز تعمیر کا نمونہ ہے۔ یہ دنیا بھر میں اپنی انفرادیت کی وجہ سے ایک مثال ہے۔ روایت ہے کہ اُس وقت کے حاکم نے اس گھڑیال کی تکمیل پر اِس کے بنانے والے کی آنکھیں نکال دی تھیں تا کہ وہ کوئی دوسرا ایسا گھڑیال نہ بنا سکے۔ یہ تزیئن نو کے عمل سے گزر رہا ہے اور اکتوبر سن 2018 میں یہ عمل مکمل ہو جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/chromorange/Bilderbox
زُائیٹلوگے گھڑیال، بیرن
گھڑی سازی کے دیس سوئٹزرلینڈ کے موجودہ دارالحکومت اور خوبصورت شہر بیرن میں سن 1530 میں زائیٹلوگے گھڑیال کی تعمیر مکمل کی گئی تھی۔ سیاح ہر گھنٹے پر گھڑیال کے ہندسوں کی جگہ بنی اشکال کا تماشہ دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/A. Filippov
اسٹراس برگ کا فلکیاتی گھڑیال
اسٹراس برگ کے کیتیھڈرل کے اندر نصب یہ گھڑیال سوئس گھڑی سازوں کی محنتِ شاقہ کا عکاس ہے۔ اس گھڑیال میں ہندسوں کی شکل میں انسانی زندگی کے ادوار کو دکھایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH/G. Lenz
دنیا کا سب سے بڑا ’کُکو گھڑیال‘
جنوبی جرمنی میں واقع مشہور بلیک فارسٹ کے شہر ٹرائی بیرگ میں یہ گھڑیال قریبی جنگلات کا نشان خیال کیا جاتا ہے۔ اس کو دنیا کا سب سے بڑا ’کُکُو کلاک‘ قرار دیا گیا ہے اس گھڑیال کا وزن چھ ٹن ہے۔ ہر گھنٹے اور نصف گھنٹے پر لکڑی کا بنا ہوا ساڑھے چار میٹر کی جسامت کا کُکُو گھڑیال کی کھڑی سے نمودار ہو کر وقت کا اعلان کرتا ہے۔
تصویر: Stadtverwaltung Triberg
میونخ کا گھڑیال
یہ گھڑیال جرمن شہر میونخ کے سٹی ہال کی عمارت کے باہر نصب ہے۔ یہ گھڑیال جدید دور کی توانائی سولر انرجی سے چلتا ہے اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Warmuth
ویانا کا ’اینکر کلاک‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کا اینکر گھڑیال بہت مشہور ہے۔ یہ اینکر ہوف بلڈنگ اور ہوہے مارکٹ کے حصوں کو جوڑنے والے پل پر نصب ہے۔ اس کے ڈیزائنر فرانز ماٹش تھے۔ اس گھڑیال کے ہر گھنٹے پر مشہور شخصیات کے مجسمے نمودار ہوتے ہیں۔
آسٹریا کے شہر گراتز کی ایک وجہٴ شہرت یہ کلاک ٹاور بھی ہے۔ یہ گھڑیال شلوس برگ میں نصب ہے اور دور سے دکھائی دیتا ہے۔ ابتداء میں اس میں صرف ایک سوئی نصب کی گئی تھی اور منٹ کی سوئی بعد میں لگائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Votava
وینس کا فلکیاتی گھڑیال
اٹلی کے شہر وینس میں سینٹ مارکس اسکوائر میں یہ گھڑیال نصب ہے جو صرف وقت ہی نہیں دکھاتا بلکہ علم البروج کا بھی عکاس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سورج اور چاند کی سمتوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ سن 1998 تک اس گھڑیال کا نگران اپنے خاندان کے ہمراہ اس ٹاور کے اندر ہی رہتا تھا۔ سن 2006 سے اس کی نگرانی ڈیجیٹل کر دی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Engelhardt
بُلوآ کا ’جادو گھر‘
فرانسیسی شہر بلوآ کا یہ گھڑیال حقیقی معنوں میں گھڑیال نہیں ہے۔ اس کئی ڈریگنز کے سروں سے وقت کو ظاہر کیا گیا ہے۔ ہر نصف گھنٹے پر یہ ڈریگنز اپنے اپنے ہندسوں کے مقام سے باہر نکل کر خوفناک حرکات کا مظہر ہوتے ہیں۔ یہ کلاک بلوآ میں واقع جادو کے عجائب گھر کے ماتھے پر نصب ہے۔ جدید دور کے مشہور جادو گر رابرٹ ہودن اسی شہر میں پیدا ہوئے تھے۔