ایک تازہ مطالعے میں یہ انکشاف کيا گيا ہے کہ پاکستانی شہريوں کی اکثریت کو کورونا وائرس کے حوالے سے قائم کی جانے والی قومی ہیلپ لائن کا ٹیلی فون نمبر یاد نہیں ہے۔
اشتہار
مارکیٹ ریسرچ کی دنیا کی تیسری بڑی کمپنی آئی پی ایس او ایس(IPSOS) نے رواں مہینے چار سے سات اپریل تک پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زير انتظام کشمیر کے شہری اور دیہاتی علاقوں سے مختلف پس منظر کے حامل افراد سے سروے کیا۔ اس مطالعے میں کورونا کے حوالے سے قائم کی جانے والی صحت تحفظ ہیلپ لائن 1166 کے حوالے سے پوچھا گیا، تو ہر پانچ ميں سے دو شہری درست جواب دے پائے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال دیگر ہیلپ لائنز کے بارے میں بھی تھی، جنہيں صوبائی سطح پر محکمہ صحت یا دوسرے اداروں نے قائم کیا۔
سروے کے نتائج سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ لوگوں تک بچاؤ کے حوالے سے آگاہی کی معلومات زیادہ تر مقامی میڈیا اور نجی کمپنیوں کی آگاہی مہمات کے ذریعے پہنچ رہی ہیں۔ عوام کی اکثريت نے حکومت کے آگاہی پیغامات سے لا علمی کا اظہار کیا۔ ماہرین کے مطابق یہ صورت حال حکومت کے محکمہ اطلاعات کی کارکردگی کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ يہ محکمہ کورونا کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
سروے ميں شامل سوالات کا جواب دیتے ہوئے اکسٹھ فیصد پاکستانیوں نے بتایا کہ وہ کورونا کے حوالے سے ریلیف کا کام کرنے والی فلاحی تنظیموں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے، بیس فیصد لوگ ایدھی فاونڈیشن اور چودہ فیصد لوگ الخدمت کے کام سے قدرے شناسائی رکھتے ہیں۔
اس سروے کے نتیجے میں سامنے آنے والی ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ حکومتی پبلسٹی کے باوجود ہر پانچ شہريوں میں سے دو کو وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کورونا ریلیف آپریشن کے لیے بنائی جانے والی ٹائیگر فورس کی تفصیلات کے بارے میں علم نہیں۔ اسی طرح تینتالیس فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ اگر حکومت، ریلیف آپریشن میں مدد کے ليے ٹائيگر فورس کی بجائے مقامی حکومتوں کے نظام سے مدد لیتی، تو یہ بہتر ہوتا۔ ایسی رائے دینے والے لوگوں کی سب سے بڑی تعداد، پچپن فیصد، صوبہ خیبر پختونخوا سے سامنے آئی، جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔
تراسی فیصد پاکستانی کورونا کو پاکستان کے ليے خطرہ تصور کرتے ہیں لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کے خاندان، آپ کی اپنی زندگی اور آپ کی کیمونٹی کے ليے کورونا خطرہ ہے، تو صرف پچاس فیصد افراد نے ہاں میں جواب دیا۔ سروے کے مطابق ننانوے فیصد پاکستانیوں نے احتیاطی تدابیر پرعمل کرتے ہوئے گھر آ کر ہاتھ دھونے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے لیکن ملک کی تقریباً ایک تہائی آبادی ابھی بھی ہاتھ ملانے یا جسم چھونے سے پرہیز نہیں کر رہی۔ سروے کے مطابق بیاسی فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ پانچ وقت وضو کرنے سے کورونا سے بچا جا سکتا ہے جبکہ سڑسٹھ فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ باقاعدگی سے سٹیم لینے سے بھی کورونا سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔ سروے کے مطابق ہر پانچ میں سے دو پاکستانی سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس کسی سازش کا نتیجہ ہے۔
کورونا وائرس کے بارے میں مفروضے اور حقائق
کورونا وائرس کی نئی قسم سے بچاؤ کے حوالے سے انٹرنیٹ پر غلط معلومات کی بھرمار ہے۔ بہت زیادہ معلومات میں سے درست بات کون سی ہے اور کیا بات محض مفروضہ۔ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: DW/C. Walz
کیا نمکین پانی سے ناک صاف کرنا سود مند ہے؟
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ نمکین محلول ’سلائن‘ وائرس کو ختم کر کے آپ کو کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے۔
غرارے کرنے سے بچاؤ ممکن ہے؟
کچھ ماؤتھ واش تھوڑی دیر کے لیے مائکروبز کو ختم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں لیکن عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان سے غرارے کرنے سے بھی کورونا وائرس کی نئی قسم سے نہیں بچا جا سکتا۔
لہسن کھانے کا کوئی فائدہ ہے؟
انٹرنیٹ پر یہ دعویٰ جنگل میں آگ کی طرح پھیلتا جا رہا ہے کہ لہسن کھانے سے کورونا وائرس بے اثر ہو جاتا ہے۔ تاہم ایسے دعووں میں بھی کوئی حقیقت نہیں۔
پالتو جانور کورونا وائرس پھیلاتے ہیں؟
انٹرنیٹ پر موجود کئی نا درست معلومات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بلی اور کتے جیسے پالتو جانور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں۔ ایسے پالتو جانور اگرچہ ’ایکولی‘ اور دیگر طرح کے بیکٹیریا ضرور پھیلاتے ہیں۔ اس لیے انہیں چھونے کے بعد ہاتھ ضرور دھو لینا چاہییں۔
خط یا پارسل بھی کورونا وائرس لا سکتا ہے؟
کورونا وائرس خط اور پارسل کی سطح پر زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا۔ اس لیے اگر آپ کو چین یا کسی دوسرے متاثرہ علاقے سے خط یا پارسل موصول ہوا ہے تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں، کیوں کہ اس طرح کورونا وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ قریب نہ ہونے کے برابر ہے۔
کورونا وائرس کی نئی قسم کے لیے ویکسین بن چکی؟
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کے علاج کے لیے ابھی تک ویکسین تیار نہیں ہوئی۔ نمونیا کے لیے استعمال ہونے والی ویکسین وائرس کی اس نئی قسم پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
جراثیم کش ادویات کورونا وائرس سے بچا سکتی ہیں؟
ایتھنول محلول اور دیگر جراثیم کش ادویات اور اسپرے سخت سطح سے کوروانا وائرس کی نئی قسم کو ختم کر دیتے ہیں۔ لیکن انہیں جلد پر استعمال کرنے کا قریب کوئی فائدہ نہیں۔
میل ملاپ سے گریز کریں!
اس نئے وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ کھانا بہت اچھے طریقے سے پکا کر کھائیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد سے ملنے سے گریز کریں۔
ہاتھ ضرور دھوئیں!
صابن اور پانی سے اچھی طرح ہاتھ دھونے سے انفیکشن سے بچا جا سکتا ہے۔ ہاتھ کم از کم بیس سیکنڈز کے لیے دھوئیں۔ کھانستے وقت یا چھینک آنے کی صورت میں منہ کے سامنے ہاتھ رکھ لیں یا ٹیشو پیپر استعمال کریں۔ یوں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
9 تصاویر1 | 9
پاکستان کے ممتاز ماہر ابلاغیات پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں سرکاری حکومتی میڈیا کی اطلاعات کی رسائی پرکافی اجارہ داری ہوتی تھی اور وہاں سے آنے والے پیغامات بھی لوگوں کو یاد رہتے تھے۔ ''اب ایک تو نجی میڈیا کی بھرمار میں سرکاری میڈیا کی پہلے جیسی حیثیت نہیں رہی۔ دوسرے سرکاری میڈیا کی کریڈبیلٹی کا بھی ايک مسئلہ ہے۔‘‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نجی سیکٹر میں بننے والے آگاہی کے پیغامات میں میوزک اور انٹرٹینمنٹ کے ساتھ آ گاہی کا پیغام ہوتا ہے ۔ اس ليے لوگوں کو یہ پیغامات یاد بھی رہتے ہیں، سرکاری پیغامات بعض اوقات اتنے دلچسپ اور توجہ حاصل کرنے والے نہیں ہوتے۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر مغیث کا کہنا تھا کہ لوگوں کا ملک کے دور دراز کے علاقوں میں فلاحی تنظیموں کو نہ جاننا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ این جی اوز اور زیادہ تر فلاحی تنظیمیں عام طور پر وہیں خدمات سر انجام دیتی ہیں، جہاں کیمرہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر مغیث کے مطابق ریلیف آپریشن کے ليے بلدیاتی ادروں کا استعمال اچھا تو رہتا لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ادارے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کرلوگوں کی خدمت کر پاتے۔
یاد رہے آئی پی ایس او ایس مارکیٹ ریسرچ کی معروف فرانسیسی کمپنی ہے جو اپنے اٹھارہ ہزار ملازمین کے ساتھ دنیا کے ۹۰ ملکوں میں کام کر رہی ہے۔
لاک ڈاؤن کو ممکن بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائیاں
کورونا وائرس کی وجہ دنیا بھر کے متعدد ممالک میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے تاکہ اس عالمی وبا کے پھیلاؤ کے عمل میں سستی پیدا کی جا سکے۔ کئی ممالک میں اس لاک ڈاؤن کو یقینی بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی مدد بھی طلب کرنا پڑی ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور، پاکستان
لاک ڈاؤن کے باوجود پاکستان کے متعدد شہروں میں لوگوں کو سڑکوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لاہور میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگوں کو باہر نہ نکلنے دیا جائے تاہم ان کی یہ کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
موغادیشو، صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ میں بھی نئے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔ تاہم دارالحکومت موغادیشو میں لوگ معاملے کی نزاکت کو نہیں سمجھ پا رہے۔ اس لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے کئی مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں نے شہریوں کو اسلحہ دکھا کر زبردستی گھر روانہ کیا۔
تصویر: Reuters/F. Omar
یروشلم، اسرائیل
اسرائیل میں بھی کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس یہودی ریاست میں سخت گیر نظریات کے حامل یہودی اس حکومتی پابندی کے خلاف ہیں۔ بالخصوص یروشلم میں ایسے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکنے کی خاطر پولیس کو فعال ہونا پڑا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
برائٹن، برطانیہ
برطانیہ بھی کورونا وائرس سے شدید متاثر ہو رہا ہے، یہاں تک کے اس ملک کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی اس وبا کا نشانہ بن چکے ہیں۔ برطانیہ میں لاک ڈاؤن کيا گیا ہے لیکن کچھ لوگ اس پابندی پر عمل درآمد کرتے نظر نہیں آ رہے۔ تاہم پولیس کی کوشش ہے کہ بغیر ضرورت باہر نکلنے والے لوگوں کو واپس ان کے گھر روانہ کر دیا جائے۔
تصویر: Reuters/P. Cziborra
گوئٹے مالا شہر، گوئٹے مالا
گوئٹے مالا کے دارالحکومت میں لوگ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلنے سے نہیں کترا رہے۔ گوئٹے مالا شہر کی پولیس نے متعدد لوگوں کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Echeverria
لاس اینجلس، امریکا
امریکا بھی کورونا وائرس کے آگے بے بس نظر آ رہا ہے۔ تاہم لاک ڈاؤن کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکلنے سے گریز نہیں کر رہے۔ لاس اینجلس میں پولیس گشت کر رہی ہے اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Grillot
چنئی، بھارت
بھارت میں بھی لاک ڈاؤن کیا گیا ہے لیکن کئی دیگر شہروں کی طرح چنئی میں لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے باز نہیں آ رہے۔ اس شہر میں پولیس اہلکاروں نے لاک ڈاؤن کی خلاف وزری کرنے والوں پر تشدد بھی کیا۔
تصویر: Reuters/P. Ravikumar
کھٹمنڈو، نیپال
نیپال میں بھی لوگ حکومت کی طرف سے جاری کردہ حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے نظر نہیں آ رہے۔ کھٹمنڈو میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگ نہ تو گھروں سے نکليں اور نہ ہی اجتماعات کی شکل میں اکٹھے ہوں۔
تصویر: Reuters/N. Chitrakar
احمد آباد، بھارت
بھارتی شہر احمد آباد میں لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے خصوصی پولیس کے دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ یہ اہلکار سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Dave
ماسکو، روس
روسی دارالحکومت ماسکو میں بھی جزوی لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے تاکہ نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکے۔ تاہم اس شہر میں بھی کئی لوگ اس لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ ریڈ اسکوائر پر دو افراد کو پولیس کی پوچھ گچھ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
بنکاک، تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں بھی لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے، جہاں گھروں سے باہر نکلنے والے افراد کو پولیس کے سامنے بیان دینا پڑتا ہے کہ ایسی کیا وجہ بنی کہ انہیں گھروں سے نکلنا پڑا۔ ضروری کام کے علاوہ بنکاک کی سڑکوں پر نکلنا قانونی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Silva
ریو ڈی جینرو، برازیل
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر برازیل میں بھی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں لیکن موسم گرما کے آغاز پر مشہور سیاحتی شہر ریو ڈی جینرو کے ساحلوں پر کچھ لوگ دھوپ سینکنے کی خاطر نکلتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کے سامنے جواب دینا پڑتا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Landau
کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ میں بھی حکومت نے سختی سے کہا ہے کہ لوگ بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں۔ اس صورت میں انہیں خصوصی سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیپ ٹاؤن میں پولیس اور فوج دونوں ہی لاک ڈاؤن کو موثر بنانے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Hutchings
ڈھاکا، بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں بھی سخت پابندیوں کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ تاہم اگر ان کا ٹکراؤ پوليس سے ہو جائے تو انہیں وہیں سزا دی جاتی ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکن اس طرح کی سزاؤں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔