زیمبیا میں لکڑی کے بنے دنیا کے قدیم ترین ڈھانچے کی دریافت
21 ستمبر 2023
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق لکڑی کا بنا یہ ڈھانچہ لاکھوں برس پرانا ہے، جسے لکڑی ہی کے اوزاروں سے تیار کیا تھا۔ یہ دریافت ثابت کرتی ہے کہ ہومو سیپیئن کہلانے والی نوع انسانی کی پیش رو نسل بھی عقلی سطح پر کتنی باصلاحیت تھی۔
ماہرین آثار قدیمہ اپنے دریافت کردہ نوادرات کی عمر کے تعین کے لیے ایک خاص سائنسی تکنیک استعمال کرتے ہیںتصویر: Larry Barham/AP/picture alliance
اشتہار
افریقی ملک زیمبیا میں کالامبو آبشار کے پاس ایک تاریخی مقام پر کھدائی کرنے والے ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق انہوں نے وہاں ایک ایسا چوبی ڈھانچہ دریافت کیا، جو انسانی تاریخ میں لکڑی کا بنا ہوا آج تک کا قدیم ترین معلوم ڈھانچہ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تقریباﹰ چار لاکھ 76 ہزار برس پرانا ہے۔
اس دریافت کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ چوبی ڈھانچہ ایسی حالت میں دریافت ہوا کہ اس کے ارد گرد مٹی کی ایک موٹی تہہ موجود تھی اور اسی نے اسے غیر معمولی حد تک اچھی حالت میں محفوظ بھی رکھا۔ مزید یہ کہ اسے ایسے درخت کی لکڑی سے تیار کیا گیا، جس کا پھل کافی بڑا ہوتا تھا۔
برلن میں آثار قدیمہ کی ایک نمائش میں یورپ میں ارتقاء کے عمل میں اہم کردار ادا کرنے والے کئی نایاب قدیمی نمونے رکھے گئے ہیں۔ ان میں سے تیرہ ایسے آثار قدیمہ شرکاء کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، جو جرمنی ہی میں دریافت ہوئے۔
تصویر: Urgeschichtliches Museum Blaubeuren/J. Wiedmann
’تصوراتی‘ آسمان
یہ سکہ آثار قدیمہ کی تاریخ میں ایک اہم دریافت قرار دیا جاتا ہے۔ اس سکے پر آسمان کی ایک تصویر کندہ ہے۔ کائناتی مظہر کی یہ تصوراتی نقش نگاری آسمانی رازوں کی قدیم ترین تصویر کشی ہے۔ دھات کا یہ سکہ صوبے سیکسنی میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران 1999 میں ملا تھا۔ اندازہ ہے کہ نیبرا نامی یہ سکہ کم از کم 36 سو سال پرانا ہے۔ اس پرنقش کائناتی مظاہر دراصل اُس وقت کے مذہبی عقائد کی دلالت کرتے ہیں۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege und Archäologie Sachsen-Anhalt/J. Lipták
قدیم ترین انسانی صورت گری
یہ قدیمی نمونہ سن 2008 میں جنوب مغربی جرمنی میں ایک غار سے دریافت کیا گیا۔ Venus of Hohle Fels نامی یہ فن پارہ انسانی صورت گری کا قدیم ترین شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔ ہاتھی دانت کی بنی قریب چھ سینٹی میٹر کی اس انسانی شبیہ کے بارے میں یقین ہے کہ یہ تب تعویز کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ یہ 40 ہزار سال پرانی ہے۔ یوں قبل از تاریخ کے عہد کا یہ نمونہ قدیم ترین معلوم انسانی صورت گری قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Urgeschichtliches Museum Blaubeuren/J. Wiedmann
دیو قامت کلاہ
برلن میں جاری Restless Times: Archaeology in Germany نامی اس نمائش میں یہ طلائی کلاہ بھی رکھا گیا ہے۔ برنجی دور میں تخلیق کی گئی سونے کی چار ٹوپیوں میں سے تین برلن کی اس نمائش میں موجود ہیں۔ انہیں ایک ہزار سال قبل کے دور کے دیوتاؤں کی علامتوں اور خصوصیات سے منسلک کیا جاتا ہے، جو تب وسطی یورپ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے انتہائی مقدس تھے۔
تصویر: Museum für Vor- und Frühgeschichte Berlin/C. Plamp
کولون کا خزانہ
جرمنی سے دریافت ہونے والے ہزاروں قدیمی نوادرات پہلی صدی عیسوی کے ہیں۔ شہر کولون سے ملنے والے یہ دیے بھی برنجی دور کے ہیں۔ تاریخی حوالہ جات کے مطابق رومن سلطنت نے پہلی صدی عیسوی میں کولون میں ایک نئی آبادی بسائی تھی، جو تجارتی حوالے سے انتہائی اہم ثابت ہوئی۔ سن دو ہزار سات میں اسی شہر سے رومن دور کی ایک کشتی بھی دریافت ہوئی تھی، جس کی عمر انیس سو سال بنتی ہے۔
تصویر: Römisch-Germanisches Museum der Stadt Köln; Foto: Axel Thünker, DGPh
کیلٹک شہزادی کا راز
برلن کے Gropius Bau Museum میں جاری نمائش میں یہ زیور بھی موجود ہے۔ جرمنی کے شمالی شہر ہیربرٹنگن میں سن دو ہزار دس کے اختتام پر کیلٹک شہزادی کا ایک مقبرہ دریافت ہوا تھا۔ ساتھ ہی وہاں کانسی اور سونے کے بنے زیوارات بھی ملے تھے، جن سے ان شواہد کو تقویت ملتی ہے کہ چھٹی صدی قبل از مسیح میں بھی یورپ اور دیگر خطوں کے مابین تجارت ہوتی تھی۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege Stuttgart/Y. Mühleis
قبروں میں پوشیدہ رومن آسائشیں
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر ہالٹرن میں رومن دور کا ایک مخصوص مقبرہ دریافت کیا گیا تھا۔ اس مقبرے سے ایک شخص کی جسمانی باقیات کے علاوہ ایک ایسا بیڈ بھی ملا تھا، جو اس دور میں مُردوں کے لیے مخصوص تھا۔ ماہرین کے مطابق ایسے بیڈ اٹلی سے جرمنی منتقل کیے گئے تاکہ کسی رومن شہری کی موت کے بعد بھی اس کے آرام کا خیال رکھا جا سکے۔ دریافت شدہ یہ بیڈ ایک ہزار نو سو سال پرانا ہے۔
تصویر: LWL-Archäologie für Westfalen/S. Brentführer
پتھر کے زمانے کی ’سوئس چھری‘
یہ اوزار انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ استعمال کیا گیا۔ یہ چھری یا کلہاڑی نما آلہ افریقہ میں دو ملین برس پہلے بھی پایا جاتا تھا۔ یورو ایشیائی ممالک میں البتہ اس اہم اوزار کی تاریخ چھ لاکھ برس سے زائد پرانی نہیں۔ یہ اوزار دراصل کاٹنے، مکس کرنے، مارنے یا پھینکنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ تصویر میں نظر آنے والا یہ پتھریلا اوزار 35 ہزار سال پرانا ہے۔
تصویر: Archäologisches Museum Hamburg
آگ کے طوفان پر سواری
یہ کانسی کا بنا چھوٹا سا مجسمہ ان گیارہ مجسموں میں سے ایک ہے، جو سن دو ہزار دس میں برلن میں تاریخی مقامات کی کھدائی کے دوران دریافت ہوئے تھے۔ نازی دور حکومت میں ان مجسوں کو میوزیم سے اٹھا لیا گیا تھا اور ایک ڈپو میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہونے والی بمباری کی حدت اور تباہی نے اس مجسمے کے رنگ و روغن پر بھی منفی اثرات مرتب کیے۔
تصویر: Museum für Vor- und Frühgeschichte Berlin/A. Kleuker
یورپ کا قدیم ترین میدان جنگ
سن انیس سو نوے کے اواخر میں جرمن صوبے میکلن برگ بالائی پومیرانیا میں دریائے ٹولینزے کے کناروں پر جاری آثار قدیمہ کے لیے کھدائی کے دوران ہزاروں کی تعداد میں انسانی ہڈیاں اور مختلف قسم کے ہتھیار ملے تھے۔ اس مقام کو یورپ کا قدیم ترین جنگی میدان قرار دیا جاتا ہے، جہاں ہونے والے جنگی معرکے میں دیگر خطوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی شریک ہوئے تھے۔ اس میدان جنگ سے ملنے والی اشیا 33 سو برس پرانی ہیں۔
تصویر: Landesamt für Kultur und Denkmalpflege Mecklenburg-Vorpommern
جادوئی لیبارٹری
سن دو ہزار بارہ میں جرمن شہر وِٹن برگ میں ایک مکمل لیبارٹری دریافت کی گئی تھی۔ اس قدیمی لیبارٹری میں وہ تمام اہم آلات ملے، جو تجربہ گاہوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ دریافت کے وقت اس لیبارٹری سے ملنے والے آلات اور برتن چھوٹے چھوٹے حصوں میں ٹوٹے ہوئے تھے۔ تاہم جب ماہرین نے انہیں جوڑا تو معلوم ہوا کہ یہ تو یورپ کی پہلی سائنسی تجربہ گاہ تھی۔ اندازہ ہے کہ یہ سن پندرہ سو بیس تا پندرہ سو چالیس کے دور کی ہے۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege und Archäologie Sachsen-Anhalt/J. Lipták
قدیمی سامان آرائش
جنوبی جرمن علاقے میں واقع جھیل کونسٹانس کے قریب ہی یہ قدیمی نمونہ ملا۔ اندازہ ہے کہ یہ نئے سنگی دور کا ہے۔ مٹی کے پلاسٹر پر بنائی گئی یہ تخلیق اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ انسان چار ہزار سال قبل از مسیح بھی اپنے گھروں کو مختلف طریقوں سے سجاتے تھے اور ان کے آرائش کرتے تھے۔ اس نمونے میں دراصل اس زمانے کے خداؤں اور روایات کے مطابق گھر کو محفوظ بنانے والے طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege Hemmenhofen/M. Erne
’یسوع مسیح قبر میں‘
قرون وسطیٰ میں رومن کیتھولک مقدس مقامات کی زیارتوں کے دوران ان نمونوں کو بطور بیج یا زیبائش کے لیے اپنے بدن پر سجاتے تھے۔ کچھ لوگ تو ان بیجز کی مقدس حیثیت کی وجہ سے انہیں قبروں تک بھی لے جاتے تھے۔ یہ قدیمی بیج ہاربرگ (موجودہ جرمن شہر ہیمبرگ کا ایک علاقہ) سے ملا تھا۔ اندازہ ہے کہ ایسی عبادتی علامتیں تیرہویں اور چودہویں صدی میں اس علاقے میں لائی گئی تھیں۔ اس بیج میں ’یسوع مسیح گدھے پر سوار‘ ہیں۔
تصویر: Archäologisches Museum
Hamburg
نو سو گرام چاندی
سن دو ہزار پانچ میں ایک کوہ پیما نے اپر لوساتیا میں اپنی ایک مہم کے دوران اتفاق سے چاندی کے یہ سکے ڈھونڈ نکالے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر سکے گیارہویں صدی عیسوی کے ہیں۔ تجارتی عمل کے دوران یہ چاندی کے سکے دنیا کے مختلف علاقوں سے یورپ پہنچے، حتیٰ کہ کچھ سکے تو بغداد سے سفر کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے۔ باقاعدہ کرنسی کی ایجاد سے قبل یہی سکے خرید و فروخت کے لیے استعمال ہوتے تھے
تصویر: Landesamt für Archäologie Sachsen/U. Wohmann
13 تصاویر1 | 13
آج کی نسل انسانی کے عہد سے پہلے کی پیداوار
ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ چوپی ڈھانچہ سائنسی اصطلاح میں ہومو سیپیئن (Homo sapien) کہلانے والی موجودہ نوع انسانی کے عہد کے آغاز سے پہلے کے دور کی پیداوار ہے۔
اسی لیے محققین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ دریافت اس امر کا ثبوت بھی ہے کہ ہومو سیپیئن کے نسلی ارتقائی لحاظ سے پیش رو انسان بھی کس قدر سوجھ بوجھ کے مالک تھے، اس سے کہیں زیادہ جتنا کہ ان کے بارے میں آج تک عمومی خیال تھا۔
لاکھوں برس پرانے اس چوبی ڈھانچے کی دریافت سے پہلے تک ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ایسا ایک معلوم قدیمی چوبی ڈھانچہ صرف نو ہزار سال پرانا تھا۔
یہ قدیمی چوبی ڈھانچہ برطانیہ میں لیورپول یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک ٹیم نے افریقی ملک زیمبیا میں دریافت کیاتصویر: Larry Barham/AP/picture alliance
اس کے برعکس آج تک کا لکڑی کا بنا ہوا کوئی بھی ایسا فنی شاہکار جو انسانوں نے تیار کیا ہو اور جو قدیم ترین بھی ہو، تقریباﹰ سات لاکھ 80 ہزار برس پرانا ہے۔ یہ لکڑی کے باقاعدہ طور پر تیار کیے گئے ایک ایسے تختے کا ایک حصہ ہے، جو اسرائیل میں دریافت ہوا تھا۔
تقریباﹰ آٹھ سو فٹ کی بلندی پر دریافت
برطانیہ کی لیورپول یونیورسٹی کے ماہر آثار قدیمہ لیری بارہم نے اس بارے میں خبر رساں ا دارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ قدیمی چوبی ڈھانچہ سطح سمندر سے 235 میٹر یا 770 فٹ کی بلندی پر زیمبیا میں دریائے کالامبو کے کنارے ایک آبشار کے پاس سے دریافت کیا گیا۔
بہت سے ماہرین تاریخ و آثار قدیمہ ایران کو انسانی تہذیب کا گہوارہ قرار دیتے ہیں۔ ایران کے تاریخی ثقافتی مراکز اس ملک اور خطے کے شاندار ماضی کا احوال بیان کرتے ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
تخت جمشید
ہخامنشی شاہی خاندان نے تخت جمشید یا پرسیپولس نامی شہر کی تعمیر 520 قبل از مسیح شروع کی تھی۔ یہ قدیم پارس تہذیب کا مرکز تھا۔ سکندر اعظم یونانی نے ہخامنشی خاندان کی بادشاہت کا خاتمہ اپنی عسکری مہم جوئی کے دوران کیا۔ اس کے کھنڈرات میں محلات، مقبروں، عمارتوں کے ستون اور قدیم نوادرات قابل تعریف و توصیف ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
چغا زنبیل
سلطنت ایلام کے بادشاہ انتاشا ناپیرشا نے چغا زنبیل نامی شہر تیرہویں صدی قبل از مسیح میں تعیمر کیا تھا۔ میسوپوٹیمیا کی ریاستوں کے ساتھ جنگ و جدال ہی اس کی تعمیر کی وجہ تھی۔ اس قدیمی شہر کے وسط میں ایران میں واقع قدیم ترین مذہبی عبادت گاہ ہے۔ یہ تاریخ مقام ایرانی صوبے خوزستان میں واقع ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. D. Kley
پاسارگاد
یہ شیراز شہر سے نوے کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ یہ ہخامنشی بادشاہ سائرس اعظم کے دور میں سلطنت کا صدرمقام تھا۔ چھٹی صدی عیسوی اس کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس قدیمی شہر میں زیرزمین آب پاشی کا نظام قابل تعریف ہے۔ تصویر میں سائرس سوم کا مقبرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBroker/S. Auth
سینٹ تادؤس کی خانقاہ
یہ کلیساٴ سیاہ کے طور پر بھی مشہور ہے اور یہ آرمینیائی خانقاہ ہے۔ یہ ایرانی صوبے مغربی آذربائیجان میں واقع ہے۔ آرمینیائی مسیحی کمیونٹی کا خیال ہے کہ یہ یہودہ تادؤس کے نام منصوب کلیسا پہلی بار اڑسٹھ عیسوی میں تعمیر ہوئی تھی۔ ایک زلزلے میں تباہی کے بعد اس کو چودہویں صدی میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ آرمینیائی اور ایرانی مسیحی کمیونٹی کے علاوہ کئی اور ممالک کے مسیحی زائرین یہاں آتے ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
تبریز کا بازار
ایرانی شہر تبریز مشہور سلک روڈ پر واقع ہے۔ یہ برسوں سے کارباری اہمیت کا حامل رہا ہے۔ تاریخی بازار کے ساتھ ساتھ مذہبی اور تعلیمی مراکز کا شہر بھی تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا کا سب سے طویل احاطہ بازار تیرہویں صدی عیسوی کی نشانی ہے۔ تبریز شہر صفوی خاندان کی سلطنت کا دارالحکومت اور اسی دور میں شیعہ اسلام کو فروغ ملا اور سلطنت کا سرکاری مذہب قرار پایا۔
تصویر: picture-alliance/Dumont/T. Schulze
شیخ صفی الدین کا مزار
صفوی دور کے شیخ صفی الدین شاعر اور صوفی بزرگ تھے۔ اُن کا مزار یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل ہے۔اردبیل میں واقع مزار پہلے شیخ صفی الدین کا تربیتی و تعلیمی مرکز تھا۔ اربیل کا شہر صفوی دور حکومت میں ایک متبرک شہر خیال کیا جاتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Design Pics/P. Langer
یزد کا قدیمی شہر
جدید ایران کے تقریباً وسط میں یزد کا شہر واقع ہے۔ یہ صحرا میں ایک نخلستان پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اپنے دور میں یہ زرتشتی مذہب کا مرکز و محور بنا۔ عظیم الشان عبادت خانوں کی وجہ سے بھی یزد شہر مشہور ہے۔ اس شہر کے اندر آبی گزرگاہوں کا نظام جسے قناط ٹکنالوجی کہا جاتا ہےقابل دید تھا۔یہاںونڈ ٹاورز بھی قائم کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/R. Zimmermann
یزد کا آتش کدہ
زرتشتی مذہب میں آگ انتہائی مقدس و متبرک ہے اور تخلیق کائنات کی اساس خیال کی جاتی ہے۔ یزد کا آتشکدہ مرکزی عبادت خانہ تھا۔ یہ عبادت کے ساتھ ساتھ زائرین اور عقیدت مندوں کی ملاقاتوں اور تبادلہٴ خیال کا ایک مقام بھی تھا۔ زرتشتی دور حکومت دوسری سے ساتویں صدی عیسوی میں اپنے عروج پر تھا۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
باغ ارم
ارم گارڈن تاریخی فارسی باغات کی ایک متاثر کن مثال ہے جو قرون وسطی میں پہلی بار تعمیر ہوا تھا۔ اونچی دیواروں سے گھرا ہوا،ان میں عام طور پر واٹر چینل اور ایک سمر محل شامل ہوتا ہے۔ فارسی ثقافت کا ایک اہم حصہ،باغات نے زمینی جنت کے تصور کو مجسم بنایا۔ یہ لفظ در حقیقت باغیانے کے لئے قدیم فارسی اصطلاح سے ماخوذ ہے ، "پیرادیدا"۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
اصفہان کا سی وسہ پل
دریائے ژائندہ پر بنائے گئے گیارہ پلوں میں ایک سی وسہ پل ہے۔ یہ دو منزلہ پل صفوی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا سن تعمیر سولہویں صدی ہے۔ اس میں کئی چائے خانے بہت مشہور ہیں۔ اس مقام پر لوگ بڑے شوق و ذوق سے طعام کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
تہران کا گلستان محل
قاجار خاندان کے دور کی یہ نشانی ایرانی دارالحکومت تہران میں موجود ہے۔ اس کے بعض حصے سن 1925 اور 1945 کے درمیان مسمار کر دیے گئے تھے۔ ان مسمار شدہ جگہوں پر نئی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ آج کل گلستان محل میں قدیمی زیورات، ہتھیاروں اور ظروف کا میوزیم قائم ہے۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/S. Auth
تہران کا مینار آزادی
تہران میں تعمیر کیا گیا فریڈم ٹاور پینتالیس میٹر بلند ہے۔ یہ جدید دور کا ایک شاہکار خیال کیا جاتا ہے۔ اسلامی انقلاب سے قبل یہ یادگارِ شاہ کے نام سے موسوم تھا۔ اسے بادشاہ رضا شاہ نے ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار برس مکمل ہونے کے موقع پر تعمیر کروایا تھا۔ اس کا طرز تعمیر ساسانی دور سے ملتا ہے۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
12 تصاویر1 | 12
انہوں نے بتایا کہ یہ دریافت 2019ء میں اتفاقاﹰ ممکن ہوئی تھی۔ تب لیری بارہم اس منصوبے پر کام کرنے والی ماہرین کی ٹیم کے سربراہ بھی تھے۔ وہ اس بارے میں ایک تحقیقی مضمون کے مرکزی مصنف بھی ہیں، جو حال ہی میں سائنسی تحقیقی جریدے 'نیچر‘ میں شائع ہوا۔
اس برطانوی ماہر کے مطابق، ''ممکن ہے یہ قدیمی ڈھانچہ کسی ایسے پلیٹ فارم یا اونچی جگہ کا حصہ رہا ہو، جسے شاید جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کرنے، اوزاروں یا پھر خوراک کو ذخیرہ کرنے یا شاید کسی جھونپڑی وغیرہ کی تعمیر کے دوران بنیاد بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔‘‘
انسانوں کی ہومو ہائیڈل برگینسس نامی نسل بڑی اسمارٹ تھی
آرکیالوجسٹ لیری بارہم کہتے ہیں کہ لاکھوں سال پہلے کے انسانوں نے یہ ڈھانچہ ''دو درختوں کو ایک خاص شکل دے کر اس طرح تیار کیا تھا کہ وہ دونوں ہی اپنی اپنی فعالیت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے یا ایک دوسرے کو مستحکم رکھنے میں معاون تھے۔‘‘
اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ نے حال ہی میں ایک انتہائی قدیم مسجد کی باقیات دریافت کی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ دریافت اس خطے کی مسیحیت سے اسلام کی طرف منتقلی پر روشنی ڈالتی ہے۔
تصویر: MENAHEM KAHANA/AFP
ایک تاریخی دریافت
اس مسجد کی باقیات اسرائیل کے رحط نامی شہر سے ملی ہیں۔ رحط عربی خانہ بدوشوں کا شہر ہے، جنہیں بدو بھی کہا جاتا ہے۔ یہ باقیات اس شہر میں ایک نئے محلے کی تعمیر کے دوران ملی تھیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ باقیات 12 سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہیں۔
تصویر: MENAHEM KAHANA/AFP
مسجد کا ثبوت
ان تاریخی باقیات میں مربع شکل کا ایک کمرہ اور مکہ کی سمت کھڑی ایک دیوار بھی شامل ہیں۔ اس دیوار میں ایک نصف کرّے کا نشان بھی ہے، جو جنوب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسرائیل کے محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق ان منفرد نشانات و آثار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمارت ایک مسجد کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ ماہرہن کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اس وقت اس جگہ پر چند درجن افراد ہی نماز پڑھا کرتے تھے۔
تصویر: MENAHEM KAHANA/AFP
امراء کا علاقہ
مسجد سے کچھ دور ایک ’پرتعش اسٹیٹ بلڈنگ‘ کی باقیات بھی ملی ہیں، جن میں میز اور شیشے کے برتن بھی شامل ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں امیر لوگ رہتے تھے۔ تین سال قبل اسی علاقے سے ایک اور مسجد کی باقیات بھی ملی تھیں۔ وہ مسجد بھی ساتویں سے آٹھویں صدی عیسوی کے دوران تعمیر کی گئی تھی۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ان دونوں ’مساجد کا شمار دنیا کی قدیم ترین مساجد‘ میں ہوتا ہے۔
تصویر: Gil Cohen Magen/Xinhua/IMAGO
ادوار میں تبدیلی کے گواہ
محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں مساجد، املاک اور قریبی مکانات کی باقیات اس تاریخی تبدیلی پر روشنی ڈالتے ہیں، جو شمالی نجف کے علاقے میں ایک نئے مذہب کے طور پر اسلام کے متعارف کرائے جانے کے بعد عمل میں آئی تھی۔ اس محکمے کے مطابق، ’’ نئے مذہب اور نئی بادشاہت کے ساتھ اس خطے میں بتدریج ایک نئی ثقافت قائم ہوئی، جس نے یہاں سینکڑوں برسوں سے قائم سابقہ بازنطینی حکومت اور مسیحیت کی جگہ لے لی۔‘‘
تصویر: Gil Cohen Magen/Xinhua/IMAGO
ان مقامات کی حفاظت کی جائے گی
اس خطے میں مسلمانوں کو ساتویں صدی کے پہلے نصف حصے میں بہت سی فتوحات ملی تھیں۔ اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ ان مقامات کی حفاظت کی جائے گی۔ ان کو یا تو تاریخی یادگاروں یا پھر فعال مساجد میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس تصویر میں اسی جگہ کام کرنے والے مسلمان فلسطینی کارکن نماز ادا کر رہے ہیں۔
تصویر: MENAHEM KAHANA/AFP
5 تصاویر1 | 5
انہوں نے کہا کہ غالب امکان یہ ہے کہ یہ چوبی ڈھانچہ انسانوں کی ایک ایسے قسم کے افراد نے تیار کیا تھا، جو ہومو سیپیئنز کی پیش رو نسل کے طور پر آج سے سات لاکھ سال پہلے سے لے کر دو لاکھ سال پہلے تک زمین پر رہتے تھے۔
ارتقائی حیاتیات کے ماہر محققین کے مطابق یہ انسان آج کے انسانوں Homo sapien سے مختلف تھے اور سائنسی اصطلاح میں انہیں ہومو ہائیڈل برگینسس (Homo heidelbergensis) کہا جاتا ہے۔
لیورپول یونیورسٹی کے سائنس دان بارہم کے مطابق، ''اسی خطے سے ماضی میں انسانوں کی اس قدیمی نسل کی باقیات اور تاریخی شواہد مل چکے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ ہومو ہائیڈل برگینسس قسم کے انسان اس سے زیادہ عقل مند اور اسمارٹ تھے، جتنے وہ بظاہر دیکھنے میں لگتے تھے۔‘‘
م م / ش ر (روئٹرز، اے ایف پی)
سنسنی خیز برفانی دور کے نقوش والی چٹانوں کی دریافت
ماہرین آثار قدیمہ نے کولمبیا کے ایک دور دراز کے علاقے میں ایسی چٹانیں دیافت کی ہیں، جن پر قبل از تاریخ کے انسانوں اور جانوروں کی تصاویر نقش ہیں۔ ان میں سے کئی جانور اب صفحہ ہستی پر موجود ہی نہیں ہیں۔
تصویر: Jörg Denzer
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ پتھریلی پینٹنگز اپنی ذات کے اندر ایک بہت بڑا عجوبہ ہیں۔ جیومیٹری شکل کی یہ چٹانیں تقریبا بارہ کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان پر کئی ہزار تصاویر کنندہ ہیں۔
تصویر: Jörg Denzer
یہ تصاویر جانوروں، انسانوں، مچھلیوں، کچھوؤں، چھپکلیوں، پرندوں اور ایسے لوگوں کی ہیں، جنہوں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہیں اور محو رقص ہیں۔
تصویر: Jörg Denzer
ان تصاویر میں کچھ جانور ایسے ہیں، جو کہ اب اس دنیا سے ختم ہو چکے ہیں۔ ان میں دیو قامت تنبل، برفانی دور کے گھوڑے اور حَجری دور کے اونٹ کی طرح کے جانور شامل ہیں۔
تصویر: Jörg Denzer
ان میں ایک تصویر ماستودون کی بھی ہے۔ یہ جانور ہاتھیوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور جنوبی امریکا میں بارہ ہزار سال پہلے ختم ہو گیا تھا۔
تصویر: Jörg Denzer
ان تصاویر کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ راک آرٹ بارہ ہزار پانچ سو برس پہلے بھی موجود تھی۔ ماہرین آثار قدیمہ کو وہاں سے ایسے پتھروں کے ٹکڑے بھی ملے ہیں، جن کو پیس کر رنگ بنایا جاتا تھا۔
تصویر: Jörg Denzer
ایک برٹش کولمبین ٹیم نے ان حیران کن چٹانوں کو سن دو ہزار سترہ میں دریافت کیا تھا لیکن انہیں برطانوی چینل فور کی ڈاکومیٹری کے لیے خفیہ رکھا گیا تھا۔ یہ ڈاکومینٹری دسمبر میں نشر کی گئی ہے اور اس کا نام ’’جنگل میسٹری: لاسٹ کنگڈومز آف دا ایمازون‘‘ رکھا گیا ہے۔
تصویر: Guillermo Legaria/AFP
اصل میں یہ چٹانیں سیرنیا ڈے لا لنڈوسا پہاڑی سلسلے کے بالکل وسط میں اس جگہ واقع ہیں، جہاں گھنا جنگل پھیلا ہوا ہے۔ یہ علاقہ دارالحکومت بگوٹا سے تقریبا چار سو کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔ اگر سیٹلائٹ تصاویر سے دیکھا جائے تو پہاڑی سلسلے میں واقع یہ علاقہ سرسبز نظر آتا ہے اور ایمیزون برساتی جنگل میں گِھرا ہوا ہے۔
تصویر: Jörg Denzer
اس جنگلاتی اور پہاڑی مقام تک پہنچنا بہت ہی مشکل ہے۔ دوسرا چند برس پہلے تک یہ فارک باغیوں کے کنٹرول میں تھا، جس کی وجہ سے ماہرین آثار قدیمہ کی یہاں تک رسائی ناممکن تھی۔ فارک باغیوں کا چند برس پہلے بگوٹا حکومت کے ساتھ امن معاہدہ ہو چکا ہے اور اس طرح پچاس سالہ خانہ جنگی کا خاتمہ ممکن ہو سکا تھا۔
تصویر: Leonardo Munoz/Agencia EFE/imago images
ان چٹانوں پر انسانوں کے علاوہ ہرنوں، سانپوں، پرندوں، بندروں اور کیڑے مکوڑوں کی بھی تصاویر ہیں۔ ماہرہن کے مطابق اس دریافت سے ایمیزون علاقے میں برفانی دور کے انسان کی زندگی کا بہتر تجزیہ کیا جا سکے گا۔
تصویر: Jörg Denzer
ان تصاویر سے نہ صرف اس وقت کے جانوروں اور پودوں کی معلومات ملے گی بلکہ برفانی دور کے انسان کے رہن سہن اور رسم و رواج کا بھی پتا چل سکے گا۔