زینب قتل کیس: ملزم کو پھانسی دی جائے، عدالت
17 فروری 2018لاہور کی سینٹرل جیل میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج سجاد احمد نے سات سالہ زینب کے قتل کے جرم میں ملزم عمران علی کو چار جرائم کے ارتکاب میں موت کی سزا سنائی ہے۔ اس سزا کے ساتھ مجرم کو سات برس کی قید کے علاوہ بیس لاکھ روپے کا جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ مجرم نے قصور شہر میں چار جنوری کو زینب کو پہلے بہلا پھسلا کر اغوا کیا اور پھر جنسی زیادتی کے بعد اُسے قتل کیا تھا۔
زینب انصاری قتل کیس: مقدمے کی سماعت مکمل، فیصلہ ہفتے کے روز
زینب قتل کیس: ملزم عمران علی پر فرد جرم عائد
چار سالہ پاکستانی بچی پر جنسی حملہ اور قتل: دو ملزم گرفتار
’پاکستان گیارہ سے پندرہ برس کے بچوں کے لیے بہت پُرخطر‘
اِس لرزہ خیز واردات کے بعد پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ازخود ٹونس لیتے ہوئے پنجاب پولیس کو مجرم کی فوری گرفتاری کا حکم بھی دیا۔ اس جرم کا ارتکاب کرنے پر عمران علی کو 23 جنوری کو گرفتار کیا گیا تھا۔ مجرم عمران علی کی سکیورٹی کے تناظر میں یہ مقدمہ لاہور کے کوٹ لکھپت میں واقع سینٹرل جیل کے اندر چلایا گیا۔
زینب قتل کیس کے سرکاری وکیل استغاثہ احتشام قادر نے عدالتی فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سماعت کے دوران عدالت نے مجرم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا خاصا وقت بھی دیا لیکن اُس نے اپنے اعتراف جرم پر ہی اکتفا کیا۔ وکیل استغاثہ نے یہ بھی واضح کیا کہ عدالت کارروائی کے دوران مجرم کو یہ پیشکش بھی کی گئی تھی کہ وہ اگر کوئی بنیادی معلومات فراہم کرے گا تو اِس سے فائدہ بھی اُسے ہی حاصل ہو گا۔
کوٹ لکھپت جیل میں مقتولہ زینب کے والد حاجی محمد امین بھی موجود تھے۔ وہ آج ہفتے کی صبح میں فیصلہ سننے کے لیے قصور سے لاہور پہنچے تھے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کے خلاف مجرم اگلے پندرہ ایام کے دوران ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر سکتا ہے۔ پاکستان کے فوجداری قانون کے مطابق ماتحت عدالت سے دی گئی موت کی سزا کی توثیق اعلیٰ عدالت سے لازماً کی جاتی ہے۔ اس توثیقی عمل کے بعد ہی بقیہ آپشن استعمال کرنے یا نہ کرنے کی صورت میں سزا پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔