1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زینو ٹرانسپلانٹیشن سے زندگی بچانا ممکن ہے، ڈاکٹر محی الدین

6 اکتوبر 2023

یونیورسٹی آف میریلینڈ کے سرجنز نے انسانی جسم میں خنزیر کا دل لگانے کا دوسرا کامیاب آپریشن کیا ہے۔ سرجنز کی ٹیم میں شامل پاکستانی نژاد ڈاکٹر محی الدین نے بتایا کہ اس آپریشن کے لیے خنزیر کا دل استعمال کیا گیا ہے۔

USA Baltimore | Schweineherztransplantation
تصویر: Mark Teske/University of Maryland School of Medicine via AP/picture alliance

یونیورسٹی آف میریلینڈ کے سرجنز کی ٹیم کی سربراہی ڈاکٹر محی الدین اور ڈاکٹر بارٹلے پی گریفتھ نے کی۔ ڈاکٹر محی الدین کا تعلق پاکستان سے ہے اور انہوں نے ایم بی بی ایس کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج سے کیا تھا۔ انہوں نے ابتدائی سرجیکل ٹریننگ سول ہسپتال کراچی سے حاصل کی جس کے بعد وہ فیلو شپ پر امریکہ چلے گئے تھے۔

سرجنز کی اس ٹیم نے ابھی حال ہی میں 58 سالہ ایک مریض میں خنزیر کا دل لگانے کا دوسرا کامیاب آپریشن کیا۔ اس سے پہلے 2022ء میں اسی ٹیم نے دل کی تبدیلی کا پہلا  کامیاب آپریشن کیا تھا مگر مریض دو ماہ بعد ایک پگ وائرس کا شکار ہو کر انتقال کر گیا تھا۔

اس آپریشن کے کلینیکل ٹرائل کی اجازت کے بعد ہزاروں جانوں کو بچانا ممکن ہو گاتصویر: Mark Teske/University of Maryland School of Medicine via AP/picture alliance

آپریشن کی تفصیلات

یونیورسٹی آف میریلینڈ کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق یہ آپریشن لارنس فاسیٹ کا کیا گیا ہے، جو دل کی شریانوں کے ایک پیچیدہ مرض میں مبتلا تھے۔ کسی دوسرے انسان کا دل ان کا جسم میں طبی پیچیدگیوں کے باعث پیوند کرنا ممکن نہیں تھا۔

ڈاکٹر گریفتھ کے مطابق فاسیٹ کی زندگی بچانے کا واحد طریقہ خنزیر کا ہارٹ ٹرانسپلانٹ تھا، جس کے لیے ان کی ٹیم نے امریکہ کی فوڈ ایند ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے خصوصی اجازت نامہ حاصل کیا تھا۔

ڈاکٹر گریفتھ کہتے ہیں، ''اس آپریشن کے ذریعے ہم نے ایک ایسے مریض کی زندگی میں چند برس کا اضافے کرنے کی کوشش کی ہے، جو دل کے ایک پیچیدہ مرض میں مبتلا تھے اور محض چند ماہ یا ہفتوں تک زندہ رہ پاتے۔ ہم لارنس فاسیٹ کے انتہائی شکر گزار ہیں، جنہوں نے آپریشن اور بعد کی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہوئے ہمارے ساتھ تعاون کیا اور ہم میڈیکل سائنس میں ایک اور سنگ میل عبور کرنے کے قابل ہوئے۔‘‘

دوسرے ہرٹ ٹرانسپلانٹ کے لیے کیا تبدیلیاں کی گئی تھیں؟

پاکستانی نژاد ڈاکٹر محی الدین یونیورسٹی آف میریلینڈ میں کارڈیئیک زینوٹرانسپلانٹیشن پروگرام کے سائنٹیفک ڈائریکٹر بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جانوروں کے اعضاء کی انسانوں میں پیوند کاری کے عمل کو زینو ٹرانسپلانٹیشن کہا جاتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس طرح ممکنہ طور پر ہزاروں جانوں کو بچایا جا سکتا ہے لیکن اس سرجری سے منسلک خطرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے، ''اس میں سب  سے بڑی پیچیدگی جانوروں سے انسانوں میں نامعلوم بیماریاں منتقل ہونا ہے۔ اس کے علاوہ زینو ٹرانسپلانٹ سے انسان کا قدرتی مدافعتی عمل بہت متحرک ہو جاتا ہے، جو لگائے گئے عضو کو مسترد کر دیتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر محی الدین کے مطابق 2022ء میں ان کی ٹیم نے انسان میں خنزیر کا دل لگانے جو پہلا آپریشن کیا تھا، اس میں مریض اگرچہ دو ماہ بعد انتقال کر گیا تھا مگر اس تجربے سے ان کی ٹیم کو کئی انتہائی اہم معلومات حاصل ہوئیں تھیں۔ ایف ڈی اے نے اسی ڈیٹا کی بنیاد پر ان کی ٹیم کو دوسرے آپریشن کی اجازت دی تھی۔

ڈاکٹر محی الدین مزید بتاتے ہیں کہ پہلے کامیاب آپریشن کے بعد مریض ڈیوڈ بینٹ ایک پگ وائرس کا شکار ہو گئے تھے، جس سے بچاؤ کے لیے اس دفعہ ڈونر آرگن کو مختلف سکریننگ ٹیسٹوں سے گزارا گیا تھا اور آپریشن سے قبل اسے ایک مشین پرفیوژن "ہرٹ باکس" میں رکھا گیا تھا۔

آرگن ریجیکشن کو کس طرح روکا گیا؟

ڈاکٹر محی الدین بتاتے ہیں کہ انسانوں میں جانوروں کے اعضاء کی پیوند کاری میں خنزیر کے اعضاء کو اولیت دی جاتی ہے، ''یہ ہمارے جینیاتی آباء میں سے ہیں۔ مگر اس عمل میں سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ انسانی جسم کا مدافعتی نظام ڈونر آرگن کو مسترد کر دیتا ہے۔‘‘

2022ء میں انسان میں خنزیر کا دل لگانے جو پہلا آپریشن کیا تھا، اس میں مریض اگرچہ دو ماہ بعد انتقال کر گیا تھاتصویر: ASSOCIATED PRESS/picture alliance

وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے کے حل کے لیے دوسرے ہارٹ ٹرانسپلانٹ میں خنزیر کا جو دل استعمال کیا گیا اس میں دس جینیاتی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ ان میں تین ایسی جینز جن کا تعلق فوری رد عمل سے تھا انہیں جینیٹک انجینئرنگ کے ذریعے حذف کر دیا گیا تھا۔ یہ جینز انسانی جسم میں خنزیر کے دل کی پیوند کاری کو فورا مسترد کر دیتی تھیں۔

ڈاکٹر محی الدین مزید بتاتے ہیں کہ ان تین جینز کی جگہ چھ نئی انسانی جینز خنزیر کے دل میں داخل کی گئی تھیں، جن کا تعلق امیون سسٹم کے رد عمل کو روکنے اور ڈونر عضو کو قبول کرنے سے تھا۔ اس کے علاوہ ایک اضافی جین بھی خنزیر کے دل سے نکال دی گئی تھی، جس سے دل کے ٹشوز کی نشونما حد سے زیادہ تیزی سے بڑھتی تھی۔

مستقبل میں پیش رفت

ڈاکٹر محی الدین کے مطابق زینو ٹرانسپلانٹیشن اعضاء کی پیوند کاری کے عمل میں تیزی سے جگہ بنا رہا ہے۔ صرف امریکہ میں فی الوقت ایک لاکھ پانچ ہزار مریض آرگن ٹرانسپلانٹ کے منتظر ہیں، جن کے لیے انسانی عضو دستیاب نہیں ہیں۔ اعضاء کی عدم دستیابی کے باعث ہر روز ایسے سترہ مریض انتقال کر جاتے ہیں۔ وہ مزید  کہتے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ زینو ٹرانسپلانٹ کے اس دوسرے کامیاب آپریشن کے نتائج کو دیکھتے ہوئے ایف ڈی اے اگلے چند برسوں میں اس کے کلینیکل ٹرائل کی اجازت دیدے گا، جس کے بعد ہزاروں جانوں کو بچانا ممکن ہو گا۔

مریض لارنس فاسیٹ کیا کہتے ہیں؟

 یونیورسٹی آف میریلینڈ کی جاری کردہ معلومات کے مطابق مریض لارنس فاسیٹ کو 14 ستمبر کو دل فیل ہو جانے اور دل کی شریانوں میں پیچیدگیوں کے بعد ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ آپریشن سے پہلے انہوں نے سرجنز اور سوشل ورکرز سے ملاقاتیں کیں تھیں، جن میں انہیں آپریشن کے دوران اور بعد کی پیچیدگیوں سے مکمل آگاہ کر دیا گیا تھا۔

آپریشن کے ایک ہفتے بعد سے فاسیٹ تیزی سے روبۂ صحت ہیں۔ آپریشن سے پہلے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ مزید کچھ سال  گزارنا چاہتے ہیں اور ان کی آخری امید خنزیر کے دل کی پیوند کاری ہے۔ لیکن پھر بھی ان کے پاس ایک امید اور موقع تو ہے اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ آپریشن ضرور کامیاب ہو گا۔

جسمانی اعضاء کی تھری ڈی پرنٹنگ

03:57

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں