سؤر کا گوشت کھانے سے پہلے اسلامی دعا، ٹک ٹاکر کو قید کی سزا
20 ستمبر 2023
انڈونیشیا کی ایک عدالت نے ایک خاتون ٹک ٹاکر کو ایک ویڈیو میں توہین مذہب کے ارتکاب کے جرم میں دو سال قید اور بھاری جرمانے کی سزائیں سنا دی ہیں۔ اس خاتون نے اپنی ایک ویڈیو میں سؤر کا گوشت کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھی تھی۔
اشتہار
جکارتہ سے بدھ 20 ستمبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس انڈونیشی خاتون کا نام لینا مکھرجی ہے اور اس کی عمر 33 برس ہے۔ اسے جنوبی سماٹرا کے شہر پالیم بانگ کی ایک عدالت نے گزشتہ روز دو سال قید اور 250 ملین روپے جرمانے کی سزائیں سنا دیں۔
اس خاتون پر، جو اپنی شناخت ایک مسلم شہری کے طور پر کراتی ہے، الزام تھا کہ اس نے اسی سال سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر ایک ایسی ویڈیو شیئر کی تھی، جس میں اس کے سامنے سؤر کا گوشت رکھا ہوا تھا، اور اس نے بسم اللہ پڑھ کر اسے کھانا شروع کر دیا تھا۔
ویڈیو وائرل ہو گئی تھی
لینا مکھرجی کی یہ ویڈیو وائرل ہو گئی تھی اور اسے کئی ملین افراد نے دیکھا تھا۔ اس ویڈیو پر ملک کے قدامت پسند مسلم حلقوں نے شدید تنقید بھی کی تھی۔
بعد میں مارچ کے مہینے میں پالیم بانگ ہی کے ایک شہری نے اس خاتون کے خلاف یہ شکایت کرتے ہوئے ایک مقدمہ بھی درج کروا دیا تھا کہ وہ بطور مذہب اسلام کی توہین کی مرتکب ہوئی تھی۔
اس مقدمے میں عدالت نے گزشتہ روز اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ خاتون ٹک ٹاکر ''ایسی معلومات پھیلانے کی مرتکب ہوئی، جن کا مقصد ایک مخصوص مذہب اور اس کے ماننے والوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینا تھا۔‘‘
سب سے بڑی مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا میں عدالت نے لینا مکھرجی کو دو سال کی سزائے قید کے علاوہ 250 ملین انڈونیشی روپے کا جو بھاری جرمانہ بھی کیا، وہ 16,200 امریکی ڈالر کے برابر بنتا ہے۔ یہ ٹک ٹاکر اگر جرمانے کی رقم ادا نہ کر سکی، تو اسے دو سال کے بعد اضافی طور پر مزید تین ماہ جیل کاٹنا ہو گی۔
وہ مدرسہ، جہاں قرآن اشاروں کی زبان میں حفظ کیا جاتا ہے
یہ اسلامی بورڈنگ سکول انڈونیشیا کے شہر یوگیاکارتا کے پرسکون مضافات میں واقع ہے لیکن عام مدارس کے برعکس اس مدرسے سے کبھی بھی تلاوتِ قرآن کی آواز نہیں آئی۔ تفصیلات اس پکچر گیلری میں!
تصویر: Juni Kriswanto/AFP/Getty Images
یہ بہرے بچوں کے لیے مخصوص ایک مذہبی بورڈنگ اسکول ہے۔ یہاں طلبہ عربی اشاروں کی زبان میں قرآن سیکھتے ہیں۔ اس سکول میں ملک بھر سے 115 ایسے بچے اور بچیاں داخل ہو چکے ہیں، جو اشاروں کی زبان میں قرآن کو حفظ کرنے کا خواب رکھتے ہیں۔
تصویر: Juni Kriswanto/AFP/Getty Images
وزارت مذہبی امور کے مطابق اسلامی بورڈنگ اسکول انڈونیشیا میں زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں، جہاں تقریباً 40 لاکھ طلبہ ملک بھر کے 27 ہزار اداروں میں مقیم ہیں۔ لیکن یہ ادارہ دنیا میں سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشیا کے ان گِنے چُنے اداروں میں سے ایک ہے، جہاں بہرے بچوں کو مذہبی تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔
تصویر: Juni Kriswanto/AFP/Getty Images
اس سکول کے بانی ابوکہفی بتاتے ہیں، ’’یہ سب میری بے چینی سے ہوا، جب مجھے پتہ چلا کہ انڈونیشیا میں بہرے بچے اپنے مذہب کے بارے میں نہیں جانتے۔‘‘ اڑتالیس سالہ ابوکہفی کی سن 2019ء میں چند بہرے افراد سے دوستی ہوئی اور اس وقت انہیں یہ احساس ہوا کہ اسلام کے حوالے سے ان کے پاس کوئی زیادہ معلومات نہیں ہیں۔
تصویر: Juni Kriswanto/AFP/Getty Images
اس مدرسے میں جائیں تو قطاروں میں بیٹھے ہوئے بچوں کی نظریں کتابوں پر ہوتی ہیں اور ان کے ہاتھ تیزی سے حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔ ہوا میں صرف اسی وقت کوئی گونج پیدا ہوتی ہے، جب کوئی بچہ کلاس کے سامنے اشاروں کی زبان میں قرآن سناتا ہے اور پھر ابوکہفی مسرت سے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں۔
تصویر: Juni Kriswanto/AFP/Getty Images
یہ ان بچوں کے لیے ایک مشکل مذہبی تعلیم ہے، جنہوں نے کبھی مذہب یا قرآن کے بارے میں نہیں سیکھا اور جن کی مادری زبان انڈونیشیائی ہے۔ ابوکہفی بتاتے ہیں، ''یہ بہت ہی مشکل ہے۔‘‘
تصویر: Juni Kriswanto/AFP/Getty Images
لڑکوں کے کلاس روم سے کوئی 100 میٹر کی دوری پر لڑکیوں کا کلاس روم ہے اور وہاں بھی بالکل ایسی ہی پریکٹس چل رہی ہوتی ہے۔ بیس سالہ طالبہ لیلہ دھیا الحق کے لیے اس سکول میں پڑھنا اس کے والدین کے لیے خوشی اور فخر کا باعث ہے۔ وہ اس سکول کی سب سے پرانی طالبہ بھی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ''میں اپنی ماں اور باپ کے ساتھ جنت میں جانا چاہتی ہوں اور میں اس جگہ کو بھی چھوڑنا نہیں چاہتی۔‘‘
تصویر: Juni Kriswanto/AFP/Getty Images
عام مدارس میں بچے متن کو اونچی آواز میں پڑھتے ہیں اور آیات کو حفظ کر لیتے ہیں لیکن سماعت سے محروم بچوں کو تیس حصوں پر مشتمل قرآن کے ہر ہر حرف کو بڑی محنت کے ساتھ یاد رکھنا پڑتا ہے۔ تیرہ سالہ محمد رافع دو برس قبل یہاں داخل ہوئے تھے۔ ان کا ایک مترجم کے ذریعے کہنا تھا، ’’میں یہاں بہت خوش ہوں۔ گھر میں میرے لیے بہت خاموشی ہوتی تھی کیوں وہاں سب نارمل ہیں اور کوئی بھی بہرا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Juni Kriswanto/AFP/Getty Images
اس سکول کے بچوں کے اخراجات خود ابوکہفی اور مخیر حضرات اٹھاتے ہیں کیوں کہ یہاں پڑھنے والے زیادہ تر بچوں کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے اور وہ کتابوں، یونیفارم اور دیگر رہائشی اخراجات کے لیے ماہانہ ایک ملین روپے (68 ڈالر) کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔
تصویر: Juni Kriswanto/AFP/Getty Images
اس بورڈنگ سکول میں بچے اسلامی قانون، ریاضی، سائنس اور غیر ملکی زبانیں بھی پڑھتے ہیں تاکہ وہ مستقبل میں اعلیٰ سطح پر اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ اس سکول کا معاشرتی اثر یہ بھی ہے کہ ان بہرے بچوں کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے، جنہیں اکثر امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے۔
تصویر: Juni Kriswanto/AFP/Getty Images
زینل عارفین کا گیارہ سالہ بچہ اس سکول میں پڑھتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ''میرے بیٹے میں بہت کم خود اعتمادی تھی، وہ جانتا تھا کہ وہ مختلف ہے۔ لیکن وہ جب سے یہاں آیا ہے، اسے لوگوں کے سامنے آنے میں شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے مجھے بتایا کہ خدا نے اسے ایسے ہی بنایا ہے اور اس نے خود کو اس حالت میں تسلیم کر لیا ہے۔‘‘
تصویر: Juni Kriswanto/AFP/Getty Images
10 تصاویر1 | 10
علماء کونسل کا فتویٰ
پالیم بانگ کی مقامی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسلام میں، جو انڈونیشیا میں اکثریتی آبادی کا مذہب ہے، سؤر کا گوشت کھانا ممنوع ہے۔ لیکن لینا مکھرجی اپنی ٹک ٹاک ویڈیو میں اس جانور کا گوشت کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ کر اس لیے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی وجہ بنیں کہ مسلمان یہ دعائیہ کلمات حلال خوراک کھانے سے پہلے پڑھتے ہیں۔
اس ٹک ٹاک ویڈیو پر انڈونیشیا میں بہت زیادہ تنقید کی گئی تھی اور ملک کے اعلیٰ ترین اسلامی ادارے انڈونیشی علماء کونسل نے بھی بعد میں فتویٰ دے دیا تھا کہ یہ خاتون ٹک ٹاکر اپنی مذکورہ ویڈیو میں توہین مذہب کی مرتکب ہوئی تھی۔