سائبر حملوں کے خلاف بائیڈن کی ٹیم کا سخت کارروائی کا وعدہ
21 دسمبر 2020
امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی ٹیم کا کہنا ہے کہ سائبر حملوں میں مشتبہ طور پر روس کا ہاتھ ہونے کے سبب بائیڈن انتظامیہ اس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے سے بھی زیادہ اقدام کرنے پر غور کرے گی۔
اشتہار
جو بائیڈن کی ٹیم کے چیف آف اسٹاف نے اتوار 20 دسمبر کو کہا کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے کے بعد مشتبہ سائبر حملوں میں ملوث ہونے کے لیے روس کے خلاف سخت موقف اپنائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سائبر جاسوسی جیسی کاروائیوں کے لیے روس پر پابندیاں عائد کرنے سے بھی زیادہ اقدامات پر غور کیا جائے گا۔
نامزد چیف آف اسٹاف رون کلین نے امریکی نیٹ ورک سی بی ایس کو بتایا، ''جو اس کے لیے ذمہ دار ہیں انہیں اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔یہ صرف پابندیوں کی حد تک نہیں ہوگی۔ اس میں ایسے اقدامات بھی شامل ہیں کہ ہم بیرونی ایکٹرز کی ایسا کرنے کی صلاحیت کو ہی محدود کر دیں، بصورت دیگر وہ مزیدخطرناک حملوں میں ملوث ہوسکتے ہیں۔''
جو بائیڈن کی انتظامیہ امریکی اداروں پر مبینہ سائبر حملوں میں ملوث ہونے کے لیے بطور سزا روس کے خلاف کارروائی کے لیے متعدد متبادل پر غور کر رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے بڑے پیمانے پر ہونے والے ان حملوں کا علم ہوا تھا جس میں کئی امریکی حکومتی ایجنسیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ دوسری جانب روس نے ان حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
سائبر حملے کس پر ہوئے؟
حملہ آوروں نے 40 سے زائد وفاقی ایجنسیوں میں نقب لگائے تھے، جن میں محکمہ خزانہ، توانائی اور تجارت کے علاوہ حکومتی ٹھیکیداروں کا محکمہ شامل ہے۔ ملکی سطح پر حکام اور سائبر سکیورٹی کے ماہرین اب بھی اس بات کا تعین کرنے کی کوشش میں لگے ہیں کہ ہیکنگ مہم کس بڑے پیمانے پر انجام دی گئی۔ اس ہیکنگ کے لیے ٹیکساس میں واقع آئی ٹی کمپنی سولر ونڈز کے ذریعے تیار کردہ انٹرپرائز مینجمنٹ نیٹ ورک سافٹ ویئر کا استعمال کیا گیا۔
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔
تصویر: Klaus Aßmann
9 تصاویر1 | 9
ہیکرز نے اس سافٹ ویئر کو اسپرنگ بورڈ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ان کلائنٹ تک رسائی حاصل کر لی جس میں امریکی وفاقی ادارے بھی شامل ہیں۔ محققین کے مطابق ان سائبر حملوں کے ذریعے دنیا بھر میں کئی اہداف کو نشانہ بنایا گیا اور متاثرہ افراد کی فہرست ابھی بھی سامنے آرہی ہے۔
ٹرمپ نے ہیکنگ کو اہمیت نہیں دی
سائبرسکیورٹی کمپنی فائر آئی کو بھی اس ماہ کے اوائل میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے سربراہ کیون مانڈیا کا کہنا ہے کہ مزید سائبر حملوں کا خدشہ ہے اور اگلا حملہ ہونے تک وقت بہت کم بچا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ''ان حملوں میں مزید توسیع کا امکان ہے اور اگر ہم نے کچھ نہیں کیا تو یہ بد سے بد تر ہوسکتے ہیں۔''
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے گزشتہ جمعے کو کہا تھا کہ یہ بات پوری طرح سے واضح ہے کہ ان حملوں کے پیچھے روس کا ہاتھ ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اس بات کو اتنی اہمیت نہیں دی اور اپنی انتظامیہ کے اندازوں پر ہی شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''سائبر ہیکنگ حقیت میں اتنی بڑی نہیں ہے جتنی جعلی میڈیا میں دکھائی جا رہی ہے۔''
ان کا کہنا تھا، ''جب بھی کچھ ہوتا ہے تو لیم اسٹریم کی زبان پر روس روس روس کے رٹ کی جاری ہوجاتی ہے، کیونکہ وہ بیشتر مالی وجوہات کی بناء پر، اس امکان پر بات کرنے سے ڈرتا ہے کہ یہ چین بھی ہوسکتا ہے۔ (ایسا ہوسکتا ہے!) ''
اشتہار
سخت کارروائی کا مطالبہ
اس دوران ڈیموکریٹ اور ریپبلکن دونوں ہی جماعتوں کے ارکان پارلیمان نے سائبر حملوں کے خلاف سخت کارروائی کا مشترکہ مطالبہ کیا ہے۔ ریپبلکن سینیٹر میٹ رومنی نے ڈیٹا سے چھیڑ چھاڑ کو سنگین خطرہ بتاتے ہوئے کہا کہ ''اس پر سخت جوابی کاروائی کی ضرورت ہے۔''
انہوں نے اس حوالے سے ٹرمپ کے بیان کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ انہیں صدر کے بیان سے مایوسی ہوئی ہے تاہم ان سے اسی کی توقع تھی۔ ''جب بھی روس کا نام آتا ہے توصدر اپنی آنکھیں موند لیتے ہیں۔''
ڈیموکریٹک سینیٹر مارک وارنر کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ سائبر حملے اب بھی ہورہے ہیں اور حکام کو اب بھی اس کے بارے میں مکمل معلومات
نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا یہ اب بھی واضح نہیں ہے کہ یہ جاسوسی تھی یا پھر سائبر حملہ تھا۔ انہوں نے بھی میٹ رومنی کی حمایت کرتے ہوئے اس کے خلاف سخت جوابی کارروائی کا مطالبہ کیا۔