سائبر کرائمز کی ماہر تفتيش کار اور پوليس افسر ’مِس جرمنی‘
24 فروری 2019
اس سال ’مس جرمنی‘ کے ٹائٹل سے ايک ايسی اٹھائیس سالہ خاتون کو نوازا گيا ہے، جو ايک پوليس افسر ہيں اور انٹرنيٹ پر کيے جانے والے جرائم کی ماہر تفتيش کار بھی ہيں۔
اشتہار
نادين بيئرنيز کو ہفتہ تيئس فروری کے روز منعقدہ فائنل مقابلے ميں ’مِس جرمنی‘ کے ٹائٹل کا حقدار قرار ديا گيا۔ سب سے طويل عرصے سے چلے آر رہے جرمنی کے اس مقابلہ حسن کا فائل، جرمنی اور فرانس کی سرحد کے قريب واقع شہر رُسٹ کے ’يوروپا پارک‘ ميں منعقد ہوا۔ فائنل ميں پندرہ خواتين نے شرکت کی، جن ميں نادين بيئرنيز سرخرو ہوئيں۔ ’مِس جرمنی‘ کا ٹائٹل جيتنے کے بعد نادين بيئرنيز نے کہا، ’’ميرا خواب سچ ہو گيا۔‘‘
نادين بيئرنيز پيشے کے اعتبار سے در اصل ايک پوليس اہلکار ہيں اور سائبر کرائمز يا انٹرنيٹ پر کيے جانے والے جرائم کی ماہر تفتيش کار ہيں۔ ان کا تعلق جرمن رياست سيکسنی کے شہر ڈريسڈن سے ہے البتہ وہ اشٹٹ گارٹ ميں تعينات ہيں۔ نادين بيئرنيز سائيکل چلانے اور ورزش کرنے کا شوق رکھتی ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ يہ ٹائٹل جيتنے کے بعد ايک سال کے ليے چھٹی کی درخواست ديں گی تاکہ وہ اس دوران ’مس جرمنی‘ کے طور پر اپنی ذمہ دارياں سر انجام دے سکيں۔
اٹھائيس سالہ نادين بيئرنز کو چا رکنی جيوری نے چنا جس ميں معروف برطانوی ڈانسر نيکيٹا تھومسن بھی شامل تھيں۔ مقابلے ميں دوسری پوزيشن پر ہيمبرگ سے تعلق رکھنے والی تيئس سالہ طالبہ پريسيلا کلائن آئيں۔ نادين بيئرنيز کو ’مِس جرمنی‘ کا ٹائٹل جيتنے پر ايک سال کے ليے بلا معاوضہ سفر، ايک کار اور ايک سال کے ليے کپڑے و ديگر ملبوسات وغيرہ بھی فراہم کيے جائيں گے۔
پوليس کے محکمے ميں نادين بيئرنيز کو ان کے ابتدائی ڈيڑھ سال کے ليے مان ہائم کے قريب شہر برخسال ميں تعينات کيا گيا تھا۔ وہ وہاں فٹ بال ميچوں کے دوران شائقين اور احتجاجی مظاہروں ميں شامل افراد کو کنٹرول کرنے کا کام کيا کرتی تھيں۔ پھر چھ برس قبل وہ اشٹٹ گارٹ منتقل ہو گئيں۔ تين برس قبل نادين نے سائبر کرائمز يعنی انٹرنيٹ پر کيے جانے والے جرائم کی تحقيقات کرنا شروع کيں۔ وہ کہتی ہيں، ’’ميں اب پچھلے دس سال سے ايک پوليس افسر ہوں اور مجھے کبھی يہ محسوس نہيں ہوا کہ ميں نے غلط راہ چنی ہے۔‘‘ البتہ اب فيشن کی دنيا کی ايک معروف شخصيت ہونے کے سبب ان کے سامنے بالکل ہی مختلف وقت ہے۔
مس یونیورس 2018 کا تاج پہنا فلپائن کی ’حسینہ‘ نے
سن دو ہزار اٹھارہ کی مس یونیورس کا اعزاز فلپائن کی ’حسینہ‘ کیتریونا گرے نے جیت لیا ہے۔ اس مقابلہ حسن میں چورانوے خواتین نے حصہ لیا۔ خاص بات یہ تھی کہ مس یونیورس کے مقابلے میں پہلی مرتبہ ایک ٹرانس جینڈر نے بھی شرکت کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Amarasinghe
مس فلپائن بنی مس یونیورس
کیتریونا گرے کو مس یونیورس 2018 کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ گرے کی والدہ فلپائن سے تعلق رکھی ہیں جبکہ ان کے والد آسٹریلین ہیں۔ چوبیس سالہ سنگر اور ماڈل گرے نے کہا کہ انہوں نے اس تقریب میں سرخ لباس اس لیے زیب تن کیا، کیونکہ یہ ان کی والدہ کی خواہش تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی والدہ نے یہ خواہش اس وقت ظاہر کی تھی، جب وہ صرف تیرہ برس کی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Suwanrumpha
فرسٹ رنر اپ: جنوبی افریقہ کی ٹیمارین گرین
اس مرتبہ مس یونیورس کے ٹائٹل کے لیے ٹیمارین گرین کو فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا۔ کیپ ٹاؤں سے تعلق رکھنے والی چوبیس سالہ گرین میڈکل کی طالبہ ہیں۔ وہ ماضی میں تب دق کی مریضہ تھیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس اعزاز کو اس بیماری سے متعلق آگاہی کے لیے استعمال کریں گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Suwanrumpha
سکینڈ رنر اپ: وینزویلا کی اسٹیفنی گوٹریز
بنکاک میں ہوئے اس مقابلہ حسن میں انیس سالہ اسٹیفنی گوٹریز کو دوسرے رنر اپ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ انہوں نے اس مقابلے کے ججز کو بتایا کہ وہ وینزویلا کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور ان گھر میں کام کرنے والی صرف خواتین ہی ہیں۔ گوٹریز نے سن دو ہزار سترہ میں مس وینزویلا کا ٹائٹل جیتا تھا۔ تیرہ دسمبر سن انیس سو اٹھارہ کو انہوں نے ’خوبصورتی کا یہ تاج اپنی ہم وطن ازیبیلا روڈریگوز کے سپرد کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Suwanrumpha
تاریخی مقابلہ: ہسپانوی امیدوار انخیلا پونس
اگرچہ انخیلا پونس بیس امیدواروں کے مابین ہونے والے حتمی مقابلے میں منتخب نہ ہو سکی تھیں لیکن اس مقابلے میں ان کی شرکت ہی ایک تاریخی موڑ قرار دی جا رہی ہے۔ وہ پہلی ٹرانس جینڈر خاتون ہیں، جنہیں مس اسپین کا اعزاز ملا۔ مس یونیورس کے فائنل راؤنڈ سے قبل بنکاک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پونس نے کہا تھا کہ ’یہاں ہونا ہی میرے لیے کافی ہے‘۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Amarasinghe
مس جرمنی: سیلین ویلرز
پچیس سالہ سیلین ویلرز کا تعلق اشٹٹ گارٹ سے ہے۔ وہ بزنس اسٹوڈنٹ ہیں۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں وہ مس جرمنی منتخب کی گئی تھیں۔ وہ ٹیلی وژن کے ایک پروگرام کی میزبانی بھی کرتی ہیں۔ وہ آئندہ دس برسوں کے دوران وہ اپنا بزنس شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ وہ خواتین کے حقوق کی خاطر سرگرم بھی ہیں۔