روسی سائنسدانوں نے سائبیریا کے انتہائی شمالی علاقے سے گینڈے کا ایک ایسا ڈھانچا برآمد کیا ہے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر برفانی دور کا ہے۔
اشتہار
سائنسدانوں کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ برفانی دور کے کسی جانور کی باقیات اتنی اچھی حالت میں ملیں ہیں۔ سائنسدانوں کے اندازوں کے مطابق گینڈے کے یہ باقیات بیس ہزار برس سے پچاس ہزار برس تک پرانی ہیں۔
روسی میڈیا کے مطابق سائنسدانوں کو ملک کے انتہائی شمالی اور برف سے پُر یکتیا خطے سے یہ ہزاروں برس پرانی باقیات ملیں۔ یہ علاقہ روس میں ہیروں کی پیداوار کے لیے مشہور ہے اور یہاں یہ ڈھانچا رواں برس اگست میں ملا تھا۔ سائنسدانوں کے مطابق برفانی دور کے جانوروں کی باقیات کی بہترین حالت میں برآمدگی کے حوالے سے یہ ڈھانچا ایک نیا اضافہ ہے۔ روسی خبر رساں ادارے یاکوتیا 24 کے مطابق ڈھانچے میں بازو اور ٹانگیں، آنتوں کے کچھ حصے حتیٰ کہ کچھ جگہوں پر کھال تک درست حالت میں ملی ہے۔
روسی سائنسدان ویلاری پلوٹنیکوف کے مطابق اس گینڈے کے سینگ پر نشانات سے واضح ہے کہ یہ اسے خوارک حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ پلوٹنیکوف کے مطابق موت کے وقت ممکنہ طور پر اس گینڈے کی عمر تین یا چار برس تھی۔ انہوں نے بتایا کہ غالباﹰ یہ گینڈا ڈوب کر ہلاک ہوا۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دریافتیں
اس ڈھانچے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ بیس سے پچاس ہزار برس پرانا ہے۔ تاہم اس ڈھانچے کی حتمی عمر کا پتا اس کی لیبارٹری منتقلی اور ریڈیو کاربن مطالعے سے ممکن ہو گا۔
یہ گینڈا دریائے ٹیرختیاخ سے ملا ہے۔ سن 2014 میں قریب ہی ایک مقام سے ایک اور گینڈے کی باقیات بھی ملیں تھیں۔ محققین نے اس گینڈے کے ڈھانچے کی عمر انیس ہزار برس لگائی تھی۔
حالیہ کچھ برسوں میں کھال والے گینڈوں اور مموتھس اور غاروں والے شیروں اور برفانی گھوڑوں کی کئی باقیات ملیں ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ عالمی حدت کی وجہ سے سائبیریا خطے میں برف کا پگھلنا، ان دریافتوں کی وجہ ہو سکتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آرکٹک خطے میں برف کے پگھلاؤ کی رفتار دنیا کے کسی بھی دوسرے حصے کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیز ہے۔
ٹیکسلا، انسانی تاریخ کا عظیم ورثہ
ضلع راولپنڈی کی تحصیل ٹیکسلا میں اسی نام کا قدیم شہر دارالحکومت اسلام آباد سے بتیس کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ ٹیکسلا میں زمانہ قبل ازمسیح کی عظیم باقیات یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نازک لیکن تاحال محفوظ
یہ تصویر ماہرین آثار قدیمہ کو موہڑہ مرادو کے ایوان مجلس کے کمرہ نمبر نو سے ملنے والے ایک ایسے سٹوپا کی ہے، جو ہے تو چونا مٹی کا بنا ہوا لیکن جو صدیاں گزر جانے کے باوجود ابھی بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ اسی خانقاہ سے ماہرین کو چونا مٹی کے بنے ہوئے مجسمے بھی ملے۔ موہڑہ مرادو سے ملنے والے دیگر نوادرات میں کھانے پینے کے برتن، گھریلو استعمال کا سامان، مختلف اوزار اور تانبے کے برتن بھی شامل ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ٹیکسلا میوزیم
ٹیکسلا میوزیم پاکستان کے خوبصورت ترین عجائب گھروں میں سے ایک ہے۔ ہری پور روڈ پر واقع اس میوزیم کا نقشہ لاہور کے میو اسکول آف آرٹس (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس) کے پرنسپل سلیوان نے تیار کیا تھا اور اس کی بنیاد برٹش انڈیا کے وائسرائے لارڈ چیمسفورڈ نے رکھی تھی۔ اس میوزیم میں ٹیکسلا سے دریافت شدہ 700 سے زائد نوادرات محفوظ ہیں لیکن عجائب گھر کے اندر فوٹوگرافی کی اجازت نہیں ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سِرکپ
سِرکپ شہر کی تاریخی باقیات ٹیکسلا میوزیم سے قریب دو کلومیٹرکے فاصلے پر ہیں۔ دوسری صدی قبل ازمسیح میں باختر کے یونانی ٹیکسلا پر حملہ آور ہوئے تو موریہ سلطنت ختم کر کے انہوں نے اپنی حکومت قائم کی اور ایک نیا شہر سِرکپ آباد کیا۔ یہ شہر شطرنج کی بساط کی طرز پر آباد کیا گیا تھا۔ سیدھی گلیوں اور بازار کے باعث اس کے کھنڈرات بھی بہت منفرد ہیں۔ یہ شہر ایک ایسی فصیل کے اندر آباد تھا، جس میں چار دروازے تھے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
مختلف نام
ٹیکسلا کا قدیم شہر دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیانی علاقے میں واقع ہے۔ سنسکرت میں یہ تکشاسلا اور مقامی طور پر تاکاسلہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یونانیوں اور رومیوں نے اسے ٹیکسلا کہا۔ یہ شہر زمانہ قدیم کے تین اہم تجارتی راستوں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے ایک بڑا تجارتی مرکز تھا۔ جنوبی ہند، مغربی اور وسطی ایشیائی تجارتی راستے یہیں پر ملتے تھے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
قدیم جین مندر
قدیم یورپی اقوام سکندر اعظم کے ہندوستان پر حملے کے وقت سے ٹیکسلا کے نام سے واقف تھیں۔ چھٹی صدی قبل از مسیح میں ٹیکسلا ایران کا ایک صوبہ تھا۔ بعد کی صدیوں میں یہ شہر کم از کم سات ادوار میں مختلف نسلوں کے شاہی خاندانوں کی حکمرانی میں رہا۔ اس تصویر میں وہ جگہ نظر آ رہی ہے، جہاں صدیوں پہلے ایک بڑا جین مندر موجود تھا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بازار جو اب کھنڈر ہیں
ٹیکسلا کی قدیم تہذیب کی باقیات کی تلاش کے لیے پہلی مرتبہ کھدائی برطانوی نو آبادیاتی دور میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے 1913 میں شروع کی تھی جو 1934 تک جاری رہی۔ پھر پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سے مشہور یورپی اور پاکستانی ماہرین آثار قدیمہ یہاں کھدائی کرتے رہے۔ اس تصویر میں جہاں خشک گھاس اور پتھر نظر آ رہے ہیں، وہاں صدیوں پہلے بھرے بازاروں میں انسانوں کی چہل پہل ہوتی تھی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
موہڑہ مرادو
ٹیکسلا میوزیم سے مشرق کی سمت قریب پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر خانقاہ موہڑہ مرادو واقع ہے۔ یہ ایک بدھ عبادت گاہ، ایک مرکزی سٹوپا اور ایک خانقاہ کی باقیات پر مشتمل ہے، جہاں پجاریوں کے رہائشی کمرے،ان کا ایوان، باورچی خانہ غسل خانے اور گودام ہوا کرتے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والی باقیات اس امر کا پتہ دیتی ہیں کہ اس دور میں بھی کتنے تعمیراتی نظم و ضبط سے کام لیا گیا تھا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سٹوپے اور خانقاہیں
وادی ٹیکسلا میں کھدائی کے نتیجے میں تقریباﹰ دو درجن سے زیادہ سٹوپے اور خانقاہیں دریافت ہو چکے ہیں۔ ان میں دھرما راجیکا، جولیاں، موہڑہ مرادو، پیلاں، گڑی، بھمالا، جنڈیال، جناں والی ڈھیری، بادل پور، بھلڑ توپ، کنالہ اور کلاوان نامی مقامات شامل ہیں۔ اس تصویر میں ایسی ہی ایک خانقاہ سے ملنے والے متعدد مجسمے نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
دو ہزار سال پرانی باقیات
وادی ٹیکسلا سے ملنے والی بدھ مت کی عبادت گاہوں کی زیادہ تر باقیات پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ دھرما راجیکا سٹوپا تیسری صدی عیسوی کے دور کا ہے، جسے 1980 میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا۔ ان میں سے بہت سے تاریخی مقامات آج بھی حیران کن حد تک اچھی اور مضبوط حالت میں ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
قدیم ٹیکسلا کی یونیورسٹی
قدیم ٹیکسلا شہر کے کھنڈرات کے آخر میں شہزادہ کنالہ کے سٹوپا کی جانب ایک مرکزی اور شاندار مقام ایسا بھی آتا ہے، جو پاکستان کے معروف ماہر آثار قدیمہ پروفیسر دانی کے بقول وہی جگہ ہے جہاں کئی صدیاں پہلے ٹیکسلا کی مشہور یونیورسٹی قائم تھی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
شہزادہ کنالہ کا سٹوپا
ٹیکسلا کی قدیم یونیورسٹی سے کچھ دور شہزادہ کنالہ کا سٹوپا ہے۔ اس سٹوپے کے قریب کبھی ایک شاندار عمارت قائم تھی۔ اب وہاں صرف اس عمارت کی پتھریلی باقیات ہی رہ گئی ہیں۔ اس مقام اور اس کے قرب و جوار میں کھدائی سے بھی ماہرین کو بہت سے قدیم سکوں کے علاوہ مٹی اور دھات کے بنے برتن ملے تھے۔