1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سائفر کیس: عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں منظور

22 دسمبر 2023

عمران خان سائفر کیس میں ضمانت ملنے کے بعد اب توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کے مقدمات میں قید کاٹ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے استغاثہ کی جانب سے سائفر کیس کی ہینڈلنگ پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

Pakistan | Protestmarsch Unterstützer von Imran Khan
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کے سینئیر رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کے مقدمے میں ضمانتیں منظور کر لی ہیں۔ جمعے کے روز سماعت کے اختتام پر عدالت نے دونوں ملزمان کو دس لاکھ روپے  کے الگ الگ ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔ عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا یہ فوری طور پر واضح نہیں ہے کہ آیا  ان کے موکل کو جیل سے رہائی مل سکے گی کیونکہ ان کے خلاف دیگر مقدمات میں گرفتاری کے متعدد وارنٹ جاری کر رکھے گئے ہیں۔ عمران خان مختلف مقدمات میں سزائیں سنائے جانے کے بعد اگست کے مہینے سے جیل میں قید ہیں۔

تاہم جمعے کے روز عمران خان کو جس مقدمے میں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا گیا اسے سائفر کا نام دیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ عمران خان کے خلاف بطور وزیر اعظم  ریاستی  راز افشا کرنے کے الزامات کے تحت قائم کیا گیا۔ ان الزامات کے مطابق عمران خان نے گزشتہ سال واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر کی طرف سے اسلام آباد بھیجی گئی ایک خفیہ کیبل کو عام کر دیا تھا۔

سپریم کور‍ٹ نے سائفر کیس میں استغاثہ کے دلائل پر عدم اطمیانان کا اظہار کیاتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

'سیاسی انتقام کا نشانہ'

جمعے کے روز عدالت کے سامنے اپنے دلائل میں عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم کو صرف سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان چالیس مقدمات میں ضمانت  قبل از گرفتاری حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی سیاسی لیڈر کے خلاف ایک ہی شہر میں اتنے مقدمے درج نہیں کیے گئے۔ سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ عمران خان ریاستی نہیں بلکہ سیاسی دشمن ہیں، اسی سبب انہیں غیر قانونی انداز سے مقدمات میں پھنسایا جارہا ہے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ ان کے موکل نے کبھی بھی کوئی سرکاری راز عام نہیں کیا۔ انہوں نہ کہا کہ امریکہ سے آنے والے خفیہ مراسلے پر اسلام آباد میں امریکی سفیر کو بلا کر احتجاج کیا گیا تھا۔

اسی دوران شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نےدلائل دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر خارجہ پر نہ تو سائفر رکھنے اور نہ ہی اسے کسی کے ساتھ شئیر کرنے کے الزامات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی پر صرف ایک تقریر  میں سائفر  کے حوالے سے الزامات تھے، جن کا جائزہ عدالت پہلے ہی لے چکی ہے۔ علی بخاری کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی  اپنے خلاف تمام مقدمات میں ضمانت حاصل کر چکے ہیں  اور صرف ایک سائفر کیس  کی وجہ سے وہ جیل میں ہیں۔

تحریک انصاف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ ہر قیمت پر عمران خان کو عام انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیںتصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

انتخابات کے لیے ضمانت ایک اچھی بنیاد

جسٹس اظہر من اللہ نے وکیل سے پوچھا کہ کیا شاہ محمود قریشی الیکشن لڑیں گے؟ اس پر علی بخاری نے کہا کہ شاہ محمود قریشی آج کاغزات نامزدگی جمع کرائیں گے۔ اس پر جسٹس اظہر امن اللہ نے کہا کہ انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کے لیے ایک اچھی بنیاد ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس وقت سوال عام انتخابات کا ہے، اس وقت معاملہ چئیرمین پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ عوامی حقوق کا  ہے۔ انہو‌ں نے کہا کہ  عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے اور سابق وزیراعظم پر اب تک جرم ثابت نہیں ہوا  اس لیے وہ قانون کی نظر میں معصوم ہیں۔

عدالت نے استغاثہ کی جانب سے عمران خان کے سرکاری راز فاش کرنے سے متعلق دلائل پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ پراسیکیوشن خود ہی قواعد کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔  عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے سائفر کیس کی سماعت اور عمران خان کی ضمانت کی درخواست مسترد کرنے پر بھی حیرانگی کا اظہار کیا۔

خیال رہے کہ سائفر کیس میں ضمانت ملنے کے بعد عمران خان کے انتخابات میں حصہ لینے کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ صاف ہوئی ہے تاہم وہ ابھی بھی توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کے مقدمات میں گرفتار ہیں۔ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغزات نامزدگی جمع کرانے کی آج جمعے کے روز کی حتمی تاریخ میں دو دن کی توسیع  کا اعلان کیا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ اس سے عمران خان اور نواز شریف کو انتخابات میں حصہ لینے کےلیے اضافی وقت ملے گا۔

ش ر ⁄ ع ت ( روئٹرز، اے ایف پی)

پاکستان سائفر تنازعہ: ’گفتگو کو غلط سمجھا گیا‘

11:30

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں