1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سائفر کیس فیصلے پر کڑی تنقید، حکومت کی طرف سے فیصلے کا دفاع

عبدالستار، اسلام آباد
31 جنوری 2024

سائفر کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی سزا کو پی ٹی آئی نے شرمناک قرار دیا ہے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس سزا کی مذمت کر رہی ہیں۔ تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ سزا بالکل قانون اور آئین کے مطابق ہے۔

Pakistans ehemaliger Außenminister Shah Mehmood Qureshi und Pakistans ehemaliger Premierminister Imran Khan 
Pakistans ehemaliger Außenminister Shah Mehmood Qureshi und Pakistans ehemaliger Premierminister Imran Khan

 سابق وزیراعظم  عمران خان  اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دی جانے والی سزاؤں کے حوالے سے کئی حلقے یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ان سزاؤں کے پاکستان کی مستقبل کی سیاست پر منفی اثرات ہوں گے اور یہ کہ اس فیصلے سے مستقبل کے منتخب وزرائے اعظم کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔

واضح رہے کہ آج ایک خصوصی عدالت نے اڈیالہ جیل میں سماعت کرتے ہوئے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس دس سال کی  قید کی سزا سنائی تھی۔ عمران خان کے وکلا نے کل ہی دعویٰ کیا تھا کہ انہیں عدالت کے اندر نہیں جانے دیا گیا اور یہ کہ عدالت نے اپنی ہی طرف سے وکیل دفاع مقرر کردیے، جنہوں نے گواہان اور دوسرے لوگوں پر جرح کی۔

پی ٹی آئی  اس کو انصاف کا قتل قرار دیتی ہے جبکہ حکومت کا اصرار ہے کہ یہ سزا تمام قانونی تقاضوں کو پوری کر کے دی گئی ہے۔

عمران خان اور شاہ محمود قریشی پہ الزام تھا کہ انہوں نے سائفر کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کر کے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہے۔

بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا ہے، عمران خان

07:43

This browser does not support the video element.

فیصلہ متوقع تھا

پاکستان  تحریک انصاف کے ایک مرکزی رہنما اور سمندر پار پاکستانیوں کے امور کے سابق وزیر سید ذوالفقار عباس بخاری عرف زلفی بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے کل ہی ٹویٹ کر دی تھی کہ اس طرح کی سزا دی جائے گی۔ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کو سزا دے کر وہ ہمیں ڈرانے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن اس سے عمران خان کی پوزیشن مزید مضبوط ہوگی۔‘‘

عمران خان کی زاتی رہائش گاہ پر پولیس پہرہتصویر: Arif Ali/AFP

زلفی بخاری کے مطابق ان کے خیال میں یہ فیصلہ متوقع تھا۔ ''جس طرح رات کے اندھیرے میں غیر قانونی سرگرمیاں جاری تھیں اس سے یہ واضح تھا کہ اس طرح کا فیصلہ آئے گا۔ عمران خان کے وکیل دفاع کو گواہوں پر جرح کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی وہ  عمران خان کی عدالت میں نمائندگی کر

سکے۔‘‘

الزامات میں کوئی جان نہیں تھی

سائفر کیس میں الزامات کے حوالے سے زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ ان الزامات میں کوئی جان نہیں تھی۔ ''اگر جان ہوتی تو سپریم کورٹ اس مقدمے میں عمران خان کو ضمانت نہیں دیتا۔ کیونکہ سپریم کورٹ کو پتہ تھا کہ ان الزامات میں اتنی جان نہیں جتنا کہ حکومت ظاہر کر رہی ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ اب اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ ''ہمیں امید ہے کہ عدالت اسے غیر قانونی قرار دے دے گی۔‘‘

’ایبسولوٹلی ناٹ‘  کہنے کی سزا

پی ٹی آئی وومن ونگ ہزارہ ڈویژن کی سینیئر نائب صدر تہمینہ فہمیم کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے پی ٹی آئی کے کارکنان کے حوصلے بڑھیں گے۔ ''اس فیصلے نے ثابت کر دیا ہے کہ عمران خان کو ایبسولوٹلی ناٹ کہنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ اس فیصلے سے حکومت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوگا اور عمران خان کے لیے کارکنوں کے دلوں میں عزت بڑھے گی۔‘‘

’ایبسولوٹلی ناٹ‘ کہنا عمران خان کو مہنگا پڑا؟ تصویر: Mohsin Raza/REUTERS

عدالتی کارروائی پر سوالات

 یہ فیصلے اور عدالتی کارروائی بھی کئی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ سپریم کورٹ کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا ہے کہ جس طرح عدالتی کارروائی چلائی گئی وہ ساری کی ساری قانونی طور پہ انتہائی کمزور ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس عدالتی کارروائی کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ پوری کارروائی شرمناک انداز میں چلائی گئی جس میں انصاف کے تمام اصولوں کو پامال کیا گیا۔‘‘

فیصل چوہدری کے مطابق جج صاحب نے جس تیزی سے اس مقدمے کو چلایا ہے اس پر بھی کئی سوالات اُٹھ رہے  ہیں۔ ''مزید برآں پوری عدالتی کارروائی میں کوئی بھی ایک نقطہ ایسا نہیں ہے، جسے قانونی کہا جائے۔‘‘

عمران خان گرفتار، عوام سے احتجاج کی اپيل

04:02

This browser does not support the video element.

سزا کا دفاع

تاہم سزا کا دفاع کرنے والوں کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے تمام اعتراضات بے بنیاد ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن  کے سابق صدر اور بلوچستان حکومت کے وزیر برائے قانون و پارلیمانی امور امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ خصوصی عدالتوں کی کارروائی روزانہ کی بنیاد پر ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بات پر اعتراض کیا جا رہا ہے کہ عدالت نے اتنی تیزی کے ساتھ اس مقدمے کا فیصلہ کیوں کیا یا سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوئی۔ تو خصوصی عدالتوں کے حوالے سے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح قانونی طور پر یہ ضروری نہیں ہے کہ میڈیا یا عام لوگوں کی موجودگی ٹرائل کورٹ میں ہو کیونکہ اس سے گواہوں اور ملزمان پر اثر پڑ سکتا ہے۔‘‘

گزشتو بزس مئی میں جیل سے عمران خان کی ہائی کورٹ میں پیشیتصویر: Aamir Qureshi/AFP

پی ٹی آئی اور تاخیری حربے

امان اللہ کنرانی کے مطابق پی ٹی آئی تاخیری حربے استعمال کرنا چاہتی تھی۔ '' توشہ خانہ مقدمے میں بھی ان کے وکیل وقت پر حاضر نہیں ہوتے تھے اور یہاں بھی انہوں نے یہی کوشش کی۔ تو عدالت نے اپنی قانونی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے وکیل دفاع کا تقرر کیا۔‘‘

فیصلہ منتخب نمائندوں کے لیے خطرہ

قانونی پیچیدگیوں سے دور انسانی حقوق کے کارکنان اور کچھ سیاست دان اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس فیصلے کے منتخب وزرائے اعظم پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئر مین اسد بٹ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ سیاست دانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس فیصلے سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ اسی کے پاس طاقت اور اختیار ہے اور وہ جب چاہے، جسے چاہے کسی بھی طریقے سے نہ صرف یہ کہ اقتدار سے نکال سکتی ہے بلکہ سزا دے کر ان کے سیاسی مستقبل کو بھی ختم کر سکتی ہے۔‘‘

اسد بٹ کے مطابق اس فیصلے کے بعد طاقتور حلقوں کو کسی بھی  وزیراعظم کو سزا دے کر نااہل کروانے کا ایک اور بہانہ مل جائے گا۔

قومی اسمبلی کی ایک سابق خاتون رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''منتخب وزرائے اعظم کے سروں پر پہلے ہی غیر یقینی کیفیت کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے۔ اب اسٹیبلشمنٹ اس فیصلے کو عدالتی نظیر کے طور پر منتخب نمائندوں کے خلاف استعمال کرے گی اور غیر یقینی صورت حال میں مزید اضافہ ہوگا۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں