سائنس خدا کو مار نہیں سکی، معروف ماہر طبیعیات گلائزر کا موقف
مقبول ملک اے ایف پی
19 مارچ 2019
معروف ماہر طبیعیات مارسیلو گلائزر کو امسالہ ٹیمپلٹن انعام دے دیا گیا ہے، جو ان شخصیات کو دیا جاتا ہے جو زندگی کے روحانی پہلو کو نمایاں کرتے ہوئے غیر معمولی خدمات انجام دیتی ہیں۔ گلائزر کے بقول سائنس خدا کو مار نہیں سکی۔
اشتہار
امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق برازیلین ماہر طبیعیات مارسیلو گلائزر کو سال 2019ء کا ٹیمپلٹن پرائز آج منگل انیس مارچ کو دیا گیا۔ وہ نظریاتی طبیعیات کے ایک ایسے معروف ماہر ہیں، جنہوں نے سائنسی تحقیق کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی اس امر کی عملی وضاحت کے لیے بھی وقف کر رکھی ہے کہ سائنس اور مذہب آپس میں ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں۔
ریو ڈی جنیرو میں پیدا ہونے والے اور اس وقت 60 سالہ مارسیلو گلائزر 1986ء سے امریکا میں رہائش پذیر ہیں اور وہ بیک وقت طبیعیات اور علم فلکیات دونوں کے پروفیسر بھی ہیں۔ ان کے بہت باریک بین مطالعے اور تحقیق کا خصوصی شعبہ کاسمالوجی یا علم الکائنات ہے۔
پروفیسر مارسیلو گلائزر کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک ناستک کے طور پر وہ خود تو خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتے لیکن وہ خدا کے وجود کے امکان کی نفی کر دینے سے بھی مکمل انکار کر دیتے ہیں۔ پروفیسر گلائزر 1991ء سے امریکا کی نیو ہیمپشائر یونیورسٹی کے ڈارٹ ماؤتھ کالج میں پڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے وہاں سے اے ایف پی کے ساتھ ایک ٹیلی فون گفتگو میں پیر اٹھارہ مارچ کو بتایا، ’’لادینیت سائنسی طریقہ کار سے مطابقت نہیں رکھتی۔‘‘
تیس سالہ جنگ: مذہب طاقت اور قبضے کی کشمکش
وسطی یورپ کا ایک ایسا علاقائی تنازعہ، جو دنیا میں ایک بدترین جنگ کی صورتحال اختیار کر گیا تھا۔ تئیس مئی سن 1618 کو مذہب کی بنیاد پر شروع ہونے والی یہ لڑائی یورپ میں برتری حاصل کرنے کی ایک رزمیہ جنگ بن گئی۔
تصویر: Imago/United Archives
لوٹ مار اور تشدد کا بے جا استعمال
آخری مراحل میں یہ جنگ وسطی یورپ کے ان علاقوں تک محدود ہو گئی جہاں کھانے یا لوٹنے کو کچھ باقی بچا تھا۔ کسانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا کہ وہ اپنے اناج کے خفیہ ذخائر کے بارے میں بتائیں۔ سویڈن کے زر پرست افراد نے عام شہریوں کو تشدد اور دہشت کا نشانہ بنانے کے کئی لرزہ خیز طریقے اختیار کیے۔ ان میں لوگوں کو زبردستی سویڈش ڈرنک‘ پلانا بھی شامل تھا، جس کے اجزا میں پیشاب، پاخانہ اور آلودہ پانی تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
کیتھولک اور پروٹسٹنٹ آمنے سامنے
ابتدا میں یہ لڑائی کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ریاستوں کے مابین تھی، جو یورپ کے طاقتور ممالک تک پھیل گئی۔ مقدس رومی سلطنت بھی اس میں شامل ہو گئی، جس کا مقابلہ پروٹسٹنٹ مسیحیوں سے تھا۔ سن 1630 میں سویڈش شاہ گستاف الثانی اڈولف بھی اس جنگ کے فریق بن گئے۔ وہ جرمن پروٹسٹنٹ کمیونٹی کو کیتھولک مسیحیوں کے حملوں سے بچانا اور یورپ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتے تھے۔ انہوں نے بطور کمانڈر کئی معرکوں میں شرکت کی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
شاہ کی موت
اس جنگ کی سب سے بڑی لڑائی سولہ نومبر سن 1632 کو لؤٹزن کے مقام پر ہوئی۔ اس معرکے میں اطراف کو شدید جانی و مالی نقصان ہوا لیکن فاتح کوئی بھی نہ بن سکا۔ اس جنگ میں سویڈش بادشاہ کی پروٹسٹنٹ افواج کا سامنا البرشت فان والن شٹائن کی قیادت میں کیتھولک رومن افواج کے ساتھ تھا۔ اس لڑائی میں گستاف الثانی اڈولف مارے گئے۔ یوں کیتھولک افواج نے جیت کا اعلان کر دیا لیکن ان کا یہ اعلان صرف پراپیگنڈا پر ہی مبنی تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
جنگ سے فائدہ حاصل کرنے والے
اس یورپی جنگ کی وجہ سے کئی فوجی کمانڈروں کو فائدہ بھی ہوا۔ ان میں ایک نام جنرل البرشت فان والن شٹائن کا بھی ہے۔ اس جنگ کے اہم کمانڈر والن شٹائن نے ایک نظام تشکیل دیا، جس کے تحت کسانوں، تاجروں اور عام شہریوں سے زبردستی اشیائے خوردونوش جمع کی جاتی تھی۔ عام لوگوں کو فوج میں بھرتی کیا جاتا، حتیٰ کہ ان کی تنخواہیں بھی عام لوگ ہی ادا کرتے تھے۔ والن شٹائن کا موٹو تھا، ’’جنگ خود ہی لوگوں کو خوراک دے گی‘‘۔
تصویر: picture-alliance / akg-images
سر عام پھانسیاں
اس تیس سالہ جنگ کے دوران تشدد اور لوگوں کو ہلاک کرنا معمول کی بات رہی۔ مشہور مصور ژاک کالوت نے اس جنگ کی تباہ کاریوں کو اپنی متعدد پینٹگز میں عکس بند کیا۔ انہوں نے عوام کو مظلوم اور ظالم دونوں کے ہی روپ میں دکھایا۔ ان کی ایک مشہور پینٹنگ ’دی ہینگنگ‘ ہے، جو سن سولہ سو بتیس اور تینتیس کے دوران بنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance / akg-images
جنگ بندی کا تاریخی معاہدہ
تب شاید ہی کسی کو یہ یقین تھا کہ یہ جنگ کبھی ختم بھی ہو سکتی ہے تاہم آخر کار طویل مشاورتی عمل کے نتیجے میں قیام امن ممکن ہو ہی گیا۔ پانچ سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد کیتھولک اور پروٹسٹنٹ حریفوں نے پندرہ مئی سن سولہ سو اڑتالیس کو موجودہ جرمن شہر میونسٹر میں جنگ بندی ڈیل کو حتمی شکل دی۔ اس جنگ نے یورپ کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
6 تصاویر1 | 6
لادینیت اور سائنسی طریقہ کار
انہوں نے اپنے اس موقف کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا، ’’لادینیت یا کسی بھی مذہبی عقیدے پر یقین نہ رکھنا دراصل بے عقیدہ ہونے پر یقین رکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے ایسا کرتے ہوئے آپ بنیادی طور پر ایک ایسے وجود کا سرے سے انکار کر دیتے ہیں، جس کے خلاف دراصل آپ کے پاس کوئی ثبوت ہوتا ہی نہیں۔‘‘
تو پھر مذہب اور خدا پر یقین کے حوالے سے انسان کو کرنا کیا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں مارسیلو گلائزر نے کہا، ’’میں اپنا ذہن کھلا رکھوں گا کیونکہ مجھے سمجھ آ چکی ہے کہ انسانوں کا علم محدود ہے۔‘‘
خدا کے وجود کے شواہد کی تلاش
پروفیسر گلائزر کو جس ٹیمپلٹن پرائز سے نوازا گیا ہے، اس کی بنیاد امریکا میں جان ٹیمپلٹن فاؤنڈیشن نے رکھی تھی۔ یہ ایک ایسی انسان دوست فلاحی تنظیم ہے، جس کا نام امریکی پریسبیٹیریئن بزنس مین جان ٹیمپلٹن کے نام پر رکھا گیا ہے۔ جان ٹیمپلٹن نے اپنی زندگی میں نیو یارک کی وال سٹریٹ کے ذریعے بے تحاشا رقوم کمائی تھیں۔ انہوں نے بعد ازاں اس بات کو اپنا مقصد حیات بنا لیا تھا کہ سائنسی علوم کے ہر شعبے میں خدا کے وجود کے شواہد تلاش کیے جائیں۔
کِپا، ٹوپی، پگڑی، چادر اور دستار
دنیا کے مختلف مذاہب میں عقیدت کے طور پر سر کو ڈھانپا جاتا ہے۔ اس کے لیے کِپا، ٹوپی، پگڑی، چادر اور دستار سمیت بہت سی مختلف اشیاء استعمال کی جاتی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس مذہب میں سر کو کیسے ڈھکا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Dyck
کِپا
یورپی یہودیوں نے سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں مذہبی علامت کے طور پر یارمولکے یا کِپا پہننا شروع کیا تھا۔ یہودی مذہبی روایات کے مطابق تمام مردوں کے لیے عبادت کرنے یا قبرستان جاتے وقت سر کو کِپا سے ڈھانپنا لازمی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Rothermel
بشپ کا تاج
مائٹر یا تاج رومن کیتھولک چرچ کے بشپس مذہبی رسومات کے دوران پہنتے ہیں۔ اس تاج نما ٹوپی کی پشت پر لگے دو سیاہ ربن بائبل کے عہد نامہ قدیم اور جدید کی علامت ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Seeger
پگڑی
سکھ مذہب کا آغاز شمالی بھارت میں پندرہویں صدی میں ہوا تھا۔ سکھ مت میں داڑھی اور پگڑی کو مذہبی اہمیت حاصل ہے۔ پگڑی عام طور پر سکھ مرد ہی باندھتے ہیں۔ نارنگی رنگ سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Dyck
چادر
مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں خواتین چادر اوڑھتی ہیں، جسے فارسی میں چادور کہتے ہیں۔ فارسی میں اس کے معنی خیمے کے ہیں۔ اس لباس سے پورا جسم ڈھک جاتا ہے۔ زیادہ تر سیاہ رنگ کی چادر استعمال کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Kappeler
راہباؤں کا حجاب
دنیا بھر میں مسیحی راہبائیں مذہبی طور پر ایک خاص قسم کا لباس پہنتی ہیں۔ یہ لباس مختلف طوالت اور طریقوں کے ہوتے ہیں اور ان کا دار و مدار متعلقہ چرچ کے مذہبی نظام پر ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
ہیڈ اسکارف
ہیڈ اسکارف کو حجاب بھی کہا جا سکتا ہے۔ حجاب پہننے پر مغربی ممالک میں شدید بحث جاری ہے۔ ترک اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے سروں کو ہیڈ اسکارف سے ڈھکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Schiffmann
شیتل
ھاسیدک برادری سے تعلق رکھنے والی شادی شدہ کٹر یہودی خواتین پر لازم ہے کہ وہ اپنے سر کے بال منڈوا کر وگ پہنیں۔ اس وگ کو شیتل کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Y. Dongxun
بیرت
رومن کیھتولک پادریوں نے تیرہویں صدی سے بیرت پہننا شروع کیا تھا۔ اس کی تیاری میں کپڑا، گتا اور جھالر استعمال ہوتے ہیں۔ جرمنی، ہالینڈ، برطانیہ اور فرانس میں اس ہیٹ کے چار کونے ہوتے ہیں جبکہ متعدد دیگر ممالک میں یہ تکونی شکل کا ہوتا ہے۔
تصویر: Picture-alliance/akg-images
نقاب یا منڈاسا
کاٹن سے بنا ہوا یہ اسکارف نما کپڑا کم از کم پندرہ میٹر طویل ہوتا ہے۔ اسے زیادہ تر مغربی افریقہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ طوارق جنگجو اپنا چہرہ چھپانے اور سر کو ڈھکنے کے لیے اسے بہت شوق سے پہنتے ہیں۔
یہودی شٹریمل مخمل اور فر سے بنائی جاتی ہے۔ شادی شدہ یہودی مرد اس ہیٹ کو چھٹیوں اور مذہبی تقاریب میں پہنتے ہیں۔ یہ جنوب مشرقی یورپ میں آباد ھاسیدک یہودی برادری نے سب سے پہلے پہننا شروع کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto
ہیٹ
شمالی امریکا کی آمش برادری کا شمار قدامت پسند مسیحیوں میں ہوتا ہے۔ آمش اٹھارہویں صدی میں یورپ سے امریکا جا کر آباد ہوئے تھے۔ ان کی خواتین بالکل سادہ جبکہ مرد تھوڑے مختلف قسم کے فیلٹ ہیٹ پہنتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Sanderson
11 تصاویر1 | 11
یہ انعام دیے جانے کا سلسہ 1973 میں شروع کیا گیا تھا۔ اب تک یہ اعزاز کئی دیگر شخصیات کے علاوہ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو، دلائی لاما اور سابق سوویت یونین کے منحرف مصنف آلیکسانڈر سولژےنِٹسن کو بھی دیا جا چکا ہے۔ اس انعام کے ساتھ ڈیڑھ ملین امریکی ڈالر کی نقد رقم بھی دی جاتی ہے، جو کسی بھی نوبل انعام کے ساتھ دی جانے والی رقم سے بھی زیادہ ہے۔
استنبول، مذہبی تہذیب اور سیکیولر روایات کا امتزاج
یورپ اور ترکی کے سیاسی تنازعات کے باوجود ان میں چند مشترکہ ثقافتی روایات پائی جاتی ہیں۔ پندرہ ملین رہائشیوں کا شہراستنبول جغرافیائی حوالے سے دو برِاعظموں میں بٹا ہوا ہے۔ ثقافتی تضادات کے شہر، استنبول کی تصاویری جھلکیاں
تصویر: Rena Effendi
استنبول کی روح میں یورپ بسا ہوا ہے
ترکی کا شہر استنبول دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں یعنی ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع ہے۔ استنبول میں روایتی اور جدید طرز زندگی کے عنصر نظر آتے ہیں۔ تاہم مذہبی اور سیکولر طرزِ زندگی اس شہر کی زینت ہے۔ کثیر الثقافتی روایات کا جادو شہرِ استنبول کی روح سے جڑا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
دو ہزارسال قدیم شہر
استنبول کی تاریخ قریب دو ہزار چھ سو سال پر محیط ہے۔ آج بھی اس شہر میں تاریخ کے ان ادوار کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ماضی میں کئی طاقتور حکومتوں نے استنبول کے لیے جنگیں لڑیں، خواہ وہ ایرانی ہوں کہ یونانی، رومی سلطنت ہو کہ سلطنتِ عثمانیہ۔ جیسا کہ قسطنطنیہ سلطنتِ عثمانیہ کا مرکز رہنے سے قبل ’بازنطین‘ کا مرکز بھی رہا۔ بعد ازاں سن 1930 میں پہلی مرتبہ ترکی کے اس شہر کو استنبول کا نام دیا گیا۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول، دو مختلف ثقافتوں کے درمیان
آبنائے باسفورس کو استنبول کی ’نیلی روح‘ کہا جاتا ہے۔ آبنائے باسفورس ترکی کو ایشیائی حصے سے جدا کرکے یورپی حصے میں شامل کرتی ہے۔ یہاں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں ہزاروں مسافر روزانہ یہ سمندری پٹی عبور کر کے دو براعظموں کے درمیاں سفر طے کرتے ہیں۔ مسافر تقریبا بیس منٹ میں یورپی علاقے ’کراکوئی‘ سے ایشیائی علاقے ’کاڈیکوئی‘ میں داخل ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
قدیم قسطنطنیہ کا ’غلاطہ پل‘
غلاطہ پل ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے۔ یہاں لوگ بحری جہازوں کے دلکش مناظر دیکھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ طویل قطاروں میں کھڑے لوگ ڈوری کانٹے سے مَچھلی پَکَڑنے کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ یہ سیاحتی مقام بھی ہے، یہاں مکئی فروش، جوتے چمکانے والے اور دیگر چیزیں فروخت کرتے ہوئے لوگ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سن 1845 میں پہلی مرتبہ یہ پل قائم کیا گیا تھا، تب استنبول کو قسطنطنیہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
تصویر: Rena Effendi
’یورپ ایک احساس ہے‘
میرا نام فیفکی ہے، ایک مچھلی پکڑنے والے نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں خود کو یورپی شہری سمجھتا ہوں۔ ہم زیادہ آزادی کے خواہش مند ہیں لہٰذا ترکی اور یورپ کو ایک ساتھ ملنا چاہیے۔ فیفکی ریٹائرڈ ہوچکا ہے اورمچھلیاں پکڑنے کا شغف رکھتا ہے۔ تاہم فیفکی نے بتایا کہ اس سے تھوڑی آمدنی بھی ہوجاتی ہے۔ دو کلو مچھلی کے عوض اسے آٹھ یورو مل جاتے ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے قلب میں سجے مینار
استنبول شہر کے مرکز تقسیم اسکوائر پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ یہاں ایک مسجد پر تیس میٹر اونچا گنبد اور دو مینار تعمیر کیے جارہے ہیں۔ ترکی میں اگلے سال ہونے والے عام انتخابات تک یہ تعمیراتی کام مکمل ہوجائے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان تاریخی مرکز کو نئی شناخت دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ ’سیاسی اسلام‘ اور قدامت پسند سلطنتِ عثمانیہ کے دور کی عکاسی کرتی ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول یورپی شہر ہے لیکن مذہبی بھی
استنبول کا ’’فاتح‘‘ نامی ضلع یورپی براعظم کا حصہ ہونے کے باوجود ایک قدامت پسند علاقہ مانا جاتا ہے۔ اس علاقے کے رہائشیوں کا تعلق اناطولیہ سے ہے۔ یہ لوگ روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں استنبول آتے ہیں۔ مقامی افراد ’’فاتح‘‘ کو مذہبی علاقے کے حوالے سے پکارتے ہیں، جہاں زیادہ تر لوگ ترک صدر اردگان اور ان کی سیاسی جماعت ’اے کے پی‘ کے رکن ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
مساجد کے سائے تلے خریداری
ہر ہفتے بدھ کے روز ’’فاتح مسجد‘‘ کے سامنے ایک بازار لگتا ہے۔ اس بازار میں گھریلو سامان، ملبوسات، چادریں، سبزیاں اور پھل دستیاب ہوتے ہیں۔ یہاں ملنے والی اشیاء کی قیمت نسبتاﹰ مناسب ہوتی ہے۔ فاتح ضلعے میں اب زیادہ تر شامی مہاجرین منتقل ہو رہے ہیں۔ ترکی میں تین ملین سے زائد شامی تارکین وطن موجود ہیں۔ سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے بعد شامی شہریوں کو پناہ دینے کے اعتبار سے ترکی سرفہرست ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے وسط میں واقع ’مِنی شام‘
استنبول کا ضلع فاتح شامی ریستورانوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں کے ڈونر کباب میں لہسن کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ترکی میں مہاجرین کو ’’میسافر‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ترکی میں سیاسی پناہ کا قانون یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے قدرے مختلف ہے۔ تاہم ترک حکومت کی جانب سے دس ہزار شامی مہاجرین کو ترک شہریت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
’ہپستنبول‘ کی نائٹ لائف
اگر آپ شراب نوشی کا شوق رکھتے ہیں تو استنبول کے دیگر اضلاع میں جانا بہتر رہے گا، ایشیائی حصے میں واقع کاڈیکوئی علاقہ یا پھر کاراکوئی۔ یہاں کی دکانوں، کیفے، اور گیلریوں میں مقامی افراد کے ساتھ سیاح بھی دِکھتے ہیں۔ تاہم ترکی کی موجودہ قدامت پسند حکومت کے دور اقتدار میں شراب نوشی کسی حد تک ایک مشکل عمل ہوسکتا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے شہری یورپی سیاحوں کے منتظر
غلاطہ کے علاقے میں واقع ایک ڈیزائنر دُکان میں کام کرنے والی خاتون ایشیگئول کا کہنا ہے کہ ’استنبول بہت زیادہ تبدیل ہو چکا ہے‘۔ استنبول میں چند سال قبل زیادہ تر یورپی سیاح چھٹیاں بسر کرنے آتے تھے تاہم اب عرب سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایشیگئول کا کہنا ہے کہ یہ ان کے کاروبار کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ امید کرتی ہیں کہ یہ سلسہ جلد تبدیل ہوجائے گا۔
تصویر: Rena Effendi
11 تصاویر1 | 11
مارسیلو گلائزر کی توجہ کے محور
پیدائشی طور پر برازیل سے تعلق رکھنے والے نظریاتی فزکس کے پروفیسر گلائزر اس بات پر خصوصی توجہ دیتے ہیں کہ بہت پیچیدہ موضوعات کو آسان اور قابل فہم بنا دیا جائے۔
وہ اب تک ماحولیاتی تبدیلیوں، آئن سٹائن، موسمیاتی طوفانوں، کائنات میں پائے جانے والے بلیک ہولز اور انسانی ضمیر جیسے بہت سے متنوع موضوعات پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔
ان کی خاص کوشش یہ ہوتی ہے کہ مادی سائنسی علوم اور فلسفے سمیت جملہ انسانی علوم کے مابین رابطے تلاش کیے جائیں۔
مارسیلو گلائزر انگریزی میں لکھی گئی پانچ کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور امریکا اور برازیل کے میڈیا میں ان کے سینکڑوں مضامین اور بلاگز بھی شائع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے آج تک خاص طور پر اس بارے میں بہت گہرائی میں جا کر کھوج لگانے کی کوشش بھی کی ہے کہ کائنات اور زندگی کی ابتدا سے متعلق سوالات کے سائنس اور مذہب کی طرف سے کس طرح کے جوابات دیے جاتے ہیں۔
سائنس اور مذہب میں تجسس بھی اہم قدر مشترک
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ’’مثال کے طور پر بائبل میں پہلا بیان ہی تخلیق سے متعلق ہے۔ آپ کا مذہب کوئی بھی ہو، ہر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ کائنات کس طرح وجود میں آئی۔ اس لیے یہی تجسس سائنس اور مذہب میں پائی جانے والی ایک اہم قدر مشترک بھی ہے، جو دونوں کو ایک طرح سے جوڑ بھی دیتی ہے، حالانکہ دونوں کے اپنے اپنے جوابات ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔‘‘
السلط، اردن میں مذہبی ہم آہنگی کی جنت
دنیا بھر میں مسیحیوں اور مسلم دنیا کے درمیان کشیدگی اپنی جگہ مگر اردن کا السلط شہر بین المذاہب ہم آہنگی کا ایک خوب صورت گہوارہ ہے، جسے اٹلی سے تعلق رکھنے والی فوٹوگرافر فاطمہ عابدی نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا ہے۔
تصویر: Fatima Abbadi
قدیم شہر
فوٹوگرافر فاطمہ عابدی ابوظہبی میں پیدا ہوئیں، مگر انہوں نے پڑھائی کی غرض سے دس برس اردن کے علاقے السلط میں گزارے۔ اس شہر کی بیناد تین سو قبلِ مسیح میں رکھی گئی تھی اور اب وہاں قریب نوے ہزار افراد مقیم ہیں۔ اس شہر میں بیک وقت عرب اور یورپی ثقافت پوری ہم آہنگی کے ساتھ ملتی ہے۔
تصویر: Fatima Abbadi
دیوار نہیں، تقسیم نہیں
السلط شہر کو عالمی ادارہ برائے ثقافت یونیسکو کی عالمی ورثے کے فہرست کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے۔ اس شہر میں مسلم اکثریت اور مسیحی آبادی بغیر کسی تقسیم کے ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں۔ اسی طرح مشرقی اور مغربی ثقافتیں بھی اس شہر میں ایک دوسرے سے ملتی نظر آتی ہیں۔
تصویر: Fatima Abbadi
سینٹ جارج سے الخضر تک
السلط کے مسیحیوں نے شہر کی ثقافتی، معاشی اور سیاسی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ السلط میں ان دونوں مذاہب کی تاریخ زبردست رنگ سے ملتی ہے۔ یہاں شہر میں سینٹ جارج نامی چرچ کے اطراف میں آرائشی پتھروں پر قرآن کی آیات بھی لکھی نظر آتی ہیں اور بائبل کے مناظر بھی۔
تصویر: Fatima Abbadi
سب کی جگہ
یہ مقدس عمارت ایک چرواہے کے اس خواب کے بعد سن 1682ء میں تعمیر کی گئی تھی، جس میں اس نے دیکھا تھا کہ سینٹ جارج نے اس کے مویشیوں کو ایک بلا سے محفوظ رہنے کے لیے چرچ تعمیر کرنے کی تاکید کی تھی۔ تب سے اب تک مسیحی اور بہت سے مسلمان اس چرچ میں آتے ہیں اور سینٹ کے حوالے سے یہاں دیپ جلاتے ہیں۔
تصویر: Fatima Abbadi
دو ہزار سال پرانی تاریخ
اردن اور مسیحیت کے درمیان تعلق قدیم ہے۔ دریائے اردن ہی کے کنارے یسوع نے بپتسمہ دیا تھا۔ بہت سے مسیحی خاندان پہلی سنِ عیسوی سے یہاں آباد ہیں اور عوامی طور پر عبادت کرتے ملتے ہیں۔ اردن میں مسیحی پارلیمان کا حصہ ہیں اور حکومتی انتظام میں بھی پیش پیش ہیں۔
تصویر: Fatima Abbadi
مظاہرے اور دعوے
شاہ عبداللہ ثانی کی جانب سے سینکڑوں برس کے پرامن ساتھ کے حوالے دیے جانے اور یہ تک کہنے کہ عرب مسیحی اس خطے کے ماضی حال اور مستقبل کا کلیدی حصہ ہیں، تاہم حالیہ کچھ برسوں میں اردن میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان کشیدگی کچھ زیادہ ہوئی ہے۔ اسی تناظر میں اردن میں مظاہرے بھی دیکھے گئے۔ تاہم السلط شہر میں اس کشیدگی کا کوئی اثر نہیں ملتا۔
تصویر: Fatima Abbadi
ایک زبردست اجتماع
کرسمس کے موقع پر مسلمان سب سے پہلے اپنے دروازے مسیحیوں کے ساتھ اس تہوار کو منانے کے لیے کھولتے ہیں اور اسی طرح مسلمانوں کے تہوار کے موقع پر مسیحی مہمان نوازی میں آگے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ انتخاب میں ایک مسیحی خاتون نے شہری کونسل کی اہم نشست پر کامیابی حاصل کی۔ السلط کی مجموعی آبادی کا 35 فیصد مسیحیوں پر مبنی ہے۔
تصویر: Fatima Abbadi
امن کا نسخہ، احترام
عابدی کی السلط کی ان تصاویر میں روایتی زرعی زندگی سے شہر میں آج کی مغربی اقدار سب دکھائی دیتی ہیں۔ عابدی کو یقین ہے کہ دنیا میں کوئی بھی واقعہ اس شہر میں لوگوں کے باہمی رشتوں کو اثرانداز نہیں کر سکتا، کیوں کہ یہاں لوگوں کے درمیان باہمی تعلق کی تاریخ نہایت قدیم ہے اور وجہ یہ ہے کہ سبھی ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور رہتے یوں ہیں، جیسا یہ کوئی شہر نہیں بلکہ ایک بڑا سا گھرانہ ہو۔
تصویر: Fatima Abbadi
8 تصاویر1 | 8
امسالہ ٹیمپلٹن پرائز پانے والے پروفیسر گلائزر نے مزید کہا، ’’سائنس مفروضوں کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ آپ تجربات کرتے ہیں اور مفروضوں کو رد کرتے جاتے ہیں۔ لیکن سائنس بھی صرف ایک خاص حد تک ہی آپ کو جوابات دی پاتی ہے۔‘‘ پروفیسر گلائزر نے، جو پانچ بچوں کے والد ہیں، بتایا، ’’ فلسفہ اس مسئلے سے بخوبی واقف ہے۔ اولین سبب۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں پہنچ کر ہم آگے نہیں جا پاتے۔‘‘
سائنس خدا کو مار نہیں سکی
پروفیسر گلائزر نے اپنے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا، ’’مذہب پر یقین رکھنے والے سائنس کو اپنے دشمن کی جگہ پر رکھتے ہوئے سوچتے ہیں۔ اسی طرح سائنسدان بھی اس طرح کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے انہیں لازمی طور پر خدا کو مارنا ہے۔ بات یہ ہے کہ سائنس اور مذہب دشمن نہیں ہیں اور نہ ہی سائنس اب تک خدا کو مار سکی ہے۔ اس لیے کہ ایک متجسس راستے کے طور پر سائنس خدا کو مارتی تو ہے ہی نہیں۔‘‘
مذہب صرف خدا پر یقین ہی نہیں
ریو ڈی جنیرو کی مقامی یہودی آبادی میں پلنے بڑھنے والے مارسیلو گلائزر کے بقول مذہب صرف اس بات کا نام نہیں کہ خدا پر یقین لایا جائے۔ یہ ایک طرح کی شناخت اور انسانی برادری کے بطور پر ایک پہچان بھی ہے۔ ’’میری رائے میں دنیا کی کم از کم نصف آبادی مذہب کو اسی طرح سے دیکھتی ہے۔‘‘
کس مذہب کے کتنے ماننے والے
دنیا بھر میں ہر دس میں سے آٹھ افراد کسی نہ کسی مذہبی برادری کا حصہ ہیں۔ امریکی تحقیقاتی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے سات ارب سے زائد افراد میں کس مذہب کے کتنے پیرو کار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Gupta
مسیحی، آبادی کے تناسب سے پہلے نمبر پر
دنیا بھر میں سب سے زیادہ آبادی مسیحیت سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔ عالمی آبادی میں اِن کی حصہ داری قریب 31.5 فیصد بنتی ہے جبکہ ان کی کل تعداد تقریباﹰ 2.2 ارب ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
مسلمان
اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے، جس کے ماننے والوں کی تعداد 1.6 ارب مانی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کی عالمی سطح پر شرح 23.2 فیصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سیکولر یا ملحد
عالمی آبادی کا تقریباﹰ سولہ فیصد ایسے افراد پر مشتمل ہے جو کسی مذہب میں یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
ہندوازم
تقریباﹰ ایک ارب آبادی کے ساتھ ہندو دنیا میں تیسری بڑی مذہبی برادری ہیں۔ یہ کُل آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Gupta
چینی روایتی مذہب
چین کے روایتی مذہب کو ماننے والوں کی کُل تعداد 39.4 کروڑ ہے اور دنیا کی آبادی میں اِن کی حصہ داری 5.5 فیصد ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
بدھ مت
دنیا بھر میں 37.6 کروڑ افراد بدھ مت کے پیرو کار ہیں۔ جن میں سے نصف چین میں آباد ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS
نسلی مذہبی گروپ
اس گروپ میں مذہبی برادریوں کو نسل کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ اس گروپ میں شامل افراد کی کُل تعداد قریب 40 کروڑ ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Heunis
سکھ مذہب
اپنی رنگا رنگ ثقافت کے لیے دنیا بھر میں مشہور سکھوں کی کُل آبادی 2.3 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: NARINDER NANU/AFP/Getty Images
یہودی مذہب
یہودیوں کی تعداد عالمی آبادی میں 0.2 فیصد ہے جبکہ اس مذہب کے ماننے والوں کی تعداد 1.4 کروڑ کے قریب ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Rothermel
جین مت
جین مذہب کے پیروکار بنیادی طور پر بھارت میں آباد ہیں ۔ جین مت کے ماننے والوں کی تعداد 42 لاکھ کے آس پاس ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/N. Ut
شنتو عقیدہ
اس مذہب کے پیروکار زیادہ تر جاپان میں پائے جاتے ہیں اور اس عقیدے سے منسلک رسوم اُس خطے میں صدیوں سے رائج ہیں تاہم اس کے پیرو کاروں کی تعداد صرف تین ملین ہے۔