سائنس دانوں نے ایک نیا عظیم الجثہ گیسی سیارہ دریافت کر لیا
6 اپریل 2022
ماہرین فلکیات کو یقین ہے کہ اے بی اوریگائے بی نامی یہ سیارہ ویسے وجود میں نہیں آیا، جیسے اکثر عام سیارے وجود میں آتے ہیں۔ خلائی سائنس کے ماہرین کے مطابق یہ نیا سیارہ ابھی اپنی ’پیدائش کے ابتدائی مراحل‘ میں ہے۔
اشتہار
زمین کے نظام شمسی کے سیارے مشتری کی کمیت زمین کی کمیت کے تقریباﹰ 320 گنا کے برابر بنتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے نظام شمسی کے دیگر تمام سیاروں کی کمیت ملا بھی لی جائے، تو پھر بھی مشتری کی کمیت اس کے ڈھائی گنا سے بھی زیادہ ہے۔ مطلب یہ کہ مشتری واقعی زمین کے نظام شمسی کا ایک بہت ہی بڑا اور بھاری سیارہ ہے۔
نئے سیارے کے سامنے مشتری ایک چھوٹے سے غبارے جیسا
ماہرین فلکیات نے اب جو نیا سیارہ دریافت کیا ہے، وہ اتنا بڑا ہے، کہ اس کے سامنے مشتری ایک چھوٹے سے غبارے جیسا نظر آتا ہے۔ اس نئے سیارے کو اے بی اوریگائے بی کا نام دیا گیا ہے اور یہ اپنی کمیت میں مشتری سے نو گنا بڑا ہے، حالانکہ اپنے وجود کے ابتدائی مراحل میں ہونے کے باعث یہ نیا سیارہ ابھی کسی چھوٹے سے بچے جیسا ہے۔
امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کے ایمیس ریسرچ سینٹر کے ماہر اور سُوبارُو ٹیلی سکوپ سے استفادہ کرتے ہوئے فلکیاتی طبیعیات پر تحقیق کرنے والے سائنس دان تھین کیوری کا کہنا ہے، ''ہماری رائے میں یہ نیا سیارہ ابھی تک اپنی 'پیدائش‘ کے ابتدائی مراحل میں ہے۔‘‘ تھین کیوری اس نئے سیارے کی دریافت سے متعلق ریسرچ کے نتائج پر مشتمل اس رپورٹ کے مرکزی مصنف بھی ہیں، جو فلکیاتی تحقیق سے متعلق جریدے نیچر ایسٹرونومی کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔
گیس والے سیارے کیسے ہوتے ہیں؟
تھین کیوری نے نیچر ایسٹرونومی میں لکھا ہے، ''شواہد بتاتے ہیں کہ یہ سیارہ ابھی تک اپنی تشکیل کے بالکل شروع کے مراحل میں ہے۔ اس سے قبل زیادہ تر گیس پر مشتمل کسی اتنے بڑے سیارے کی تشکیل کا مشاہدہ کبھی نہیں کیا گیا۔‘‘
گیس والے عظیم الجثہ سیارے عام طور پر ایسے بہت بڑے سیاروں کو کہا جاتا ہے، جو زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیم پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ گیسیں بہت بڑے بڑے جھکڑوں کی صورت میں ایسے سیاروں کے وسط میں موجود ایک ٹھوس مرکزی حصے کے ارد گرد چکر لگاتی رہتی ہیں۔ زمین کے نظام شمسی میں ایسے دو گیسی سیارے پہلے سے موجود ہیں، جو مشتری اور زحل ہیں۔
اشتہار
بہت بڑے میزبان ستارے والا سیارہ
ماہرین فلکیات نے اس نئے گیسی سیارے کو خلائی ٹیلی سکوپ ہبل اور سُوبارُو نامی اس ٹیلی سکوپ کی مدد سے دریافت کیا، جو امریکی ریاست ہوائی کے ایک جزیرے پر ایک غیر فعال آتش فشاں پہاڑ کے دہانے کے قریب نصب ہے۔ اے بی اوریگائے بی نامی سیارے کے ارد گرد گیس اور بہت باریک ذروں والی ایک انتہائی وسیع تہہ موجود ہے۔ یہ تہہ انہی مادوں سے بنی ہوئی ہے، جن سے سیارے تشکیل پاتے ہیں۔
اس تہہ کے نیچے ایک ایسا بہت بڑا ستارہ موجود ہے، جسے اے بی اوریگائے کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ستارہ زمین سے 508 نوری سالوں کے فاصلے پر ہے، جو تقریباﹰ 9.5 ٹریلین کلومیٹر بنتا ہے۔ اور بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ ستارہ اپنی کمیت میں زمین کے نظام شمسی کے سورج سے تقریباﹰ ڈھائی گنا بڑا اور 60 گنا زیادہ روشن ہے۔
اے بی اوریگائے صرف تقریباﹰ دو ملین سال پرانا ہے اور اسی وجہ سے ایک کم عمر ستارہ ہے۔ اس کے برعکس ہمارے نظام شمسی کا سورج کافی 'عمر رسیدہ‘ ہے، کیونکہ وہ تقریباﹰ 4.5 بلین سال پہلے وجود میں آیا تھا۔
ان سائیٹ کے مریخ پر اترنے کے لمحات
ناسا کے خلائی جہاز ان سائیٹ نے چار سو بیاسی ملین کلومیٹر (تین سو ملین میل) کا سفر طے کیا ہے۔ یہ روبوٹ کنٹرول خلائی جہاز مسلسل چھ ماہ تک سفر کرنے کے بعد مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان سائیٹ خلائی مشن تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر کا بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔ اس میں جرمن ساختہ مکینکل دھاتی چادر بھی استعمال کی گئی ہے، جو مریخ کی حدت برداشت کرنے کے قابل ہے۔ فرانس کے ایک سائنسی آلات بنانے والے ادارے کا خصوصی آلہ بھی نصب ہے، جو مریخ کی سطح پر آنے والے زلزلوں کی کیفیات کو ریکارڈ کرے گا۔ اس کے اترنے پر کنٹرول روم کے سائنسدانوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/NASA/B. Ingalls
پہلی تصویر
تین ٹانگوں والا ان سائٹ مریخ کے حصے’الیسیم پلانیشیا‘ کے مغربی سمت میں اترا ہے۔ اس نے لینڈنگ کے بعد ابتدائی پانچ منٹوں میں پہلی تصویر کنٹرول ٹاور کو روانہ کی تھی۔ تین سو ساٹھ کلوگرام وزن کا یہ خلائی ریسرچ جہاز اگلے دو برسوں تک معلوماتی تصاویر زمین کی جانب روانہ کرتا رہے گا۔
تصویر: picture alliance/Zuma/NASA/JPL
ان سائنٹ مریخ کے اوپر
ان سائیٹ خلائی ریسرچ دو چھوٹے سیٹلائٹس کی مدد سے مریخ کی سطح تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان سیٹلائٹس کے توسط سے ان سائیٹ کی پرواز کے بارے میں معلومات مسلسل زمین تک پہنچتی رہی ہیں۔ اس خلائی مشن نے مریخ پر اترنے کے تقریباً ساڑھے چار منٹ بعد ہی پہلی تصویر زمین کے لیے روانہ کر دی تھی۔ اڑان سے لینڈنگ تک اِسے چھ ماہ عرصہ لگا۔ ناسا کے مریخ کے لیے روانہ کردہ خلائی مشن کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد ہے۔
ان سائیٹ مریخ کی سطح پر بارہ ہزار تین سو کلومیٹر کی رفتار سے پرواز کرتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔ اترے وقت اس کو بریکوں کے علاوہ پیراشوٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ ان سائیٹ پراجیکٹ کے سربراہ سائنسدان بروس بینرٹ کا کہنا ہے کہ مریخ کی جانب سفر سے کہیں زیادہ مشکل امر لینڈنگ ہوتا ہے۔ سن 1976 کے بعد مریخ پر لینڈنگ کی یہ نویں کامیاب کوشش ہے۔
مریخ کی سطح پر ان سائیٹ نامی خلائی تحقیقی جہاز ایک ہی مقام پر ساکن رہتے ہوئے اگلے دو برس تک اپنا مشن جاری رکھے گا۔ اس مشن میں مریخ کی اندرونی سطح کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ سرخ سیارے کے زلزلوں کی کیفیت کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یہ ریسرچ مشن مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار بارے کوئی معلومات جمع نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
5 تصاویر1 | 5
سیارے اکثر پیدا کیسے ہوتے ہیں؟
خلا میں کسی بھی سیارے کے وجود میں آنے کے عمل کے دوران ایسے فلکیاتی وجود ہمیشہ کسی نہ کسی ستارے کے ارد گرد جذب کر لیے جاتے ہیں۔ نو دریافت شدہ سیارے کی تشکیل کا عمل دیگر سیاروں کی پیدائس سے مختلف اس طرح ہے کہ اس 'بےبی‘ سیارے اور اس کے ستارے کا درمیانی فاصلہ عام طور پر ایسے کسی سیارے اور ستارے کے مابین نظر آنے والے فاصلے سے بہت زیادہ ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ ہمارے نظام شمسی سے باہر اکثر سیارے اپنے ستارے کے ارد گرد ایک مدار میں لیکن اس دوری کی حد کے اندر رہتے ہوئے ہی گردش میں رہتے ہیں، جتنی دوری ہمارے سورج اور نظام شمسی کے دور ترین سیارے نیپچون کے مابین پائی جاتی ہے۔ مگر نئے سیارے اے بی اوریگائے بی اور اس کے ستارے اے بی اوریگائے کے مابین فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ وہ ہمارے نظام شمسی میں سورج اور نیپچون کے درمیانی فاصلے کے تین گنا سے بھی زیادہ بنتا ہے۔
کارلا بلائیکر (م م / ا ا)
سیاروں کی جانب اڑان بھرنے کی خواہش کیوں؟
انسان دہائیوں سے مداروں میں گھومنے والے سیاروں اور کائنات کے درجنوں چاند کی جانب خلائی جہاز روانہ کر رہا ہے۔ کئی ایسے ریسرچ خلائی جہاز نظام شمسی کی حدود سے بھی باہر نکل چکے ہیں۔
تصویر: NASA/New Horizons
خلا میں دور تک کا سفر
خلائی سفر کے جہاز کچھ نئے نہیں ہیں۔ وینس یا زہرہ سیارے کی جانب اول اول دو فلائی بائز روانہ کی گئی تھیں۔ بیپی کولمبو کو مریخ اور سولر آربیٹر کو سورج کی جانب روانہ کیا جا چکا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے پانچ لاکھ پچھتر ہزار کلومیٹر کی دوری پر رہتے ہوئے اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہیں۔
تصویر: ESA
خلائی جہازوں کو کششِ ثقل کی معاونت
بیپی کولمبو نے مرکری کی بہت خوبصورت تصاویر روانہ کی ہیں۔ زمین کی مداری قوت سے نکلنے کے بعد کسی بھی ایسے خلائی جہاز کو کسی اور سیارے کی مداری قوت کی مدد درکار ہوتی ہے۔ یہ خلائی جہاز زہرہ کے پاس سے گزرا تو اس کی رفتار قدرے تیز ہو گئی کیونکہ زہرہ کی کشش ثقل نے اس کو نئی قوت دی۔ یہ زہرہ کے مدار سے نکل کر مرکری کی جانب بڑھے گا۔
تصویر: ESA
زہرہ پر سرد جنگ
خلائی سفر کی ابتدا سرد جنگ کے دور میں ہوئی تھی۔ پہلا خلائی جہاز سویوز سن 1961 میں زہرہ کی جانب روانہ کیا گیا لیکن یہ مشن ناکام ہو گیا تھا۔ اس کے بعد امریکا نے اپنا مشن روانہ کیا۔ دوسری جانب سن 1978 میں سابقہ سوویت یونین کو زہرہ کے مشن میں کامیابی مل گئی تھی۔ امریکا نے مرکری، مریخ اور مشتری کی جانب خلائی ریسرچ کے جہاز روانہ کیے۔ البتہ سوویت سب سے پہلے چاند تک پہنچے تھے۔
تصویر: NASA/JPL
وائجر خلائی جہاز سیریز
وائجر نامی خلائی جہاز سن 1977 میں روانہ کیا گیا تھا۔ اس سیریز کے دو خلائی جہاز نظام شمسی کی معلومات جمع کرنے کے لیے بھیجے گئے۔ وائجر اول اور دوئم خلائی جہازوں پر گولڈن ریکارڈ بھی رکھے گئے ہیں۔ گولڈن ریکارڈ سے مراد وہ ریکارڈ جس پر زمین بارے معلومات جمع کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے سیاروں کی جانب بھی فلائی بائیز روانہ ہیں، جو نظام شمسی سے باہر نکل چکی ہیں۔
لوگ اکثر زمین کے مدار میں گھومنے والے اکلوتے چاند کی بات بڑی محبت کے ساتھ کرتے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں کہ نظام شمسی کے بڑے سیارے مشتری کے مدار میں اناسی چاند گھوم رہے ہیں۔ ابھی تک وائجر دوئم خلائی جہاز نے نیپچون سیارے کے پانچ چاند تلاش کیے ہیں۔ مشتری کے چاند کا نام یورپ رکھا گیا ہے۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا یورپ چاند کی جانب ایک ریسرچ خلائی جہاز روانہ کرنے کی پلاننگ کیے ہوئے ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech
نظام شمسی کی معلومات کا سفر
مشتری کے اناسی چاند ہیں تو سیٹرن کے بیاسی۔ کاسینی خلائی جہاز کو امریکا اور یورپ کی خلائی ایجنسیوں نے مشترکہ طور پر روانہ کیا تھا۔ اسی نے سیٹرن کے بیاسی چاند کی معلومات دی تھیں۔ اس خلائی جہاز سے سیٹرن کے مدار میں گھومتی کئی اشیا کی نشاندہی ہوئی۔ کاسینی نے سیٹرن کے مختلف چاند کو دریافت کیا تھا۔ تیرہ برس تک نظام شمسی میں محو پرواز رہنے کے بعد اسے سیٹرن سے ٹکرایا گیا تھا۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/Space Science Institute
بونا سیارہ پلوٹو
وائجر اول اور دوئم نظام شمسی کے انتہائی دور تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک نئے افق کے پاس ہیں۔ مشتری کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کی کشش ثقل نے ان کو نئی قوتیں بخشیں۔ مشتری کے بعد ان کا سفر بونے سیارے پلوٹو کی جانب رہا اور پھر یہ کوئپر بیلٹ کی جانب بڑھ گئے۔ پائنیر دس اور گیارہ خلائی جہاز بھی اتنی دوری تک پہنچے تھے۔ ان خلائی جہازوں کے سفر سے خلائی زندگی اور وہاں کی سرزمینوں بارے معلومات حاصل ہوئیں تھیں۔
تصویر: NASA/New Horizons
خلا کی کوئی حد نہیں
خلا کے لیے کئی دوسرے مشن بھی ہیں۔ ان میں ایک روزیٹا ہے، جو زمین اور مریخ کا چکر کاٹتا ہوا دم دار ستارے شوری کی جانب بڑھ چکا ہے۔ گیاٹو نے دم دار ستارے ہیلی کا سفر کیا تھا۔ ایسے ہی ڈیپ اسپیس وَن، ڈیپ امپیکٹ، اسٹارڈسٹ وغیرہ ہیں۔ مستقبل میں ہیرا کو روانہ کیا جانا ہے اور اس کی منزل اسٹیرائیڈ سسٹم ڈیڈیموس ہے۔ ان سب کو خلا کی تلاش کا جنون قرار دیا جا سکتا ہے۔