سائنس کے میدان میں بھی چین ایک نئی قوت
9 نومبر 2025
Scientia potestas est -"علم طاقت ہے!" یہ جملہ 16ویں صدی کے آخر میں انگریز فلسفی سر فرانسس بیکن نے اس وقت وضع کیا تھا، جب انگلستان سائنس اور طاقت کی سیاست دونوں لحاظ سے دنیا کی سرکردہ سلطنتوں میں سے ایک تھا۔ بیکن کا مقصد اپنے ہم عصروں کو یہ بتانا تھا کہ علم کا اسٹریٹجک استعمال اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ایک ایسا نعرہ ہے جو آج بھی درست ہے۔
فی الوقت عالمی تحقیقی منظر نامے کو ایک اہم موڑ کا سامنا ہے: "پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز" (پی این اے ایس) میگزین میں شائع ہونے والے ایک نئے سروے کے مطابق، چینی سائنسدانوں نے 2023 میں اپنے امریکی ساتھیوں کے ساتھ تقریباً نصف تعاون میں پہلے ہی اہم کردار ادا کیا تھا۔ اور جب بات اہم بین الاقوامی مسائل کی ہو، تو اب چین تحقیقی ایجنڈا طے کرتا ہے۔"
چین کا سائنس کے بیشتر شعبوں میں اب اہم کردار
حقیقی سائنسی طاقت کی عکاسی صرف باوقار روایتی اشاروں، نوبل انعامات یا اشاعت کی تعداد تک کی محدود نہیں ہے۔ چین کے عروج کو اب دوسرے معیارات سے بھی ناپا جاتا ہے۔ تقریباً 60 لاکھ تحقیقی مقالوں کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ 2023 میں امریکہ اور چینی مشترکہ مطالعات میں قیادت کی پوزیشنوں کا 45 فیصد چینی ہاتھوں میں تھا، جبکہ 2010 میں یہ شرح صرف 30 فیصد تھی۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو چین مصنوعی ذہانت اور سیمی کنڈکٹر کی تحقیق جیسے اسٹریٹجک شعبوں میں امریکہ کے ساتھ برابری تک پہنچ جائے گا۔
چین سائنسی اشاعتوں کے معاملے میں بھی آگے ہے۔ جی ٹوئنٹی کی تازہ ترین ریسرچ اینڈ انوویشن رپورٹ کے مطابق، تقریباً نو لاکھ سائنسی اشاعتیں چین سے نکلتی ہیں، جو کہ 2015 کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ نیچر انڈیکس میں بھی، جو طبی اور نیچورل سائنس کے 150 اہم ترین رسالوں کا جائزہ لیتا ہے، چین نے طویل عرصے سے امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ان دس سرکردہ اداروں میں، جن کی رسالوں میں اشاعتوں کا نیچر انڈیکس سے جائزہ لیا جاتا ہے، سات چینی ادارے ہیں۔
تقریباً 20,000 سائنسی اداروں کے ساتھ مغرب کے لیے صورتحال کم خوش کن نظر آتی ہے۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی اب بھی نیچر رینکنگ میں سرفہرست ہے جب کہ دو سے 9 پوزیشنوں پر خصوصی طور پر چینی یونیورسٹیوں کا قبضہ ہے۔ امریکہ میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) دسویں نمبر پر ہے۔
چین تحقیق میں سبقت کیوں حاصل کر رہا ہے؟
چین نے سائنس میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے اور اسے اپنی ترقی کی حکمت عملی کا مرکز بنا دیا ہے۔ ملک نے تیزی سے اپنی تحقیق کو بین الاقوامی تعاون کے لیے کھول دیا ہے اور اس تعاون کو فعال طور پر منظم کر رہا ہے۔ چینی طلبہ اور سائنسدانوں کو دنیا بھر میں کام کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس طرح بین الاقوامی تعاون میں اضافے کا ایک نیٹ ورک تیار ہوا۔
ٹیکنالوجی کی صنعتوں میں، خاص طور پر بنیادی ڈھانچہ اور ترقی کے منصوبے، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے ذریعے تعلیم کی برآمد کے ذریعے، اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری چین کی طرف ہنر کو راغب کرنے اور عالمی روابط استوار کرنے میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔ پی این اے ایس کے تازہ مطالعے کے مطابق، سائنس ڈپلومیسی کو دانستہ طور پر ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
چینی نظام کی طاقت اور کمزوریاں
رفتار، اسٹریٹجک سرمایہ کاری اور مرکزی کنٹرول والے نیٹ ورک چین کی بڑی طاقت ہیں۔ انجینیئرنگ، الیکٹرانکس، میٹریل سائنس، فزکس اور کیمسٹری بھی شاندار نتائج اور اعلی حوالہ جات فراہم کرتے ہیں۔
تاہم، اداروں کی طرف سے سخت مرکزی کنٹرول کے فوائد نہیں ہیں۔ چین کے پاس تحقیق کے متعدد شعبوں میں، اہم اختراعات اور سائنس میں مطلوبہ آزادی کا فقدان ہے۔ کامیابی کو کنٹرول شدہ طریقے سے نیویگیٹ تو کیا جا سکتا ہے، تاہم تخلیقی صلاحیت کو نہیں۔ اس سلسلے میں، امریکہ میں جو آزادی ہے، وہ کمپنی پر مبنی جدت طرازی کی ثقافت پر مبنی ہے اور اب بھی چین اور یورپ پر کافی برتری حاصل ہے۔
اس کے علاوہ، بین الاقوامی تحقیقی تعاون کے لیے وقت بھی مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ چین کو ایک اسٹریٹجک حریف کے طور پر دیکھتے ہیں اور حالیہ جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی تبدیلیاں باہمی طور پر غیر مددگار ثابت ہوئی ہیں۔
چین اور امریکہ کے درمیان اے آئی پر بالادستی کی دوڑ
مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے حوالے سے امریکہ اب بھی آگے ہے، لیکن چین بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ڈیپ سیک لینگویج ماڈل ظاہر کرتا ہے کہ چینی ٹیکنالوجیز بہت ہی جلدی اور سستی مارکیٹ میں داخل ہو سکتی ہیں۔ ہارورڈ اس شعبے میں بھی جدت کا ایک بہترین مرکز ہے، لیکن چینی اکیڈمیاں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔
چین آج بھی اے آئی پیٹنٹ ایپلی کیشنز میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، اور امریکہ بھی اب رفتار کو بہتر بنا رہا ہے، لیکن یہاں تک کہ بہترین یورپی ادارے بھی عالمی موازنے میں اکثر بہت پیچھے رہتے ہیں۔
مغربی نظام کا بحران: امریکہ، یورپی یونین کیوں پیچھے ہیں؟
چین کا عروج ایسے وقت ہو رہا ہے، جب امریکہ اور یورپ میں کمزوری پائی جاتی ہے۔ امریکی تحقیقی منظرنامہ سیاسی انتشار، بجٹ میں کٹوتیوں اور اعلیٰ ہنرمندوں کے اخراج سے دوچار ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کفایت شعاری کے اقدامات اور دونوں سپر پاورز کے درمیان کھلے عام تنازعہ کے نتیجے میں مشترکہ منصوبوں میں نمایاں کمی پائی جاتی ہے جبکہ ٹیلنٹ چین کی طرف منتقل ہوا ہے۔
یورپ امریکہ اور دنیا کے دیگر حصوں کے اس اعلیٰ ہنر سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، جس کا اب امریکہ میں خیرمقدم نہیں کیا جا رہا ہے۔ تاہم، سائنس کے بیشتر شعبوں میں یورپی پسماندگی بہت زیادہ ہے اور یورپی یونین اور یورپ کے باقی حصوں میں عظیم تبدیلی اکثر قومی حساسیت یا پابندیوں کی وجہ سے رک جاتی ہے۔
چین کا عروج طاقت کے توازن کو تبدیل کرتا ہے
بظاہر چین کا نہ رکنے والا عروج عالمی اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی ترتیب کو بدل رہا ہے۔ چین بین الاقوامی تحقیقی ایجنڈے کے کچھ حصوں کو باقاعدہ منظم کر رہا ہے، جب کہ یورپ مستقبل کی ٹیکنالوجیز کی دوڑ میں مزید پیچھے ہوتا جا رہا ہے۔
ترقی کا ایک آپشن چینی ٹیموں کے ساتھ سمجھ بوجھ کر تعاون ہو گا۔ تاہم ایک کھلا سوال ہے کہ چینی نظام سائنسی منظرنامے اور جغرافیائی سیاسی تناؤ کے بڑھتے ہوئے ٹوٹ پھوٹ کا جواب کیا دے گا۔
ص ز/ ج ا (الیگزینڈر فرینڈ)