1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سائی بابا، اندرا پردیش، پُتا پارتھی، تندولکر،Sai Baba

22 اپریل 2011

بھارت کے روحانی پیشوا ستیا سائی بابا کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ اُن کی حالت لمحہ با لمحہ بگڑ رہی ہے اور اُن کے عقیدت مند اُن کے گرد جمع ہو رہے ہیں۔ گرو کی صحت یابی کے لیے اجتماعی دعائیں کی جا رہی ہیں۔

سائی بابا کی 81 ویں سالگرہ پر بھارتی صدر عبدل کلام اُن کے ساتھتصویر: AP

بھارت کی جنوب مشرقی ریاست اندرا پردیش میں سائی بابا کے آبائی گاؤں پُتا پارتھی کی پولیس نے سائی بابا کی عیادت اور اُن کے دیدار کے خواہشمند لاتعداد لوگوں کے اُس ہسپتال کی طرف بڑھتے ہوئے ہجوم کو روکنے کے لیے باڑ کھڑی کر دی ہے، جہاں سائی بابا زیر علاج ہیں۔

تمام بھارت سے پُتا پارتھی آنے والے سائیں بابا کے عقیدت مندوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ تمام ہوٹل اور دیگر قیام گاہیں بھر چُکی ہیں تاہم سائی بابا کے پرستار پُتا پارتھی آنے سے نہیں رُک رہے۔ ہوٹلوں میں کمروں کی کمی کے باعث ان میں سے زیادہ تر افراد کُھلے آسمان تلے پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔

ایک بھارتی میڈیکل بُلیٹن کے مطابق سائی بابا کے تمام حیات آفریں اعضاء کمزور پڑتے جا رہے ہیں اور ان پر علاج کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔

سچن تندولکر بھی سائی بابا کے مرید ہیںتصویر: UNI

85 سالہ سائی بابا کو 28 مارچ کو پُتا پارتھی کے ہسپتال میں پھیپھڑوں اور قلب کی تکلیف اور گردوں کے ناکارہ ہو جانے کے سبب داخل کیا گیا تھا۔ ڈاکٹرز نے کہا ہے کہ اب سائی بابا کا جگر بھی کام نہیں کر رہا اور اُن کا بلڈ پریشر تیزی سے کم ہو رہا ہے، یہ علامات تمام ڈاکٹروں کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔

دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں انسان سائی بابا کی روحانی طاقت کی وجہ سے اُن کی بہت زیادہ قدر کرتے ہیں۔ سائی بابا ہوا سے مختلف چیزیں پیدا کرنے کا جادو جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ جنم کا حال بھی بتا سکتے ہیں اور وہ آخری اسٹیج کی بیماریوں کا علاج بھی کیا کرتے ہیں۔

ہندو گرو رسانی بابا پر سیکس اسکینڈل بن چکا ہےتصویر: DW

سائی بابا کے پرستاروں میں بھارت کے سابق وزراء اور صدور کے علاوہ بڑے بڑے تاجر بھی شامل ہیں۔ یہاں تک کہ کرکٹ سُپر اسٹار سچن تندولکر بھی اُن کے معتقد ہیں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں