سابقہ فرانسیسی نوآبادی الجزائر کا پچاسواں یوم آزادی
4 جولائی 2012الجزائر میں کل جمعرات پانچ جولائی کو پچاسواں یوم آزادی منایا جا رہا ہے۔ الجزائر کے عوام کے دلوں میں ابھی تک 1954ء سے 1962ء تک جاری رہنے والی اس جنگ کی یادیں تازہ ہیں، جس دوران 1.5 ملین افراد مارے گئے تھے۔ اس جنگ کے بعد اگرچہ الجزائر نے فرانس سے آزادی حاصل کر لی تھی تاہم جنگ اور خونریزی کے انہی کئی سالوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین ایک وسیع خلیج بھی پیدا ہو گئی تھی۔
فرانس کے نئے صدر فرنسوا اولانڈ الجزائر سے ایک خصوصی نسبت اس لیے بھی رکھتے ہیں کہ وہ 1978ء میں وہاں فرانسیسی سفارتخانے میں آٹھ ماہ تک کام کر چکے ہیں۔
فرانس کی سابقہ نوآبادی الجزائر کے ایک وزیر محمد شریف عباس نے خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب اولانڈ اقتدار میں آ چکے ہیں، اس لیے وہ اولانڈ سے عمل اور نتائج کی توقع رکھتے ہیں۔
فرانسیسی صدارتی انتخابات میں کامیابی سے قبل ستاون سالہ اولانڈ نے تجویز کیا تھا کہ فرانس کو الجزائر میں اپنی 132 سالہ تاریخ کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم انہوں نے الجزائر سے سرکاری طور پر معافی مانگنے کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔ الجزائر کے عوام کی ایک بڑی تعداد چاہتی ہے کہ پیرس حکومت الجزائر سے ریاستی سطح پر معافی مانگے۔
پچاس کی دہائی میں جب الجزائر نے آزادی کی جدوجہد شروع کی تھی تو پیرس حکومت نے وہاں اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے ایک جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق آٹھ برس تک جاری رہنے والی گوریلا طرز کی اس جنگ میں 1.5 ملین انسان لقمہء اجل بنے تھے۔
یہ امر اہم ہے کہ الجزائر کی حکومت نے ابھی تک فرانس سے سرکاری طور پر باقاعدہ معافی کا مطالبہ نہیں کیا ہے۔ اس حوالے سے الجزائر کی سیاسی جماعتوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ 2010ء میں الجزائر کی پارلیمان کے 125 ممبران نے ایک بل منظور کروانے کی کوشش کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ فرانس نے اپنی سابقہ نوآبادی میں بہت ظلم ڈھائے تھے لیکن وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔
ناقدین کے بقول فرانسیسی صدر الجزائر کے ساتھ باہمی تعلقات میں بہتری پیدا کرتے ہوئے سیاسی طور پر بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ پیرس حکومت اس وقت نسلی طور پر الجزائر سے تعلق رکھنے والے فرانسیسی باشندوں کے معاشرے میں بہتر انضمام کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔
ab / mm / Reuters