سابقہ مشرقی جرمن ریاست کا صنعتی شعبہ، کھنڈرات کیسے بنا؟
6 دسمبر 2019اس مضمون کی مرکزی تصویر میں موجودہ فیکٹری جرمن دارالحکومت برلن کے مشرقی حصے میں قائم ایک کیبل بنانے والے پلانٹ آئی کے اے (IKA) کی ہے۔ یہ سابقہ مشرقی برلن کے انتہائی خوبصورت تصور کیے جانے والے علاقے کوئپنک میں واقع تھی۔ فیکٹری کا حال تصویر سے نمایاں ہے۔ یہ انتہائی بڑی عمارت ویرانی سے دوچار ہے اور اسے کوئپنک کے مجموعی شناخت پر دھبہ خیال کیا جاتا ہے۔
سابقہ مشرقی جرمن ریاست میں آئی کے اے کیبلز فیکٹری میں تقریباً ساڑھے پانچ ہزار افراد کام کرتے تھے۔ سن 1980 میں اس کمیونسٹ ریاست کے نظام میں پہلے زوال شروع ہوا اور پھر انہدام۔ سن 1990 میں دونوں جرمن ریاستوں میں اتحاد ہوا اور مارکیٹ اکانومی کے سامنے روایتی مارکیٹ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ مارکیٹ اکانومی کی وجہ سے سابقہ مشرقی جرمن ریاست کے کئی صنعتی یونٹس مسابقت کی فضا میں سنبھل نہیں سکے۔
برطانیہ کی ایک بڑی کیبل ساز کمپنی کیلینڈر (BICC) نے سن 1992 میں آئی کے اے کا کنٹرول سنبھال لیا لیکن چار ہی برسوں بعد اچانک اس نے اپنا کاروبار ٹھپ کر دیا اور اس طرح ایک مشہور فیکٹری ایریا ویرانے میں تبدیل ہو کر رہ گیا۔
سابقہ مشرقی جرمنی کی ایک ریاست لوئر سیکسنی میں بھی ایک بڑا صنعتی یونٹ ویران ہو چکا ہے۔ یہ کمپنی فوکے روڈے (Vockerode) کمیونٹی کی تھی۔ یہ کوئلے سے چلنے والے گیس ٹربائن تھے، جہاں سے ہزاروں افراد کو موسم سرما میں ہیٹنگ فراہم کی جاتی تھی۔ یہ پلانٹ سن 1994 سے پیداوار بند کر چکا ہے۔ اس کی چار بلند چمنیوں سے دھواں اٹھنا بند ہو چکا ہے۔ اس فیکٹری کی عمارت موجود ہے لیکن کام کرنے والے ہاتھ نہیں رہے۔
رواں برس کے اوائل میں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ جنوبی جرمن ریاست باویریا کے ایک سرمایہ دار نے لوئر سیکسنی کی اس فیکٹری کو بڑے ٹرکوں کی پارکنگ میں تبدیل کرنے کی خواہش کی تھی۔ اس پارکنگ کے ساتھ ہوٹل اور پٹرول پمپ بنانا بھی شامل تھا اور اس پراجیکٹ پر وہ گیارہ ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا تھا لیکن فوکوروڈے خاندان اس کے لیے تیار نہیں ہوا۔
لیس اور کشیدہ کاری کے حوالے سے جرمنی میں ' پلوائنر اشپٹز‘ ایک اہم نام تھا لیکن اس کی شہرت اور سامان کی پروڈکشن کے دن گنے جا چکے ہیں۔ س کے فیکٹری ایریا میں پر بھی اداسی کا راج ہے۔ یہ فیکٹری بھی مارکیٹ اکانومی کے چیلنج کو برداشت نہیں کر سکی۔
ایسے بہت سارے فیکٹری علاقے موجود ہیں۔ ان کارخانوں پر بینکوں کے قرضوں کا بھی بوجھ ہے اور یہ بوجھ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ بینک ان اداروں کو دی گئی رقوم ہر قیمت پر واپس لینے کی اب بھی خواہش رکھتے ہیں۔ مختلف ادارے ان پرانی عمارتوں کی تعمیر نو میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش میں بھی ہیں۔
کئی سابقہ فیکٹریوں کی فروخت بھی ہوئی ہے لیکن سرمایہ کار اُن پر مزید خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ خیال کیا گیا ہے کہ یہ سرمایہ کار ریئل اسٹیٹ کی قیمتوں کو مزید بلند ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اور ایک مقررہ وقت پر ہی مزید پیش رفت کی سوچ اپنائے ہوئے ہیں۔
ہارڈی گراؤپنر (ع ح ⁄ ک م)